پاکستان دولخت ہوچکا تھا۔ باقی ماندہ پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور ذوالفقارعلی بھٹو اس حکومت کے سربراہ تھے ۔ سندھ کے شہری علاقوں کے عوام اور ذوالفقارعلی بھٹو کے درمیان کئی وجوہات کی بناء پر پہلے ہی سے دوریاں موجود تھیں۔ شہری سندھ کے عوام کی رائے میں ذوالفقارعلی بھٹو نے بنگال میں فوجی آپریشن کی حمایت اور ڈھاکہ میں بلائے گئے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کرکے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو آخری اخلاقی جواز فراہم کردیا تھا۔ اس طرح شہری سندھ کے عوام ذوالفقارعلی بھٹو کو پاکستان دولخت کئے جانے والی سازش میں حصہ دار تصور کرتے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں کے عوام اور ذوالفقارعلی بھٹو کے درمیان سیاسی دوری اور بد اعتمادی کی پہلی بنیاد غالباً جنرل ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناح کے مابین ہونے والے انتخابات بنے۔ ان انتخابات میں بھٹو پر الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے جنرل ایوب کے حق میں انتخابات میں ریاستی مشینری استعمال کرکے محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف بد ترین دھاندلی کروائی ہے۔ جس کا یک و تنہا ذمہ دار بھٹو ہی کو سمجھا گیا۔ اس کی وجہ یقیناً یہی تھی کہ وہ اس وقت جنرل ایوب کی کابینہ کے اہم ترین وزیر تھے۔ اگرچہ کہ بھٹو ، جنرل ایوب خان کی بنائی گئی کنونشن مسلم لیگ کے مرکزی سیکریٹری جنرل ان انتخابات کے محض تین ماہ کے اندر ہی بنا دیئے گئے تھے لیکن ان کو ایوب خان کا بے پناہ اعتماد الیکشن سے پہلے بھی حاصل تھا ۔ دوسری جانب شہری سندھ کے عوام ان انتخابات میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی بھرپور حمایت کر رہے تھے ۔
ذوالفقارعلی بھٹو نے اگرچہ کہ اس کے کچھ ہی عرصہ بعد جنرل ایوب خان سے اختلاف کرتے ہوئے مارشل لاء کی حکومت کو خیر باد کہہ کر اپنی نئی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھ دی تھی لیکن سندھ کے شہری علاقوں کے عوام کے دلوں سے وہ اب بھی دور تھے ۔ اس دور میں ان کی سیاست کا محور چونکہ پنجاب تھا لہذا وہ شہری سندھ کے عوام کی شکایات کو دور نہیں کر سکے اور ان کی زیادہ تر توجہ پنجاب پر ہی مرکوز رہی۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد پاکستان میں انہیں حکومت بنانے کا موقع ملا تو سندھ میں اکثریت نہ ہونے کے باوجود آزاد ارکان کی حمایت سے صوبہ سندھ میں بھی حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ شہری سندھ کے عوام اور بھٹو کے درمیان پہلے ہی کئی امور پر دوریاں تو تھی ہی جن کو دور کرکے باہمی اعتماد کے ساتھ آگے بڑھنے کے امکانات تلاش کرنے کے بجائے انہوں نے اپنی جماعت کے چند رہنماؤں کے مشورے سے سندھ اسمبلی سے لسانی بل منظور کر والیا۔ اس اقدام سے گویا یہ دوریاں مزید گہری ہو گئیں۔ اگر شہری سندھ کے عوام کا اعتماد بحال کر کے دیہی سندھ کے احساس محرومی کو ختم کرنے کے لیے یہ کوشش کی جاتی تو وہ شاید زیادہ کارگر ثابت ہوتی لیکن اس کے برعکس انہوں نے دیہی سندھ کے احساس محرومی کو ختم کرنے کے لیے سندھ میں دس برس کے لیے کوٹہ سسٹم نافذ کر دیا ۔ جس کے تحت دیہی سندھ اور شہری سندھ کے لیے ملازمتوں ، پروفیشنل کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ایک خاص تناسب کے ساتھ نشستیں مخصوص کردی گئیں۔
