دس سال پرانی بات ہے، میں رات کوآفس میں اپنے کاموں سے فارغ ہوکر گھر پہنچا ہی تھا کہ کسی پرائیوٹ چینل پر ایک نیوز بریک ہوئی کہ کارساز پر بم دھماکہ کی اطلاع۔ پہلے میں نے آفس (پاکستان ٹیلی ویژن، کراچی) فون کرکے فوری طور پرنیوز ٹیم کو اسپاٹ پر بھیجا۔ اس کے بعد تیزی کے ساتھ آفس جاپہنچا، وہاں پہنچنے کے بعد معلوم ہوا کہ دہشت گردوں نے شاہراہ فیصل پر واقع پاک بحریہ کے پی این ایس مہران بیس پر حملہ کردیا ہے (22مئی 2011)۔ اس دوران میں بھی وہاں گیا، لیکن اندر مہران بیس کی طرف کسی کو جانے کی اجازت نہ تھی۔ بلکہ شاہراہ فیصل کا وہ حصہ ہی بلاک کردیا گیا تھا۔
وہاں جاکر یہ معلوم ہوا کہ دہشت گردوں نے بحریہ کے فضائی اڈے پر رات ساڑھے دس بجے کے قریب تین اطراف سے حملہ کیا تھا۔ انھوں نے راکٹ لانچر چلائے اور دستی بم پھینکے جس سے متعدد دھماکے ہوئے تھے۔
حملے کی اطلاع ملتے ہی بحریہ کے کمانڈوز، نیول میرینز اور رینجرز کے دستے فوری طور پر پہنچ گئے اور انھوں نے علاقے کا محاصرہ کر لیا۔
زور دار دھماکوں سے پورا علاقہ گونج رہا تھا، دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ اندر جاکر اس پوری کارروائی کی کوریج کی جائے۔ لیکن یہ ممکن ہی نہ تھا، اور کوئی مذاق نہ تھا، پاک بحریہ کی تنصیبات پر دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا۔
مسلح افواج کے دستے خاص طورپر کمانڈوز کو لے کر ٹرک مسلسل اندر جارہے تھے۔اسی دوران ایک زوردار دھماکہ ہوا اور شعلے بلند ہونے لگے بعد میں معلوم ہوا کہ پاک بحریہ کے طیارے کو بم سے اڑا دیا گیا تھا۔
میں اس دوران پی ٹی وی کے نیوز روم آگیا تھا۔ کیونکہ وہاں ہمارے نوجوان رپورٹر شیراز علی ڈاہری بہترین کوریج کررہے تھے۔
کراچی شہر میں کئی کنٹونمنٹ ہیں جو بری، بحریہ اور فضائیہ کے زیرِانتظام ہیں۔پی این ایس مہران بھی انتہائی حساس علاقہ تصور کیا جاتا ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اسے پہلے ہی ریڈ زون قرار دے چکے تھے۔
پی این ایس مہران شہر کی مصروف ترین شاہراہ، شاہراہِ فیصل پر واقع ہے۔ جہاں حملہ کیا گیا، اُس مقام سے ذرا فاصلے پر کارساز پل کے قریب اکتوبر سنہ دہ ہزار سات میں سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کی آمد پر اُن کے قافلے کو بم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ جس کا میں چشم دید گواہ تھا۔
پی این ایس مہران کے دونوں جانب خاصا بڑا رقبہ پی اے ایف فیصل یعنی پاک فضائیہ کے پاس ہے۔
پی اے ایف فیصل بیس کے ایک جانب شاہ فیصل کالونی اور دوسری جانب دادابھائی ٹاؤن ہے۔ اِس کنٹونمنٹ ایریا کے پچھلی جانب ملیر ندی واقع ہے۔ اس جگہ زیادہ تر جھاڑیاں ہیں اور یہ نسبتاً غیر آباد علاقہ ہے۔ اور یہ ہی وہ جگہ ہے جہاں سے شدت پسندوں نے داخل ہونے کا راستہ چنا۔ کیونکہ اس جگہ تک پہنچنے کے راستے بھی مسدود ہیں اور یہاں تک بآسانی پہنچنا ذرا محال تصور کیا جاتا ہے۔
کنٹونمنٹ کے اِس علاقے میں ایک پی اے ایف میوزیم، ایک پارک اور چند شادی ہال ہیں جہاں مطلوبہ چیکنگ کے بعد عام آدمی کی رسائی ممکن ہے۔ حملے کے چندرو ز بعد پاک بحریہ کے اس وقت کے سربراہ ایڈمرل نعمان بشیر نے میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے کہا تھا کہ حساس نوعیت کا یہ علاقہ جو شہر سے باہر قائم کیا گیا تھا، آبادی کے پھیلاؤ کے بعد اب شہر کے درمیان آگیا ہے۔
ایڈمرل نعمان بشیر نے کہا ’ہماری مجبوری یہ ہے کہ اب یہ شہر اتنا زیادہ پھیل گیا ہے، یہ ہی علاقہ جو کارساز کا تھا، جب نیوی کا یہاں پر کارساز اسٹبلشمنٹ بنا تھا تو یہ شہر سے بہت دور تھا، اب یہ شہر کے سینٹر میں آگیا ہے۔ اِسی طریقے سے جب یہ بیس بنا تھا یہ پورے پیچھے جو ایریا ہے اور یہ اِدھر یہ جو ایریا ہے شادی ہالوں کا اور پیچھے جو آبادی ہے شاہ فیصل کالونی کی، یہ نہیں موجود تھیں۔ اور اس میں میری یہ ہی کوشش رہی کہ ہم یہاں سے کہیں اور منتقل ہوجائیں۔
