ADVERTISEMENT
آج نوابزادہ نصراللہ خان کی 17 ویں برسی ہے (ولادت: 13 نومبر 1916ء خان گڑھ – وفات: 26 ستمبر 2003ء اسلام آباد )
مجلسِ احرار ، مسلم لیگ ، عوامی لیگ اور پھر خالص اپنی پاکستان جمہوری پارٹی ( پی ڈی پی)
مجلس احرار میں ہوتے ہوئے پاکستان کی مخالفت، پاکستان بننے پر حکمران مسلم لیگ میں شمولیت، اسی کے ٹکٹ پر 1950 میں پنجاب اسمبلی کی رکنیت ،اتحاد سازی مشغلہ تھا۔ کمبائنڈ اپوزیشن پارٹیز، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ، جمہوری مجلسِ عمل، یو ڈی ایف، پاکستان قومی اتحاد، ایم آر ڈی، این ڈی اے،اے آرڈی وغیرہ ۔۔۔۔ کئی جمہوری (اور غیر جمہوری بھی ) اتحاد بنائے۔ پتہ نہیں جمہوری اتحادوں سے ان کی پارٹی کی فوجی ڈکٹیٹر کی حکومت میں شامل ہونے کے گناہ کا کفارہ ادا ہوا یا نہیں۔
ان کی جمہوری پارٹی مختصر ہی رہی، جس پر تانگہ پارٹی کی پھبتی بھی کسی جاتی رہی۔ کئی تاجر اور امپورٹر اس کے فنانسر تھے۔ ان کے لائسنس ، پرمٹ کے کام نوابزادہ صاحب بآسانی کرادیتے تھے۔ نوابزادہ صاحب رپورٹروں میں بہت مقبول تھے۔ ان کی نکلسن روڈ کی قیام گاہ پر انہیں چائے ، کھانا، سوہن حلوہ ہی نہیں مل جاتا تھا، آموں کی پیٹیاں ان کے گھر یا دفتر بھی پہنچتی تھیں۔ کشمیر کمیٹی کی سربراہی کے دوران کئی کو غیر ملکی دورے بھی کرائے۔
نوابزدہ نصراللہ خان شعر کا ذوق رکھتے تھے، برمحل شعر پڑھتے تھے۔ خود بھی شعر کہتے تھے ۔ ناصر تخلص تھا۔ ایک شعر ۔۔۔
کب اشک بہانے سے کٹی ہے شبِ ہجراں
کب کوئی بلا صرف دعاؤں سے ٹلی ہے
نوابزادہ نے ایک زمانے میں جاگیرداری کے تحفظ کیلئے ’’انجمن تحفظ حقوقِ کاشتکاراں تحتِ شریعت‘‘ بھی بنائی تھی۔ نوابزادہ صاحب اسکے صدر اور پیر نوبہار شاہ جنرل سیکریٹری تھے۔ پنجاب اسمبلی میں زرعی اصلاحات پر بحث کے دوران پیر نو بہار شاہ نے اپنی پگڑی ہاتھ میں پکڑ کر کہا تھا جس طرح میری یہ پگ کوئی نہیں لے سکتا اس طرح ہماری زمین بھی کوئی نہیں چھین سکتا۔