دوسری جانب ذوالفقارعلی بھٹو کی نیشنلائیزیشن کی پالیسی کے تحت ملک کے بڑے صنعتی ادارے اور کارخانے قومی تحویل میں لے لیے گئے۔ اس غیر یقینی حالات میں قومی سرمایہ دار نے اپنے بچے کچے سرمائے کو ملک میں لگانا بند کر دیا ،لہذا ان وجوہات کا حتمی نتیجہ یہ نکلا کہ سکڑتا ہوا پیرائیویٹ سیکٹر عوام کو ملازمت دینے کی سکت سے محروم ہو گیا۔ ایسے میں سرکاری ملازمتوں کا حصول ہی روزگار کا واحد ذریعہ تھا لہذا ہر فرد خواہ اس کی قابلیت کچھ بھی ہو وہ سرکاری ملازمت کا متمنی بن گیا جبکہ ریاست ہر فرد کو ملازمت فراہم کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتی تھی ۔ ایسے حالات میں کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقے کہ جہاں پڑھنے لکھنے کا زیادہ رجحان تھا وہاں احساس محرومی زیادہ محسوس کیا جانے لگا۔ حصول علم میں بڑھتی ہوئی دشواریوں اور ملازمتوں کے کم ہوتے ہوئے امکانات نے شہری سندھ کے مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کو اس نئی صورت حال میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے نئی سیاسی حکمت عملی بنانے کی جانب راغب کیا تاکہ وہ اپنے اور اپنی نسل نو کے مستقبل کو محفوظ بناسکیں۔
ان حالات میں قیام پاکستان کے موقع پر بھارت سے ہجرت کرکے پاکستان آنے والوں کی اکثریت جو سندھ کے شہری علاقوں میں رہائش پذیر تھے ان کی نسل کے چند نوجوان طالب علموں نے مہاجر طلباء کے حقوق کے تحفظ کے نعرے کے ساتھ شہری سندھ کے تعلیمی اداروں میں سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ جن کی پزیرائی میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا گیا۔
قومی سیاست کی جانکاری رکھنے والے چند اہل علم جو شہری سندھ کے سیاسی مزاج اور پیدا ہونے والے سیاسی خلاء سے پوری طرح آگاہ تھے انہوں نے طالب علموں کے پلیٹ فارم سے شروع ہو نے والی اس تحریک کی فکری آبیاری کی اور محض چند برسوں میں مہاجر طلباء کے حقوق کے تحفظ کے لیے بنائی جانے والی تنظیم کو قومی سیاسی قالب میں ڈھال دیا۔ شہری سندھ کے عوام کو ان سے بے پناہ امیدیں وابستہ ہوگئیں۔ مہاجروں نے دام، درم، سخن ہر طرح سے اس کو اپنی بھرپور حمایت سے سرفراز کیا۔
مہاجر سرمایہ دار جو سندھ میں ہر روز کی لاقانونیت سے بیزار تھا اس نے اس نوزائیدہ تنظیم کو خوب چندہ دیا اور یہ تصور کیا کہ اب اگر اسے کسی نے کاروباری سرگرمیوں کے حوالے سے پریشان کیا تو اس کے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے اس کی بھی جماعت موجود ہے۔ اسی طرح مڈل کلاس اس غلط فہمی کا شکار ہو گئے کہ اب ہماری جماعت ہر فورم پر ہمارے مفادات کا دفع کرے گی اور اب بہت جلد سندھ سے کوٹہ سسٹم کا خاتمہ ہوجاۓ گا۔ پھر اس کے بعد ہمارے بچوں کو تعلیمی اداروں میں داخلوں سے محروم نہیں رکھا جاسکے گا اور اسی طرح یہ غلط فہمی بھی کہ اب ملازمتوں میں بھی مہاجروں کا استحصال نہیں ہو سکے گا۔سندھ کے شہری علاقوں کے مہاجر جوق در جوق MQM میں شامل ہوتے چلے گئے جبکہ انہیں قومی دھارے سے الگ ہو کر اس طرح کی لسانی سیاست کے مضمرات سے آگاہ کرنے والوں یا دوسری سیاسی جماعتوں میں شامل افراد کو اپنی ہی کمیونٹی اور اپنے ہی شہر میں مشکوک نگاہوں سے دیکھا جانے لگا۔
