حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ھے کہ رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے ایمان و احتساب کے ساتھ تو اس کے وہ سب گناہ معاف کر دئیے جائیں گے جو اس سے پہلے سر زد ھو گئیےھوں گے ۔ اور جس شخص نے رمضان میں قیام کیا ( یعنی راتوں کو کھڑے ھو کرعبادت کی) ایمان اور احتساب کے ساتھ ، تو معاف کر دئیے اس کے وہ قصور جو اس نے پہلے کئے ھوں گے اور جس شخص نے شب قدرمیں قیام کیا۔ ایمان اور احتساب کے ساتھ تو معاف کر دیئے جائیں گے ۔ اس کے وہ سب گناہ جو اس نے پہلے کیۓ ھوں گے (متفق علیہ)
احتساب اس چیز کا نام کہ آدمی اپنے تمام نیک اعمال پر صرف اللہ ھی کے اجر کا امیدوار ھو اور خالصتا اسی کی رضا جوئی کے لیئے کام کرے
اس حدیث میں گناھوں سے معافی کو جو خوشخبری سنائی گئ ھے اس کا یہ مطلب نہیں کہ جو لوگ اللہ کے احکام کی خلاف ورزی کرنے والے اور آخرت کی باز پرس سے بے خوف ہیں ۔ان کو اسس بات کا لائیسنس دیا جارہا ھے۔کہ میاں رمضان کے روزے رکھ لو ، تراویح پڑھ لو اور شب قدرمیں کھڑےھو کر عبادت کر لو تو پچھلا حساب صاف اور آگے گیارہ مہینے تمہیں جو کرناہہے کرتے رھو۔ رشوتیں۔کھاو لوگوں کے حق مارو ، ظلم وستم کرو جو چاھو کرو رمضان میں عبادت کے لییے کھڑے ھو جانا روزے رکھ لینا نمازیں پڑھ لینااور پہلے کا سب کیا دھرا سب معاف ھو جائے گا۔
اس حدیث کے مخاطب وہ صلحا اور نیک لوگ ہیں ۔جو اپنی زندگیاں ھر وقت اللہ کی خوشنودی کے مطابق بسر کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔اور اگر بشری کمزوری کی بنا پر ان سے کوئی قصور سرذد ھو جاتا ھے تو وہ ھر وقت اس پر توبہ کے لیے مستعد رہتے ہیں ۔ اور وہ تقوی کو اپنا شعار بنائے رکھتے ہیں ۔ بندہ اگر بنادی طور پر اللہ تعالی کا وفادار ھے اور جان بوجھ کر اس کے معاملے میں استکبار اور سرکشی کرنے والا نہیں ھے تو اگر اس سے کسی وقت کوئی قصور سرذد ھو جاتا ھے تو وہ پھر جدا کے دربار میں نماز کے لیے حاضر ھو جاتا ھے تو اللہ تعالی گا اس کو اپنی مغفرت سے محروم نہیں رکھے گا۔ اسی بنا پر فرمایا گیا اگر ایک شخص نے ایمان اور احتساب کے روزے رکھے تو اس کے پچھلے قصور معاف ھو گئے ۔ رمضان میں راتوں۔کو کھڑے ھو کر عبادت کی تو وہ بھی پچھلے قصوروں کی معافی کاذریعہ بن گیئ ۔اسی طرح اگر شب قدر میں عبادت کے لئےکھڑا ھوا تو اس کا یہ عمل بھی اس کے پچھلے گناھوں کی معافی کا سبب بن جائے گا۔