بظاہر “ایک پیج “ پھٹ رہا ہے، سپریم کورٹ کا قاضی فائز عیسی کے ریفرینس پر فیصلہ ۔ ۔۔“ابّا جی” کی ملاقاتیں۔۔ “داماد دریدہ دہن” کی بھونڈی گرفتاری کے بعد “ابّاجی” کی بچّے جمھوروں کے کارناموں پر شرمندہ ہوکر براہ راست مُنّےبھٹو کو کال۔۔۔بظاہر “بچّہ جمھورا” سائیڈ لائن ہوتا نظر آرہا ہے۔
بچے جمھورے کو گُمان ہے کہ موجودہ صورتحال میں “اُن “ کے پاس اسکے علاوہ کوئی متبادل نہیں ہے۔ لیکن شطرنج کی بساط پر” شاطر” کے پاس بہت سی چالیں باقی ہیں۔۔ کس مہرے کو پٹوا کر کس کو آگے بڑھانا ہے پر۔۔۔
میں اپنی فتح سمجھتا تھا مات ھونے تک
ایک طرف “بچّہ جمھورا” سمجھتا ہے کہ گوجرانوالہ کے دنگل کے بعد وہ “مداری” کی مجبوری بن چکا ہے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ سرکس کے مالکان کے پاس کرتب دکھانے والے جانوروں کی کمی نہیں ہوتی۔
تُو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی۔
اگر اس وقت نواز شریف تھوڑی سی لچک دکھا کر مریم نواز کی جگہ اپنے معتمد شاہد خاقان عباسی کو سامنے لاکر ن لیگ کو شریف خاندان سے باہر کا چہرہ دے دیں تو سارا کھیل بآسانی ختم ہو سکتا ہے لیکن انکا مسئلہ بھی خاندانی بادشاہت ہی ہے۔
دوسری طرف شہباز شریف کے وزارت عظمی کے خواب کوئی راز نہیں لیکن بہت “دوستوں” کے اکسانے کے باوجود اس نے بھائی کا احترام کرتے ہوئے بغاوت نہیں کی۔
نواز شریف نے ابتدائی طور پر شھباز کو اپنے جانشین کے طور پرتیار کرنے کے بعد شفقت پدری سے مجبور ہوکر اپنی رضیہ سلطانہ کو آگے لانے کا فیصلہ کرلیا۔اس پر کچھ ناگواری کی اطلاعات تو گردش کررہی تھیں لیکن پھر بھی برداشت کرلیا گیا۔
موجودہ صورتحال میں نواز شریف سوائے “رضیہ سلطانہ” کے اپنے پورے خاندان کے ساتھ لندن میں ہے۔ اگر میڈیا کی خبریں غلط نہیں ہیں تو انہوں نے “رضیہ سلطانہ” کو بھی باہر نکلوانے کی بھی سر توڑ کوششیں کی ہیں ۔بڑی حدتک اس کے علاوہ نواز شریف کا اس وقت پاکستان میں کوئی stake نہیں ہے۔
اب صورتحال ہے کہ شہباز شریف اور اسکا بیٹا حمزہ پاکستان میں زیرحراست ہیں۔ نواز شریف کے چی گویرا stance کا اثر شہباز پر کیا ہوگا؟ بظاہر نواز شریف نے اپنی رضیہ سلطانہ کے لئے برادر خورد کو بلی پر چڑہانے کا خطرہ مول لینے کافیصلہ کرلیا ہے۔
ویسے بھی اقتدار کی جنگ میں خون کے رشتے ثانوی حیثیت رکھتے ہیں، برادار خورد کو بھی کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے ابھی تک بھائی کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے سے احتراز کیا ہے۔
لیکن فتنے کی جڑوں زن زر زمین اور اولاد، میں بظاہر دیگر معاملات تو خوش اسلوبی سے نمٹ چکے ہیں لیکن غالبا اولادوں کی وجہ سے ایک دراڑ آچکی ہے۔سارے دباؤ اور ترغیبات کے باوجود نہ ٹوٹنے والا شہباز کیا اب بھائی کے چی گویرا اسٹائل کا وزن برداشت کر سکے گا؟؟
ہر انسان کا ایک بریکنگ پوائنٹ ہوتا ہے؟؟ شھباز شریف ہمیشہ ہی اسٹیبلشمنٹ سے مصالحت کا حامی رہا ہے۔کیا یہ وہ تنکا ہے جو اس اُونٹ کی کمر توڑ سکتا ہے؟؟ کیا مسلم لیگ (ش) کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے جارہا ہے؟؟
کیا اسٹیبلشمنٹ عمران حکومت کی نااہلیوں کا وزن اُٹھانے کی بجائے شھباز کی صورت میں ایک مسلمہ ایڈمنسٹریٹر جس کی وفاداری مشکوک لیکن ڈیلیور کرنے کی صلاحیت موجودہ سیٹ اپ سے بدر جہا بہتر کو موقع دینا پسند کرے گی؟