یہ واضح کردوں کہ اس زمانے میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی، آصف زرداری صدر اور سید یوسف رضا گیلانی وزیراعظم تھے۔اسی رات اسلام آباد سے وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک بھی آگئے۔ ان کیلئے بھی نیوز ٹیم کا انتظام بڑی مشکل سے کیا۔ کیونکہ رات میں عموماً ایک ہی نیوز ٹیم ہوا کرتی تھی، اس ایمرجنسی سے نمٹنے کے لئے میں نے گھروں سے کیمرہ مین اور رپورٹر بلوالئے تھے۔ ویسے بھی ہمارانیوز چینل پرائیوٹ تو ہے نہیں، نیم سرکاری ادارہ ہے۔ اس لئے کچھ مشکلات تو ہوتی ہی ہیں۔ ویسے نیوز سے وابستہ بیشتر افراد پوری لگن اور جانفشانی سے کام کرتے تھے۔
اپنی آمد کے بعد وزیراعلیٰ ہاؤس کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اس وقت کے وفاقی وزیر داخلہ عبدالرحمان ملک نے کہا کہ جدید اسلحہ سے لیس چھے سے سات دہشت گرد ملیرندی کے علاقے سے دیوار کاٹ کر بیس کے اندر داخل ہوئے تھے۔ان کی عمریں بیس سے پچیس سال کے درمیان تھیں،دہشت گردوں کی چھوٹی چھوٹی داڑھیاں تھیں، رنگ صاف اور کپڑے غیر ملکیوں کی طرح تھے۔ انہوں نے بتایا کہ دہشت گردوں کے پاس طاقتور دستی بم تھے اور ان کا پہلا نشانہ پی تھری سی اورین طیارہ تھا۔ جبکہ پاک بحریہ کے ترجمان نے بتایا کہ پی این ایس مہران پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کی تعداد بیس سے زیادہ تھی۔ انہوں نے بحریہ کے اہلکاروں پر راکٹ لانچروں اور خودکار ہتھیاروں سے حملہ کیا تھا۔
پاک فوج کے جوان رات بھر دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے رہے۔ دہشت گرد مہران بیس پر صبح گیار ہ بجے تک قابض رہے بالآخران پر قابو پایا گیا، اس دوران چار دہشت گرد مارے گئے اور دو مبینہ طور پر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔کارروائی کے دوران بحریہ کے ایک نوجوان لیفٹننٹ کرنل سمیت بارہ اہلکار شہید ہوئے، پاک بحریہ کے دو قیمتی اورین طیارے تباہ کردئیے گئے اور بہت سی تنصیبات کو نقصان پہنچایا گیا۔
اگلے روز ہی کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے اس حملے کی ذمے داری قبول کرلی اور کہا کہ اس نے یہ حملہ 2مئی 2011کو ایبٹ آباد میں القاعدہ کے لیڈر اسامہ بن لادن کی امریکی فورسز کی کارروائی میں ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے کیا۔طالبان کے ایک ترجمان احسان اللہ احسان نے العربیہ ٹی وی سے کسی نامعلوم مقام سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ”یہ حملہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم متحد اور مضبوط ہیں“۔
اکتوبر2009ء میں راول پنڈی میں پاک فوج کے جنرل ہیڈکوارٹرز جی ایچ کیو پر حملے کے بعد دہشت گردوں کا پاکستان کی کسی فوجی تنصیب پر وہ دوسرا بڑا حملہ تھا۔
میں چوبیس گھنٹے کام کرنے کے بعد گھر واپس چلاگیا۔ لیکن بہت افسردگی کے ساتھ، افسردگی ا س بات پر کہ دہشت گردوں کے حوصلے اتنے بڑھ گئے تھے کہ وہ مسلح افواج کی تنصیبات پر حملے کررہے تھے۔ جس کے نتیجے میں عوام خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگے تھے۔ وہ حملہ کوئی معمولی نوعیت کا نہ تھا، دہشت گردوں نے پورے سولہ گھنٹے مقابلہ کیا تھا۔ لیکن پاک فوج نے چند سال کے اندر ہی پورے ملک میں دہشت گردی پر قابو پالیا اور اب وہ دن ماضی کی خوفنا ک یادیں اور ڈراؤنا خواب بن کر رہ گئی ہیں۔