اردومیں شکارکی کہانیاں بہت کم لکھی گئی ہیں۔پچاس اورساٹھ کی دہائی میں اردوڈائجسٹ،سیارہ ڈائجسٹ،حکایت اورعالمی ڈائجسٹ میں شکاریات اورشکارکی کہانیاں بھی شائع ہوتی تھیں۔مقبول جہانگیراوردیگرمصنفین کی شکار کہانیاں کتابی صورت میں بھی شائع ہوئیں۔ لیکن اردومیں ڈائجسٹ رسالوں اورجاسوسی مصنفین کوادب میں کوئی مقام نہیں دیاگیا۔ اردوکے مایہ نازجاسوسی ناول نگارابن صفی کواپنی وفات کے چالیس سال بعد تمغہ حسن کارکردگی سے نوازاگیا اوران کی اہمیت کوتسلیم کیاگیا۔توشکارکی کہانیوں کوکیااہمیت ملتی۔تاہم قارئین کا ایک بہت بڑا طبقہ شکارکی کہانیوں کاہمیشہ شیدائی رہاہے۔ شکاریات پرمبنی کئی کتابیں بھی شائع ہوکرمقبولیت حاصل کرچکی ہیں۔راشداشرف صاحب نے اپنے منفردکتابی سلسلے”زندہ کتابیں“ کے تحت ”شکاریات کی ناقابلِ فراموش داستانیں“کی چارجلدیں شائع کرکے اردوادب میں شکاریات کی کمی کودورکیاہے۔اس کے علاوہ ”شکاراورآسیب“اورنامورشکاری جم کاربٹ کی آپ بیتی ”کارپٹ صاحب“سمیت چھ کتب میں شکاراورشکاریوں کے قصے جمع کردیے ہیں۔اردو میں اس سے قبل شکاریات پراتنی بہترین اوربڑی تعداد میں کہانیاں کبھی شائع نہیں ہوئیں۔اس طرح راشداشرف صاحب نے شکاریات کی دل چسپ داستانوں کوحیات نوبخشی ہے۔اورنے شکاریات کے شوقین قارئین کے دل جیت لیے ہیں۔
سیدرفیق حسین اردوکے منفردافسانہ نگارسمجھے جاتے ہیں۔فارسٹ آفیسرسیدرفیق حسین نے نصف صدی قبل دس بارہ افسانے ہی لکھے۔ جنہوں نے انہیں اردوادب میں لازوال مقام دلایا۔جانوروں کی عادات وخصائل اوران کی نفسیات کوایسی جزئیات نگاری سے کوئی اور پیش نہیں کرسکا۔نامورافسانہ نگارابوالفضل صدیقی اورانورخواجہ نے بھی جانوروں پرچند عمدہ افسانے لکھے۔حال ہی میں محمدعاطف علیم کے شاہکارناول”مشک پوری کی ملکہ“ میں سیدرفیق حسین کی جھلک نظرآئی۔انہوں نے جس خوبصورتی سے ایک مادہ باگھ اوراپنے دوبچوں کے لیے اس کی جدوجہدکوپیش کیاہے۔اس نے پہلے ہی ناول سے عاطف علیم کی دھاک بٹھادی ہے۔ان مصنفین کی پسندیدگی نے جانوروں اور ان کے بارے میں لوگوں کی دلچسپی کوبھی واضح کیاہے۔
شکارکی کہانیوں میں سنسنی خیزی،تھرل،دلچسپی،خوف،تجسس،پراسراریت،شکاراورشکاری کی کشمکش انہیں ریڈایبل بناتی ہیں اورقاری ان میں گم ہوکرسب کچھ فراموش کربیٹھتاہے۔”شکاریات کی ناقابلِ فراموش داستانیں“کی چاروں جلدیں تقریباً ساڑھے پانچ سوصفحات پر مشتمل ہیں۔ہرجلدکی قیمت پانچ سو سے چھ سونوے روپے تک ہے۔اس طرح بائیس سوسے زائد صفحات پرمبنی یہ علم خزانہ’زندہ کتابیں‘ کا اختصاص بن گیا۔’’شکاراورآسیب“ دوسوباہترصفحات اوراس کی قیمت تین سوروپے ہے۔ جس میں شکارکے متعلق پر اسرارروایات، خوفناک اوردلچسپ قصوں کویکجاکیاگیاہے۔شکاریات پرمبنی معیاری تراجم کے باوجوداس صنف میں مزیدکہانیوں کی گنجائش تھی۔”شکاراور آسیب“ نے اس کمی کوپوراکیاہے۔اس کتاب کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ مترجم نے شکارسے متعلق ایسی کہانیوں کاانتخاب کیاہے جن میں کوئی مافوق الفطرت واقعہ وابستہ ہے۔سیدحشمت سہیل نے عالمی شکاریاتی ادب کے تراجم کے ساتھ طبعزادکہانیاں بھی پیش کی ہیں۔جن کاموضوع دورانِ شکارپیش آئے پراسرارواقعات کے گردگھومتاہے۔