کیا ممکن مسلم لیگ ش اور پی ٹی آئی کی مشترکہ حکومت؟؟بلاول یا زرداری صرف سندھ کی حدتک relevant ہے یا فروری میں ہونے والے سینٹ کے انتخابات میں ان کا اسٹیک ہے۔
عمران خان ضدی ہے لیکن اتنا بہادر نہیں جتنا سمجھا جاتا ہے ہاتھی دانت کھانے کے اور ہوتے پیں اور دکھانے کے اور۔ مولا جٹ کی بڑھکیں صرف سینیما اسکرین کی حدتک چلتی ہیں، 2016 کے اسلام آباد لاک ڈاؤن میں جب پرویز خٹک پشاور سے آنے والے قافلے کے ساتھ استقامت کے ساتھ پولیس کی آنسو گیس کا مقابلہ کررہا تھا تب یہ “بہادر” سردار بنی گالہ کے آرام دہ محل میں کمروں میں اپنی کچن کیبنٹ کے ساتھ، آرام اور وقتا فوقتا سامنے ڈنڈ بیٹھک کرکے اپنی صحت و بہادری کا مظاہرہ کررہا تھا۔
غم لیڈر کو بہت ہیں مگر آرام کے ساتھ
مجھے یقین ہے کہ “وہ” اس سے استعفی بھی لے سکتے ہیں یا اسے کسی کے ساتھ مشترکہ حکومت پر مجبور بھی کرسکتے ہیں۔ جس میں چاہے وہ بطور ڈمّی وزیراعظم رہے لیکن کوئی اور درحقیقت پاور استعمال کرے؟؟
ہمارا وطن عملی طور پر “کمپنی بہادر” کا مقبوضہ پاکستان ہے، یہاں علم بغاوت کا نتیجہ پھانسی کے پھندے یا توپوں کے دہانوں سے باندھ کر اُڑانا ہوتا ہے۔ کم از کم 1857 سے 1947 تک تو یہی ہوا۔
پھر ہوا بدلی مسلح جدوجہد کی جگہ سیاست کادور آیا، لیکن وہ جدوجہد تلوار و بندوق سے نکل کر اشرافیہ اور ڈرائینگ روم کے قبضے میں آگئی۔۔ آزادی تو مل گئی لیکن گورے انگریز کی غلامی سے اشرافیہ کی غلامی کے نئے دور کا آغاز ہوا۔ درمیان میں صاحب بندوق بھی اپنا حصہ بقدر جثّہ وصول کرتے رہے کہ بندوق کا جثّہ بھی کوئی کم نہیں۔
اس بندوق و صندوق کی میوزیکل چیئر میں عوام کے نصیب نہیں بدلے۔
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں تو بس وزیروں کے
کتنے بلاول ہیں دیس میں مقروض
پاؤں ننگـے ہیں بینظیروں کے۔‘
ایک بار پھر ۔۔۔۔ہوائیں بدل رہی ہیں۔۔۔
کل “بچّہ جمھورا” نے شاہزیب خانزادہ کو دئیے گئے انٹرویو میں جنرل باجوہ کی ملاقاتوں پر دبے دبے الفاظ میں ناراضگی کا اظہار ۔ ساتھ ہی مہنگائی کی وجہ سے عوام کی ناراضگی کا اعتراف ۔ غیر ارادی طور اپنے بعداز اقتدار ارادوں یا منصوبوں کی بات کرنی شروع کردی یہ سب بذات خود اس بات کا اشارہ ہے کہ اسے لاشعوری طور پر کھسکتی زمین کا ادراک ہونے لگا ہے۔ لیکن ارادے و ادراک کے ساتھ ساتھ اہم ترین چیز عمل کی صلاحیت ہے جو ارادوں کو پایہ تکمیل پہنچانے میں مدد دیتی ہے، اور اس پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔
بظاہر دراڑیں گہری ہوتی جارہی ہیں ڈوبنے والے کو بھنور میں پھنسنے کا احساس ہوتا جارہا ہے۔ کیا وہ بچ پائے گا یا نہیں، ملک وقوم کسی فرد کے اقتدار سے بالاتر ہے۔
گرتی ہوئی دیواروں نے گرنا ہی ہے۔۔۔ پھر پھر کیا ہوگا؟؟؟
ویسے کل کے انٹرویو سے لگتا ہے کہ لاشعوری طور انہیں بدلے ہوئے موسم کا احساس ہونے لگا ہے۔شاید ایک آخری جنگ کے لئے تیاری بھی ہے۔ اس میں نہ جانے کتنے بموں کو لات ماری جائے گی؟ اپنی ٹیم ممبروں کی حدتک تو ٹھیک ہے لیکن نواز شریف والی حرکت جو اس نے مشرف بم کو مارکر کی تھی نہ کردے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دوسری طرف اتحاد نہیں ہے۔ اب دیکھیں پہلے پھونک کون مارتا ہے اور کون اڑتا ہے۔ بس اس وقت کھیل پہل کا ہے۔ نواز شریف کی طرح عمران نے کوئی حرکت کی تو بچت کا امکان ہے دوسری صورت میں بچے جمہورے پر مشکل وقت آسکتا ہے، واللہ اعلم بالصواب۔