بعض اوقات قحط الرجال پر افسوس ہوتا ہے کہ جن لوگوں کو ہم معاشرے کے بہتر افراد سمجھتے ہیں ، یقیناً کوئی بھی تمام موضوعات کا ماہر نہیں ہو سکتا ۔لیکن ملک وقوم کے مستقبل کے بارے میں دورس فیصلے کرنے سے پہلے غور و خوص کرنا شاید ہماری فطرت ہی نہیں ,بلکہ نری جذباتیت ہی ہمارا طرہ امتیازہے۔
میرے ایک انتہائی محترم دوست جو کہ ایک سیاسی جماعت کے ذمہ دار بھی ہیں، سوشل میڈیا پر مسلسل تحریک لبیک کے فرانسیسی سفیر ملک سے نکالنے کے مطالبے کے حق میں لکھ رہے ہیں۔
بدقسمتی سے ان چند سوالات پوچھ لئے، کہ ممکن ہی میری ناقص عقل و سمجھ میں کچھ اضافہ ہو جائے ۔ سوالات تو بچکانہ ہی ہوں گے لیکن ہم جیسے کم ذہن بھی سیکھنے و سمجھنے کا حق رکھتے ہیں۔
1. سفیر کی ملک بدری کا مطلب کیا ہے؟؟؟
2. کیا فرانس سے سفارتی تعلقات توڑنا مقصود ہے؟
3. یا صرف یہ کہنا کہ بھائی آپکے سفیر کی شکل ہمیں اچھی نہیں لگ رہی براہ کرم کسی اور خوش جمال و خوش بیان سفیر کو بھیج دیں۔
دور حاضر میں سفارتی تعلقات عموماً حالت جنگ میں ہی توڑے جاتے ہیں جب دونوں ممالک ایک دوسرے کے سفارتی عملے کو واپس بھیج دیتے ہیں یا خود ہی بُلالیتے ہیں۔
دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ سفارتی تعلقات توڑے بغیر ایک طرح سے ڈاؤن گریڈ کیے جاتے ہیں جس میں سفارتخانے کام کرتے رہتے ہیں لیکن دونوں ممالک اپنے عملے میں کمی ۔۔ بعض صورتوں میں سفیر بُلا لیتے ہیں (جیسا کہ پلوامہ کے واقعے کے بعد بھارت اور پاکستان نے اپنے اپنے سفیر بُلا لئے اب تک دونوں سفارتخانوں میں سفیر نہیں ہیں)۔
جہاں تک ناراضگی کا اظہار ہے عموماً غیر جنگی صورتحال میں سفیر کو وزارت خارجہ بُلا کر شدید احتجاج جسے demarche کہتے ہیں دیا جاتا ہے جو کہ عموماً پاکستان بھارت لائن آف کنٹرول پر ہونے والی گولہ باری کے بعد ایک دوسرے کے سفراء کو بُلا ہوتا ہی رہتا ہے۔
کسی بھی سنجیدہ سیاسی جماعت کے لیے بہتر ہے کہ ، سفیر کو واپس بھیجنے کے مبہم مطالبے کے بجائے اپنی غیر مبہم پوزیشن واضع کردے۔ اور اس بات کا تعین بھی کیا جائے کہ ہمیں اس سفارتی اقدام سے کیا حاصل ہوگا؟
یااس سے فرانس کو کیا نقصان ہو گا؟ جس کی وجہ سے فرانس مجبور ہو جائے کہ آئندہ ایسی دل آزار حرکت نہ ہونے پائے؟
بدقسمتی سے ہم فرانس کے لیے اتنے اہم ملک نہیں ہیں۔۔ سوائے کچھ دفاعی ساز و سامان ایرفورس کے میراج طیارے اور کچھ آبدوزوں جن کی مینٹیننس اور فاضل پرزہ جات کے علاوہ ہمارا ان سے کوئی بڑا معاملہ نہیں ہے۔ اس سلسلے میں اس حدتک تعلقات رکھنا ہماری مجبوری ہے۔ باقی ان سے مزید اسلحہ خریدنا ہماری اوقات سے باہر ہے۔
بہتر ہے کہ سفارتی تعلقات توڑنے یا ڈاؤن گریڈ کرنے کے کی بجائے فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم چلائی جائے جس میں سوائے ضروری فوجی مصنوعات اور کچھ جان بچانے والی ادویات کے علاوہ فرانسیسی کمپنیوں سے کوئی کاروبار نہ کیا جائے(یہی کچھ ہم بھارتی مصنوعات کے ساتھ کررہے ہیں کہ اشد اہم اشیاء خصوصی اجازت کے ساتھ منگوائی جاتی ہیں)۔
