عدالتی انکوائری کمیشن رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پشاور کے آرمی پبلک سکول پر حملے جیسے تباہ کن سانحات اپنے ہی خون کی غداری سے رونما ہوتے ہیں، انتہا پسند عناصر کو مقامی آبادی کی طرف سے مدد فراہم کیے جانا ناقابل معافی جرم ہے۔
526صفحات پر مشتمل سانحہ آرمی پبلک سکول کمیشن رپورٹ جاری کر دی گئی ہے جس میں شہدا کے والدین اور واقعے سے جڑے متلقہ افراد کے بیانات بھی شامل ہیں
جسٹس محمد ابراہیم خان کی سربراہی میں قائم کمیشن رپورٹ میں کہا گیا ہے ہمارا ملک دہشتگردی کے خلاف جنگ میں برسرپیکار رہا،حساس تنصیبات یا سافٹ ٹارگٹس پر حملوں کے دفاع میں یہ جواز ناقابل قبول ہے کہ ملک حالت جنگ میں تھا۔
کمیشن رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے سکول کی سیکورٹی کی تین پرتیں جن میں گیٹ پر موجود گارڈز، علاقے میں پولیس گشت اور کوئیک رسپانس فورس کی دس منٹ کے فاصلے پر موجودگی اس دھویں کی طرف متوجہ ہو گئی جو منصوبے کے تحت ایک گاڑی کو آگ لگانے کی وجہ سے اٹھا،نتیجتاً سکیورٹی کی توجہ آرمی پبلک سکول سے ہٹ گئی اور دہشتگرد سکول میں داخل ہو گئے۔
کمیشن رپورٹ میں سیکورٹی کے انتظامات پر سوالات اٹھاتے ہوئے مزید کہا گیا نیکٹا کی جانب سے یہ وارننگ جاری کی گئی تھی دہشتگرد کسی بھی آرمی پبلک سکول کو نشانہ بنا سکتے تھے، اگرچہ پاک فوج ضربِ عضب میں کامیاب رہی لیکن سانحہ اے پی ایس نے اس کامیابی کو داغدار کر دیا،سکیورٹی پر تعینات اہلکار نا صرف آنے والے حملہ اوروں کو روکنے کے ناکافی تھے بلکہ ان کی پوزیشن بھی درست نہیں تھی۔
کمیشن رپورٹ کے مطابق افغانستان سے دہشتگرد ممکنہ طور پر مہاجرین کے روپ میں داخل ہوئے، کوئی ایجنسی ایسے حملوں کا تدارک نہیں کر سکتی بالخصوص جب دشمن اندر سے ہو،غفلت کا مظاہرہ کرنے والی یونٹ کے متعلقہ افسران و اہلکاروں کو تحقیقات کے بعد سزائیں دی جاچکی ہیں۔