ایسے میں 1987 کا وہ سال آگیا کہ جب سندھ بھر میں بلدیاتی انتخابات منعقد ہوۓ اور سندھ کے دونوں بڑے شہروں کراچی اور حیدرآباد میں MQM اپنا مئیر منتخب کروانے میں کامیاب ہو گئی۔ ان انتخابی نتائج سے سندھ میں آباد مہاجروں کے اعتماد میں اضافہ ہوا ۔اس کے بعد ملک بھر میں منعقد ہونے والے 1988 کے جنرل الیکشن میں MQM نے شہری سندھ میں واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور قومی سیاست میں اپنے وجود کو تسلیم کروا لیا۔ یہی وجہ تھی کہ صوبہ سندھ اور مرکز میں پاکستان پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت کا حصہ بن گئے ۔ پھر کبھی حکومت تو کبھی اپوزیشن کا حصہ رہے، اس عرصہ میں اپنے ووٹروں اور حامیوں کو یہی یقین دلاتے رہے کہ بہت جلد ان کے حقوق حاصل کر لیئے جائیں گے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عوام میں مایوسی پیدا ہونا شروع ہو گئی۔ اب پارٹی کے اندر اور باہر سے جب کارکردگی پر سوالات شروع ہوۓ تو بزور طاقت ان کی آواز کو دبا دیا گیا۔ ریاست کے طاقتور طبقات کے ساتھ مل کر انتخابی سیاست پر اس طرح اپنا اثرورسوخ بڑھا لیا گیا کہ عام ووٹرز سے رابط بھی مقطع ہو گیا۔ اب وہ الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے ہنر سے پوری طرح واقف ہوچکے تھے۔ کراچی اور حیدرآباد شہر میں ڈکیتی، اغواء، قتل وغارت غرض یہ کہ لاقانونیت شہری سندھ کا معمول بن گیا ۔ ان حالات میں سب سے پہلے سرمایہ داروں نے اپنی حمایت واپس لی ، اس کے بعد مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس اس جماعت سے مایوس ہو کر لاتعلق ہو گئے۔ اب اس کلاس کی تمام تر توجہ اپنے بچوں کو اچھے اور بہتر تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک بھیجنے پر مرکوز ہو گئی ہے ۔
اسی کی دہائی میں مہاجر حقوق کے نام پر بننے والی اس سیاسی جماعت کی اب کل حمایت لوئر کلاس اور شہر کی پسماندہ بستیوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ سندھ کے شہری علاقوں کے عوام کے سب خواب چکنا چور ہو چکے ہیں بلکہ یہ پوری کمیونٹی قومی سطح پر الزامات اور تنہائی کا شکار ہو کر ذہنی طور پر چکناچور ہوچکی ہے۔
جب معاشرہ سیاسی طور پر مفلوج اور بانجھ ہو جائے اور وہاں جہالت اور جبر کی حاکمیت قائم ہو جائے تو اس معاشرے میں مکالمہ ، مصالحت اور مفاہمت کی روایت بھی دم توڑ دیتی ہے، اگر وہاں دلیل کو کمزوری سمجھ کر فیصلے طاقت کے بل بوتے پر کئے جارہے ہوں تو اس معاشرے میں بسنے والی مختلف مذہبی، مسلکی یا لسانی اکائیوں کے درمیان مفادات کے ٹکراؤ کے ضمن میں پیدا ہونے والی غلط فہمیاں سیاسی اختلاف تک ہی محدود نہیں رہتیں بلکہ نفرتوں پر پہنچ کر اختتام پذیر ہوتی ہیں۔ پاکستانی معاشرے کو آج 73 سال بعد بھی اسی طرح کی صورتحال کا سامنا ہے۔بہرحال اس مرحلے پر اب ملک کی قومی سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ زخموں سے چور اس کمیونٹی کو گلے لگائیں، ان کے اعتماد کو بحال کر یں اور قومی دھارے کی سیاست میں ان کے بھی صحت مند کردار کا تعین کریں۔