ویسے بھی ہم تنہا اتنی بڑی مارکیٹ نہیں ہیں جس کی فرانس کو فکر ہو پھر بھی ان اقدامات سے کچھ نہ کچھ فرانسیسی کاروباری مفادات پر حرف آسکتا ہے، لیکن اگر دیگر مسلمان ممالک سے ملکر بائیکاٹ فرانس کی مہم چلائی جائے تو اس کے نتائج ڈرامائی طور پر حوصلہ افزا ہو سکتے ہیں۔
ضرورت ہے کہ مفت کے جذباتی اور ایک حدتک بے فائیدہ اقدامات کے پیچھے بھاگنے کی بجائے، ٹھوس اقدامات کے ذریعے نہ صرف فرانس بلکہ دیگرممالک کو بھی پیغام دیا جاسکے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی ناقابل برداشت ہے اور اسکی قیمت ادا کرنی ہو گی۔
ہمارے دوست نے ہمارے ان سوالات پر تھوڑی ناراضگی کا اظہار کرکے خوامخواہ کی مین میخ نکالنے کا ملزم قرار دیا ۔وہ تو خیر کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ ہمارے بڑے ہیں قابل احترام ہیں اور انکی فہمائش بھی ہمارے لئے اعزاز ہے۔
اس کے ساتھ سعودی قطر تنازعے کی مثال پیش کی جس میں بغیر جنگی حالات کے سفیر نکال دئیے گئے۔ دوسرا یہ کہ انکے خیال میں یہ سفارتی معمول ہے۔
بصد احترام عرض کرتا ہوں۔ پہلی بات یہ ہے ناپسندیدہ قرار دیکر نکالنے کا مطلب سفارتی تعلقات توڑنا نہیں ہوتا بلکہ ایک فرد واحد یا چند افراد کو ناپسندیدہ سر گرمیوں میں ملوث ہونے کی بنیاد پر ناپسندیدہ یعنی Persona non grata قرار دیکر بھیجنا ہوتا ہے۔
جو کہ عموماً مختلف ممالک کرتے ہی رہتے ہیں بالخصوص پاک بھارت جو ایک دوسرے کے سفارتی اہلکاروں پر جاسوسی کا الزام لگا گر Persona non grata قرار دیکر بھیجتے ہی رہتے ہیں ۔کہ سفارتی اہلکاروں کو کسی بھی جُرم کی صورت میں چاہے جاسوسی ہی کیوں نہ گرفتاری سے جنیوا کنوینشن کے تحت استثناء حاصل ہے اس لیے سفارتکاروں کے روپ میں جاسووں کی تعیناتی بھی عام سی بات ہے۔
گذشتہ کل ہی امریکی صدر جو بائیڈن نے دس روسی سفارتی اہلکاروں کو امریکی انتخابات میں مداخلت اور جاسوسی اور کمپیوٹر ہیکنگ کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں Persona non grata قرار دیکر بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔
عموماً ایسی کاروائیوں کے جواب میں دوسرا ملک بھی ان کے اتنے ہی اہلکارواں کو ناپسندیدہ قرار دیکر نکال دے گا۔ یہ بھی ایک سفارتی معمول ہے۔
اس لحاظ سے کم از کم فرانسیسی سفیر کو ناپسندیدہ یا Persona non grata قرار دینے کا جواز نہیں بنتا ۔ کہ نہ ان پر جاسوسی سرگرمیوں کا الزام ہے۔نہ ہی ابھی تک ان سے کوئی اور حرکت منسوب ہوئی ہے۔
بلکہ اس سے زیادہ تو امریکی و برطانوی سفارتکار ہمارے ملکی و سیاسی معاملات میں مداخلت کرتے رہتے ہیں بلکہ بڑی حدتک وائسرائے سمجھے جاتے ہیں۔
معذرت کے ساتھ یہ خوامخواہ کی مین میخ نہیں ہے۔ بلکہ واقعی سنجیدہ سوال ہے۔
جہاں تک قطر و سعودی تعلقات کی بات ہے۔۵جون ۲۰۱۷ سے سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات ، بحرین و مصر نے قطر کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات توڑ دئیے۔ بعد میں اردن، موریطارینہ، جبوتی، سینیگال، مالدیپ، کومروس اور لیبیا، نجر، صومالی لینڈ، چاڈ اورکئی چھوٹے ممالک شامل ہو گئے۔جن میں سے بعد میں اردن، سینیگال اورچاڈ نے سجدہ سہو کرکے تعلقات بحال کردئیے۔
