کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا
مجھےتو اس قحط الرجال پہ ر ونا آیا
تبدیلی کی تبدیلی کی سرگوشیاں ۔۔ پھر وہی میوزیکل چیئر یہ نہیں تو پھر کون ۔۔ کوئی کہتا ہے کہ ایک پیچ پھٹ گیا ہے، کوئی یہ کہتا ہے کہ سر کی محبتیں اور فیض کا چشمہ مختلف راہوں میں بہ رہا ہے۔
یہ باتیں کرنے والے شاید “اُن “ سے واقف نہیں ہیں، تبدیلی والے سر ساتھ ایک ایک پیچ پر ہوں یا نہ ہوں ۔۔ لیکن سر کے فیض کے بغیر کسی حمید کی حمد نہیں چل سکتی۔
یاد ہے کہ سر کی مدت2022ء میں ختم ہورہی ہے اس وقت ہمارا اگر فیض کسی کور کی کمان نہیں کرے گا تو وہ سر کا جانشین نہیں بن سکتا۔اور یہ صرف اور صرف سر کی “نگاہ کرم” پر منحصر ہے۔
بدلو بدلو ۔۔۔ پر کس سے بدلو؟؟ یہ آزمائے گئے وہ بھی کم آزمائے نہیں گئے۔۔ یہ بدترین ہیں تو کیا ہوا وہ کونسے بہترین حکمرانی کی بہترین مثال تھے۔
یہ جس کیاری کی پیداوار ہیں، دوسرے والے بھی تو اسی باغ میں پیدا ہوئے اور پلّے بڑہے۔کیوں نہ جس ٹکسال میں یہ کھوٹے سکّے ڈھلتے ہیں۔ انہی کو اصلی سکے ڈھالنے کا ٹھیکہ دے دیا جایے؟؟؟
مان لیا تم ہمارے مائی باپ۔۔ اب تو رحم کرلو ۔۔ ہم پر نہیں تو خود پر سہی۔۔۔ہم تو روکھی سوکھی پر بھی پل یا چل جائیں گے۔ آپکا کیا ہوگا جنابِ والا۔۔۔
کیازمانہ تھا جب آپکو امریکی کھلونے تو قرض یا خیرات میں مل جاتے تھے۔۔ پھر بھی فرانسیسی کھلونے خریدنے کے قابل تھے۔
آپکا دشمن روسی کباڑوں پر گذارا کرتا تھا۔۔ اور اب وہ امریکی و فرانسیسی اسٹیٹ آف آرٹ کھلونوں کی خریداری کرنے کے قابل ہے۔
اور آپ چین مارکہ کھلونوں پر آگئے ہوں۔ ساری افسانوی بہادری اپنی جگہ۔۔۔۔ آپ بھی جانتے ہیں کہ بہترین حالات میں بھی آپ بھارت سے کھُلی جنگ نہیں کرسکتے تھے۔
اسی لیے 1948ء سے لیکر کارگل تک کشمیر کا معاملہ طے نہیں ہو سکا مجھے یقین ہے اگر آپ واقعتاً کشمیر جیتنے کی پوزیشن میں ہوتے تو اب تک لےچُکے ہوتے ۔
اسی لئے 1965ء میں 17 دن کے بعد جنگ بندی قبول کی اور 1971ء میں بھی30 دن نہ لڑ سکے اور مشرقی پاکستان کو بطور تاوان دیکر جان چھُڑائی ۔
کارگل کی جنگ جب تک کارگل کی پہاڑیوں پر تھی آپ نے جُرّات و بہادری کی داستانیں رقم کیں لیکن جب اس وقت کے بھارتی ویراعظم اٹل بہاری واچپائی نے کھلی جنگ کی دھمکی دی آپکو وزیراعظم کو محفوظ پسپائی کی درخواست کے ساتھ امریکہ بھیجنا پڑا، جو کہ حقارت کے ساتھ مسترد کردی گئی۔اور ہماری فوج کا اصل جنگ میں اتنا نقصان نہیں ہو جتنا پسپائی کے دوران ہوا۔
یہ وہ سچ ہے جس کا اعتراف کرنے کی ہمت کسی میں نہیں ہے۔
لوگ کہتے ہیں کہ کشمیر کا سودا ہو گیا۔۔معاف کیجئے گا سودا خریدار و دوکاندار کے درمیان ہوتا ہے۔ آپکے پاس نہ پھوٹی کوڑی اور نہ زمین ،آپ سے کون سودا کرے گا؟ نیپولین نے کہا تھا:
An army marches on its stomach.
صاحب اب تو خیال کرلو ۔۔۔ ہم تو رعایا ہیں بندوق والوں کے اشاروں پر مسلط کردہ “صندوق“ والوں کی۔۔ اب صندوق والوں سے کیا بات کرنی وہ تو خود ہوا بھرے غبارے ہیں۔
وہ جو جالب نے کہا تھا کہ ۔۔
ڈرتے ہیں بندوق والے ایک نہتّی لڑکی سے
جس “نہتی لڑکی” کے بارے میں جالب فرمارہے تھے وہ دومرتبہ عروس اقتدار سے ہمکمنار ہوئی اور اس نکاح میں ولی بندوق والے ہی تھے۔ اب ایک دوسری “نہتّی لڑکی” اپنے لیےاسی ولی کی آشیر واد کی منتظر ہے۔
ہمارے بندوق والے ساتھ ہی غبارے پھُلانے کا بھی کاروبار کرتے ہیں۔
ابھی چند دنوں پہلے ایک غبارے (زبیر عمر ) نے آواز لگائی تھی کہ غبارے والے سے معاملات طے ہوگئے ہیں، اب انمیں ہوا بھرنے کا وقت آیا چاہتا ہے۔ یہ “خوشخبری” سچّی ہے یا نفسیاتی جنگ کا حصہ لیکن اس حقیقت کی غمّازی ضرور ہے کہ ۔۔آشیرواد غبارے (بندوق ) والے ہی سے ملنی ہے۔جس کو موجودہ وزیراعظم ایمپائر کے نام سے بھی یاد کرتے تھے۔
بہتر ہے غبارے والے کے حضور میں ہی بنتی کرلیں۔۔ دُہائی ہے سرکار دُہائی ۔۔ ہزاروں سال سے یہ سرزمین کسی نہ کسی آقا نے زیرنگین رہی ہے۔ کل کوئی اور تھا۔۔ آج آپ ہیں۔۔۔ کل کون ہوگا۔۔۔ہم تو مختلف آقاؤں کی سیوا کرتے رہے ہیں۔۔
ہمارے لئے نہیں تو اپنی سلطنت بچانے کے لئے ہی سہی۔۔ رحم ۔۔۔ رحم ۔۔ ہمارے آقا رحم
بَک رہا ہوں جنوں میں جانے کیاکیا کچھ ۔۔۔