ADVERTISEMENT
واشنگٹن میں اٹھارویں صدی میں یوم مئی کی ہڑتال کےروز جانے ۳۸ مزدور شہید ہوئے یاچالیس ،پچاس یا پھر سو لیکن گیارہ ستمبر دوہزار بارہ کو کراچی میں دو سو انسٹھ مزدوروں کو زندہ جلایا گیا ،بلدیہ ٹاون میں واقع علی گارمنٹس کے مزدوروں جب مجنت کرکے اپنے بچوں کی روزی روٹی کا بندوبست کرکے انکی خوشیوں کے خواب سجا کر فیکٹری سے نکلنے والےتھے کہ ان پر ایک قیامت ٹوٹ پڑی ، نیرو کے دل میں ایک بار بانسری بجانے کی خواہش نے جنم لیا تھا، اختیار اور طاقت کی بانسری ہمیشہ اپنے وقت کے نیرو کے دل میں جاگزیں رہتی ہے ، کراچی کے نیرو نے جب شہر قائد کے فیکٹری مالکان سے بھتہ وصولی شروع کی ہوئی تھی، لوگ خاموشی سے بھتہ اداکردیتے تھے لیکن علی گارمنٹس کے مالکان سے بھتے کی فرمائش نئے انداز سے کی گئی تھی ، کروڑوں روپے بھتہ ادا کرو یا پھر اپنے باپ دادا کی محنت سے بنائی گئی اس فیکٹری میں ہمیں حصہ دار بنالو ، نیرو کیا ، اسکے ساتھی بھی خود کمانے اورمحنت کرنے سے ناواقف تھے، اگر کوئی پڑھالکھا ڈاکٹر ،انجینئر بھی انکے ساتھ ہوتا تو پریکٹس نے کرتا بلکہ مفت کے لقدمے توڑنے میں ہی خوشی محسوس کرتا بالکل وڈیروں کی طرح ، انکا خیال تھا کہ کام کرنیوالے تو کمی ہوتے ہیں ، خیر بھائینلہ برادران اس افتاد پر بہت گھبرائے اور انھوں نے نائن زیرو سے رابطہ کیا، پاوں پڑے لیکن اختیارات اور طاقت کا نشہ یہ چیزیں کہاں دیکھتا ہے، آگ لگائےہوئے دن بھی بہت ہوگئے تھے، اس لیے نیرو نے حکم دیاکہ فیکٹری کو آگ لگادی جائے، فیکٹری میں آگ لگادی گئی ، خاص کیمیکل سے بھڑکائی آگ اتنی تیزی سے پھیلی کہ کسی کو ہلنے کی مہلت نہیں ملی ، ڈھائی سو سے زائد انسان چیختے چلاتے جل بھن گئے، لیکن نیرو کی تسلی نہیں ہوئی تھی ، کارندے متحرک تھے، فائر بریگیڈ ، سائٹ ایسوسی ایشن کیا شہر کےسب ہی ادارے مفلوچ کردیے گئے، انسانوں کو چاٹ جانے والی آگ بجھنے کے بعد بھی نیرو کی تسلی نہیں ہوئی تو پولیس کے ذریعے فیکٹڑی مالکان کو گرفتار کرکے اپنی طاقت اور انکی بے بسی کا مظاہرہ کرایا گیا، سانحہ کو شارٹ سرکٹ کا نتیجہ قرار دیکر معاملہ نمٹادیا گیا انسانی تاریخ نے ایسے ظلم شاید پہلے بھی دیکھے ہوں لیکن اس کے بعد جو ہوا وہ صرف پاکستان میں ہی ہوسکتا ہے، اسکی مثال دنیا میں کہیں اور نہیں ملتی ، نیرو سے ناراض طاقت ور لوگوں نے کچھ عرصہ بعد یہ سب راز افشاں کردیَے اور جے آئی ٹی نے چیخ چیخ کر بتایاکہ یہ واقعہ شارٹ سرکٹ کا نہیں منظم دہشت گردی کا نتیجہ ہے، اس موقعہ پر اس انتظامیہ کو جس نے واقعہ کو شارٹ سرکٹ کا شاخسانہ قراردیا تھا، اسے انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا گیا، پولیس جس نے ڈھائی سو سے زائد انسانی جانوں کا مقدمہ مالکان کے خلاف ہی درج کیا اس سے کچھ پوچھ گچھ نہیں ہوئی ، ڈھائی سو انسانوں سے زیادہ کو زندہ جلانے کے واقعہ کا مقدمہ کیا ایک سب انسپکٹَر کی زمہ داری تھا،آئی جی ،ہوم سیکرٹری ، وزیر داخلہ ، وزیر داخلہ تاریخ میں سب سے زیادہ زندہ انسانوں کے جلائے جانے کے واقعہ پر بھی بے حس تھے ، اگر ایسا تھا تو پھر اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ مذاق ہی تھا، ظلم اور بے حسی ہی تھی ، تعزیرات پاکستان ، ضابطہ فوجداری ، انسداد دہشت گردی ایکٹ ، پولیس کی پھرتیاں اور عدالتی کارروائیاں سب ڈرامہ تھیں ،جن کے نتیجےمیں بھولے اور چریے کیا ، انسانیت ہی ماری گئی ،ڈرامہ چلنے دیا جاتا شاید مرحومین کے لواحقین کی آس بندھی رہتی ، لیکن اب تو مرنیوالوں سے زیادہ دکھی جینے والے ہیں ، کاش عدالت یہ فیصلہ نہ سناتی۔