امریکہ نے 2001 کے اکتوبر میں افغانستان پر چڑھائی کردی اور دسمبر کے شروع میں طالبان کے آخری مضبوط مرکز بھی سر کرلیا۔
امریکی اسپیشل فورس اور سی آئی اے کی مدد سے حامد کارزائی اقتدارمیں آگئے اور کئی طالبان نے اس کے سامنے ہتھیار ڈال دیے، کچھ نے بذریعہ خطوط اور کچھ نے کوئٹہ میں مقیم کارزئی کے بھائی کے ذریعے ایسا کیا۔
پانچ دسمبر کو ملا عمر نے قندہار کی ایک کاروباری شخصیت کے مکان کے تہہ خانے میں طالبان کی قیادت کا اجلاس بُلایا۔ اس اجلاس میں طالبان افغان صوبے زابل کا کمانڈر عبدالسلام راکٹی بھی شریک تھا۔ راکٹی نے بتایا کہ سارے حاضرین کی تہہ خانے میں داخلے سے پہلے مکمل تلاشی لی گئی، کچھ لوگوں سے راستے میں گاڑیاں تبدیل کرنے کو بھی کہاگیا تاکہ مُلا عمر کی قیام گاہ کو خفیہ رکھّا جاسکے۔
وہاں مُلا عمر ہتھیار گود میں لیے فرش پر بیٹھے ہوئے تھے، ملا عمر نے حاضرین سے پوچھا اب کیا کرنا چاہیے (زیادہ تر ہتھیار ڈالنا چاہتے تھے لیکن کہنے کی ہمت کسی میں نہیں تھی اس لئے خاموش تھے)۔ پھر کسی نے ہمت کرکے جواب دیا کہ وہ ہتھیار ڈالنا چاہتے ہیں۔ راکٹی کی جان میں جان آئی لیکن وہ مُلا عمر کے غصے سے خوفزدہ تھے “ میں سوچ رہا تھا کہ اگر ہم کہیں کہ ہم ہتھیار ڈالنا چاہتے ہیں تو کہیں مُلّا عمر ہمیں گولی نہ ماردے۔
لیکن مُلا عمر انتہائی پُرسکون تھے، اُنہوں نے کہا کہ وہ اپنے اختیارات مُلا عبید اللہ کو ٹرانسفر کررہے ہیں اور عملی طور پر خود کو شرکاء کے فیصلے سے بری کردیا۔اور ایک خط پر دستخط کیے جس کے مطابق مُلّا عبیداللہ اسوقت طالبان کے وزیر دفاع طالبان کی قیادت کریں گے اور ان کے حُکم پر سختی سے عمل کیا جائے ۔ اس کے بعد انہوں نے دوبار پوچھا کیا (اس تحریر کا) مطلب سمجھتے ہو، تنہا کمرے سے باہر چلے گئے۔کمرے میں رہنے والے خوش ہو گئے کہ اب لڑائی ختم ہو جائے گی راکٹی نے بتایا)۔
اگلے روز مُلا عبیداللہ قندہار کی شاہ ولی کوٹ ڈسٹرکٹ کرزئی اور اس کے حامیوں سے ملاقات کے لئے اور وہاں پر ایک معاہدہ طے پایا جسے “معاہدہ شاہ ولی کوٹ “ کہا جاتا ہے ۔اس کے مطابق مُلّا عبید اللہ اور طالبان ہتھیار ڈال کر اپنے گھروں واپس جانے یا حکومت میں شریک ہونے پر راضی ہو گئے تھے، عملی طور پر طالبان نے اپنی تنظیم کی تحلیل کااعلان کردیا تھا۔کرزئی نے بھی اگلے دن میڈیا کے سامنے اعلان کیا کہ اسامہ بن لادن اور القائدہ افغانستان کے دشمن ہیں لیکن طالبان فرزند زمین ہیں ور انہیں عام معافی دی جاتی ہے۔
تھوڑی دیر کے لئے ایسا لگا کہ جنگ ختم ہو گئی لیکن امریکہ اس سے متفق نہیں تھا۔ امریکہ کا کہنا تھا کہ طالبان ایک خطرہ ہیں اور مُلا عمر اسامہ بن لادن کے بعد دوسری نمبر پر سب سے بڑا دہشت گرد ہے۔ اور امریکی وزیر دفاع نے حامد کرزئی کو مجبور کیا کہ طالبان اور مُلّا عمر کے لئے عام معافی منسوخ کی جائے۔
دوسری طرف امریکیوں نے کرزئی کی طالبان سے امن کوششوں کو ناکام بنانے کے لئے کرزئی کے منتخب شدہ گورنر جو طالبان کے بارے میں نرم رویہ رکھتا تھا کی جگہ سخت طالبان مخالف گُل آغا شیرازی کو گورنر متعین کروادیا۔اور اس کے آدمیوں نے فوری طور پر طالبان کو گرفتار کرنا شروع کردیا۔ جس کی وجہ وہ پاکستان میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔
چونکہ سب سے بڑا شکار مُلا عمر تھا اس لئے امریکیوں اور شیرازی کے لوگوں نے قندہار اور ہلمند میں بے تحاشا چھاپے مارے لیکن وہ اس اجلاس میں اپنے اختیار چھوڑنے کے بعد قندہار کی گلیوں سے غایب ہو چُکے تھے۔