* عوام کسی کی چوری بچانے کے لئے نہیں نکلتے ، وزیراعظم عمران خان *
لیکن کسی کی چوری میں جب بالواسطہ یا بلاواسطہ اپنا حصہ بھی شامل ہو جائے تو ، نکلنا پھر مجبوری بن جاتا ہے ۔ ٹیکس ، بجلی اور گیس کی چوری کے ساتھ دیگر معاشرتی معاملات میں تعصب اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرنا ،ایک مہذب معاشرے میں چوری چکاری سے بھی بڑا اور برا فعل گردانا جاتا ہے ، جو پٹوار خانے کے مماثل قرار دی گئی جماعت کے کرتا دھرتاؤں کا خاصہ ہے۔ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو یہ بات کھل کر سامنے آ جائے گی کہ جتنے بھی کرپٹ، متعصب اور بدنام افراد اس خاص جماعت میں پائے جاتے ہیں کوئی دوسری جماعت اتنی بڑی تعداد کی متحمل نہیں ہو سکتی ، الا ماشاءاللہ ۔ یہ ایک سلسلہ ہے جس کی جتنی گہری جڑیں ہو چکی ہیں اتنی ہی زیادہ برانچیں بھی ہیں ۔ کرپشن زدہ برانچیں، جن کی جڑوں میں عام عوام کی امیدوں اور انکے جائز حقوق کا خون شامل کیا گیا ہے ۔ لہٰذا یہ بات دھیان میں رہے کہ زیادہ تر لوگ کسی کی نہیں، خود اپنی چوری بچانے اور خود کو احتساب کے شکنجے سے بچانے کے لئیے باہر نکلیں گے ، اور اپنے ساتھ ان غریب اور پسماندہ طبقات کو بھی سڑکوں پہ لائیں گے جن کی روزی روٹی اور دیگر معاملات کے مالک بھی یہ خود ہی ہیں ۔
* کہاں خمینی اور کہاں نہاری کھانے والا، وزیراعظم کا خطاب *
گویا نہاری کھانے والا انقلابی نہیں ہو سکتا ، اور نہ ہی علامہ خمینی کی طرح اسے اپنی قوم کا مسیحا اور سپریم لیڈر قرار دیا جا سکتا ہے ۔ بات اس حد تک تو سمجھ میں آتی ہے کہ ثقیل غذاؤں کے استعمال سے انسانی اعضاء متاثر ہو کر پریشانی کا باعث بنتے ہیں مگر ، نہاری، جو کہ دہلی والوں کی ایجاد اور ان کی محبوب ڈش ہے ، اتنی ثقیل نہیں جتنی کھد ہوتی ہے ۔ اگرچہ پائے بھی کولیسٹرول کا اچھا خاصہ ذخیرہ اپنے اندر پاتے ہیں مگر کھد کا مقام منفرد ہے ۔ وزیراعظم کو چاہئیے تھا کہ نہاری کے بجائے کھد کا ذکر کر دیتے تو مخاطب شخصیت کے متعلق ابہام نہ رہتا اور سننے والوں کو فوراً پتہ چل جاتا کہ وہ کون ہے جو علامہ خمینی نہیں بن سکتا ۔ کھدوں اور پایوں کی فضیلت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ مذکورہ کھابے ہیلی کاپٹروں میں بھی سیر سپاٹے کرتے رہتے تھے ، انہیں اس طرح نظر انداز کر کے وزیراعظم عمران خان نے اچھا نہیں کیا، اگر کھدیں اور پائے نہ ہوتے تو کیا دماغ بند ہو پاتا اور اظہار خیال کے لیے بھی پرچیوں کے سہارے کی ضرورت پیش آتی ، اور اس سہارے کا تمسخر اڑانے کے لئیے پی ٹی آئی والوں کو مشغلہ ہاتھ آتا ، لہٰذا آئندہ کے لئیے نہاری کے بجائے کھد اور پائے کا ذکر کر کے شکریہ ادا کرنے کا موقع دیا جائے ، عین نوازش ہو گی
* سابق وزیر اعظم کی بیماریوں کا سن کر شیریں مزاری کی انکھوں میں آنسو آ گئے، وزیراعظم عمران خان *
کیوں بھیگے تورے نین ، اتنا نازک اور حساس دل ، سبحان اللہ ۔ گو نسوانیت کا وہ حسین پیکر جو ہمارے ایشیائی شعراء کے زرخیز ذھنوں نے اپنے محبوب کی شکل میں اپنے دیوانوں میں تراشا ہوا ہے ،موصوفہ اس سے ایسے ہی دور ہیں جیسے پاکستانی عوام ابھی تک خوشحالی سے ، پھر بھی ہیں تو صنف نازک ہی ، رقیق القلبی بھی عطیہ خداوندی ہے ، سب کے نصیب میں کہاں ۔ انہیں اس بات پہ اللّٰہ کریم کا شکر ادا کرنا چاہیے، اور اس بات پہ بھی کہ اللّٰہ کریم نے کشش ثقل پیدا فرمائی ہوئی ہے ، ورنہ یہی آنسو، آنکھوں سے بہہ کر اگر نیچے آنے کے بجائے اوپر کا رخ کر لیتے تو ان کے بالوں میں لگے مختلف رنگوں میں گھل مل کر کیا نظارہ پیش کرتے ، استغفِرُاللہ ، اور تم اپنے پروردگار کی کون کونسی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے
* ڈاکوؤں کا ٹولہ ، ہندوستان کا ایجنڈا لے کر پھر رہا ہے ، وزیراعظم عمران خان *
ڈاکو پاکستانی ہوں اور ایجنڈا ہندوستانی ، ایسا ہو نہیں سکتا ، جس دھرتی کے باسیوں کو لوٹ کر اپنی روزی روٹی کا بندوست کر رہے ہوں ، وہ اسی دھرتی کے خلاف اپنے ازلی اور ابدی دشمن ملک ہندوستان کا ایجنڈا لے کر اپنی دھرتی پہ کیوں چلیں گے ، ڈاکو سامنے آ کر وار کرتے ہیں ، للکارا مارتے اور شان بےاعتنائی سے مارتے ہیں یا مر جاتے ہیں ، لیکن غداری نہیں کرتے ۔ پھولن دیوی ، جگا ڈاکو، محمد خاں ڈاکو اور سلطانہ ڈاکو جیسی کئی مثالیں موجود ہیں۔ ہندوستان کا ایجنڈا سینے سے لگانے والے اور دو قومی نظرئیے کا مذاق اڑانے والے ، غدار تو کہلوائے جا سکتے ہیں ، ڈاکو ہر گز نہیں ، ڈاکو برادری کی اگر اس بیان سے دل شکنی ہوئی ہے تو اس کے لئیے معزرت ،امید ہے کہ آئندہ ڈاکو اور غدار میں فرق رکھا جائے گا۔