ان ممالک میں نہ تو ایک دوسرے کے سفیر ہیں اور نہ ہی کوئی سفارتخانہ کام نہیں کررہاہے۔بلکہ قطر و ان تمام ممالک کے درمیان فضائی رابطے بھی منقطع ہیں۔
عموماً یہ حالت جنگ میں ہوتا ہے لیکن یہاں پر بغیر جنگ کے یہ سب کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ قطری شہریوں کے حج و عمرے پر بھی پابندی ہے۔ ایک لحاظ سے ان ممالک نے مل کر قطر کا حُقہ پانی بند کردیا ہے۔
موجودہ صورتحال یہ ہے کہ تقریباً چار سال کے بعد حال ہی میں کویت و امریکی مصالحت کے بعد تعلقات بحال کرنے پر آمادگی ظاہر کردی گئی ہے جس پر عمل ہونا باقی ہے۔
ایران و امریکہ کے بھی سفارتی تعلقات گذشتہ چالیس سال سے منقطع ہیں۔ امریکہ نے بھی اپنے زیراثر اداروں و ممالک کی مدد سے ایران کا حقہ پانی بند کیا ہوا ہے۔
بہتر ہے کہ شف شف کہنے کی بجائے پورا شفتالو کہ دیں تاکہ بات واضع ہو جائے۔
سوال واضع ہے کیا آپ فرانس سے سعودی عرب و اتحادیان کے قطر کے ساتھ معاملات کی طرز پر سفارتی و ہر قسم کے تعلقات توڑنے کے خواہشمند ہیں؟
اگر ایسا ہی تو چونکہ فرانس یورپین یونین جوکہ ۲۷ یورپین ممالک کا مشترکہ گروپ ہے کا ممبر ہے تھوڑے بہت فرق کے ساتھ یکساں داخلی پالیسیاں اور خارجہ امور میں ابھی تک ڈہیلا ڈہالا اتحاد ہے پھر بھی غیر رسمی طور پر یکساں پالیسی رکھی جاتی ہے۔
اس بات پر کوئی مطالعہ و تحقیق کی گئی ہے کہ فرانس سے تعلقات توڑنے کا ہمارے یوروپین یونین کے ممالک سے تعلقات پر کیا اثرات ہوں گے؟
کیا ایسا ممکن ہے کہ ہم سعودی عرب کی طرز پر یک فریقی اقدام کرنے کے بجائے اسلامی یا مسلم ممالک کا بلاک بنا کراس قسم کا اقدام کیا جائے تاکہ اس کا وزن اور اثرات بھی ہوں؟
یا تعلقات کو قائم رکھتے ہوئے صرف فرانسیسی سفیر کو بے دخل کرنا چاہتے ہیں (جس کے جواب میں فرانس بھی پاکستانی سفیر کو بے دخل کرے گا)۔ جب کہ ابھی تک سفیر کے خلاف کوئی غیر سفارتی حرکت کا الزام نہیں ہے؟
سر! یہ سنجیدہ معاملات ہیں اور سنجیدہ گفتگو و سوچ بچارکی متقاضی ہوتی ہیں ۔ اگر مین میخ ہی سمجھا جائے تب بھی ان پر گفتگو وقت کی ضرورت ہے۔
جہاں تک اس حکومت کے کئے گئے وعدے کی بات ہے اس قسم کی ڈنگ ٹپاؤ حکومت سے کسی بھی سنجیدہ وعدے یا اقدام کی توقع رکھنے والا احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ اگر انہوں نے کوئی غیر سنجیدہ یا ملک وقوم کے لئے نقصان دہ وعدہ یا اقدام کر بھی لیا تو کیا آپ واقعی انہیں اس احمقانہ اقدام پر عمل کرنے دینا چاہیں گے؟
آخری بات ۔۔۔کیا اتنا مبہم مطالبہ رکھنے کا مقصد حکومت کو راستہ فراہم کرنا ہے جس کے تحت فرانسیسی سفیر کو ناپسندیدہ قرار دئیے بغیر خاموشی کے ساتھ فرانس سے سفیر کے تبدیلی کی درخواست کی جائے اور اس تبدیلی کو ہمارے عوام کے سامنے کسی اور رنگ میں پیش کر کے وقتی فتح کے بگل بجا کر مطمئن کردیا جائے تاکہ ۔۔۔ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