آج سے 36 سال قبل میں روزنامہ جسارت میں ایجوکیشن رپورٹر تھا ۔
یہ 15 اپریل 1985 کی صبح کی بات ہے، جب کراچی کے علاقے ناظم آباد میں سرسید گرلز کالج کے سامنے ایک تیز رفتار منی بس نے سرسید کالج کی کئی طالبات کو روند ڈالا ۔ جس میں بشریٰ زیدی بھی تھی ۔
اتفاق سے اس زمانے میں کراچی کی زیادہ تر ترانسپورٹ پر پختونوں کا کنٹرول تھا کیونکہ حکومت نے آج تک ملک کے سب سے بڑے شہر کو ٹرانسپورٹ کا کوئی موثر نظام ہی نہیں دیا اور ٹرانسپورٹ ہی کیا، کراچی کے مسائل حل کرنے کے بجائے اسے تباہ و برباد کیا گیا اور اب تک لوٹ مار کا بازار گرم ہے ۔
میں ذکر کر رہا تھا، کراچی میں بشریٰ زیدی کے حادثے کا ۔ ان تمام واقعات کی میں نے خود رپورٹنگ کی ۔ میرے ساتھ محترم مقصود یوسفی کرائم رپورٹر تھے اور میرے جامعہ کراچی کے کلاس فیلو مظہر عباس اس وقت شام کے انگریزی اخبار اسٹار میں رپورٹر اور کامران خان شام کے ایک اور انگریزی اخبار ڈیلی نیوز کے رپورٹر تھے ۔ میں ان تمام واقعات کی رپورٹنگ کرتا رہا اور بہت سی “باتوں” کا چشم دید گواہ ہوں۔
ایک سازش کے تحت بشریٰ زیدی کے حادثے کو کراچی کے اردو بولنے والے شہریوں یا نام نہاد مہاجروں کے خلاف سازش قرار دے کر معصوم شہریوں کے جذبات سے کھیلا گیا ۔
اس کے ردعمل میں ہونے والے فسادات میں 200 افراد ہلاک اور درجنوں منی بسیں نذرآتش کی گئیں ۔ ہنگامے اتنے شدید تھے کہ ان پر قابو پانے کے لئے فوج کو طلب کرکے کرفیو نافذ کرنا پڑا ۔
1979 میں الطاف حسین کی قیادت میں اے پی ایم ایس او قائم ہوچکی تھی اور بشری زیدی کے واقعہ تک ایم کیو ایم وجود میں نہیں آئی تھی ۔ اس وقت مہاجر قوم کے غبارے میں ہوا بھری جارہی تھی اور کراچی کے شہریوں کو باور کرایا جارہا تھا کہ ان کی نسل کشی کی تیاریاں ہیں ۔ اس کے لئے انہیں متحد ہونا پڑے گا ۔ اور یہ کہ مہاجر ایک قوم ہیں ۔ جبکہ ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والوں کی بڑی تعداد مشرقی پنجاب سے آئی تھی اور پاکستانی پنجاب میں بس گئی تھی ۔ جبکہ کراچی اور حیدر آباد سمیت سندھ کے مختلف شہروں میں آباد ہونے والے یوپی، سی پی، بہار، گجرات اور بمبئی سمیت ہندوستان کے مختلف علاقوں سے آئے تھے ۔ مختلف زبانوں اور نسلوں کے لوگ ایک قوم کیسے ہوسکتے ہیں ؟ ہاں شناخت مہاجر ضرور ہوسکتی ہے۔
بہرحال بشری زیدی کیس سے بات نہ بنی تو 1986 میں اورنگی کے علاقے علیگڑھ کالونی میں خون کی ہولی کھیلی گئی اور کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں کے لوگ مہاجر عصبیت کے اندھے کنوئیں میں دھکیل دئیے گئے ۔ جہاں انہیں ان کے حقوق تو نہ ملے لیکن انہیں اپنے 35000 افراد کو ذبح کروانا پڑا ۔
پورے ملک میں پہلے کراچی کے شہری تعلیمیافتہ، مہذب اور تہڈیب یافتہ کی شہرت رکھتے تھے ۔ اب دہشت گرد، کلاشنکوف بردار، کن کٹا، لنگڑا، پہاڑی، وغیرہ کے نام سے ایسے بدنام ہوئے کہ صدیوں تک اس داغ کو دھویا نہ جاسکے گا ۔
ایک اور اہم بات یہ کہ کراچی کو برباد اور نیست و نابود کرنے میں “بھائی لوگ” یا نامعلوم افراد تو محض کٹھ پتلیاں تھے ۔ ان کی ڈور عالمی طاقتوں (خاص طور پر یہودیوں) کے ہاتھ میں تھی ۔ وہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے اس ملک کو ہمیشہ سے برباد کرنا چاہتی تھیں ۔ کراچی پورے ملک کی شہ رگ ہے، جسے انہوں نے بھرپور نشانہ بنایا ۔
ابھی یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا بلکہ زیادہ شدت سے جاری ہے۔ آئی ایم ایف، مہنگائی کا سونامی، معیشت کی بربادی اور اسلام کے نام پر قائم ہونے والے اس ملک میں اسلام ہی کو اجنبی بنانے کی سازشیں کی جارہی ہیں ۔
امریکہ سمیت عالمی طاقتیں ہوں، یہودی ہوں، الومنائی (یعنی شیطان کے پجاری)، بھارت ہو یا کوئی اور ۔ پاکستان کے خلاف کوئی سازش کبھی کامیاب نہ ہوگی ۔
ان شاء اللہ