”کارپٹ صاحب“ میں شکاری جم کاربٹ کا زندگی نامہ اوران کے شکارسے متعلق تجربات سے بھرپورانتہائی دلچسپ آپ بیتی ہے۔ کتاب اعلیٰ سفید کاغذپرتین سوپینسٹھ صفحات پرمبنی اوراس کی قیمت چھ سونوے روپے ہے۔یہ ایک ایسے جنگجوشکاری کی کہانی ہے جس پرلڑائی کے دورا ن ا ٓشکارہواکہ اس کادشمن سفاک اورچیرہ دست نہیں،قابض اورتوسیع پسندتوخود اس کااپنالشکرہے۔کوربٹ انسانوں کوبچانے درندوں سے لڑنے نکلا،سینکڑوں انسانوں کے قاتل آدم خورشیروں اورچیتوں کوٹھکانے لگاکراس نے ہزاروں انسانی زندگیاں بچائیں اورپھرایک دن شیروں اورچیتوں کی نگہبانی کاپرچم تھام لیا۔جم کوربٹ وہ پہلاشکاری تھا جس نے شکارکے معرکے کوشکاری کے علاوہ شیرکی نظرسے بھی لکھا۔اس نے شیروں کی ترجمانی کی اورپہلی باردنیاکوبتایاکہ شیرشوقِ لذت میں آدم خورنہیں بنتابلکہ شیروں کوآدم خوربنانے کے مجرم وہ اناڑ ی شکاری ہوتے ہیں جودرندہ کوزخمی کرچھوڑتے ہیں۔وہ پہلا شخص تھا جس نے انسانوں کواحساس دلایاکہ شیرچیتے تمہاری آبادیوں میں در اندازی نہیں کرتے بلکہ تم ان کی سرزمین پردندناتے ہو،جم کوربٹ عام تاثرکے برعکس ایک درویش تھا،پرندے جس کی ہتھیلی پربلاخوف بیٹھ جایاکرتے تھے،جواپنامال ومتاع،زمین وجائیدادغریبوں میں بانٹ آیاتھا۔وہ انسانیت سے بھی آگے زندگانیت کاپیامبرتھا۔شکاری اور زندگی دوست۔کچھ توہے جوکوربٹ کودیگرشکاریوں سے بلندکرتاہے۔مارٹن بوتھ کئی برس تک اس کی سوانح عمری لکھنے کے بارے میں فیصلہ نہیں کرپایا۔اسے بھی یہی خدشہ تھاکہ وہ اپنے جس ہیروکی ذات سے پردہ اٹھانے جارہاہے کہیں اسے جعلی نہ پائے۔کوربٹ کی تحریروں سے اس کی شخصیت کی دیومالائی تصویر ذہن پرابھرتی ہے۔ایک ناقابلِ شکست ہیروکی تصویر۔زیرنظرسوانح اسی تصویرکوہرزایے سے پرستا ریت کی عینک اتارکرایک سچے محقق کی نظرسے پیش کیاگیاہے۔
چھ کتابوں میں شکاریات سے متعلق تین ہزارسے زائدصفحات کامواداس سے قبل کبھی یکجاشائع نہیں ہواتھا۔یہ منفرداعزازبھی راشداشرف اوران کی ’زندہ کتابیں‘کوحاصل ہوا۔اردوقارئین کواب شکاریات سے متعلق ادب کی کمی محسوس نہ ہو گی۔
دوسری جلد کے پیش لفظ میں راشداشرف لکھتے ہیں۔”آدم خورشیرودیگردرندوں کاشکارہمیشہ ہی سے انسان کی شجاعت کوللکارتارہاہے اور اس للکارکے جواب میں نسل انسانی کی بقاکے تحفظ کے لیے شکاری اپنے اپنے دورمیں ان سے برسرپیکاررہے ہیں۔ان شکاریوں میں جم کوربٹ،کینتھ اینڈرسن،کرنل پیٹرسن،جے ای کیرنگٹن،جے اے ہنٹرکے ساتھ برصغیرسے تعلق رکھنے والے کئی نامورشکاری شامل ہیں۔یہ سچی کہانیاں اپنے طرزتحریرکی خوبی کی بناپراچھے اچھے افسانوں کوبھی مات کرتی ہیں۔ان تحریروں میں جنگل کی پراسرارفضااپنی تمام تررنگینیوں کے ساتھ جلوہ افروز ہوتی ہے۔اس کرہ ارض پرانسانی زندگی کاآغازہی شکارسے ہوا۔شیرکاشکاربھی جم کوربٹ اورکینتھ اینڈرسن سے بہت پہلے شروع ہوگیاتھا۔مگر جس انداز میں ان دونوں حضرات نے اپنے تجربات کوتحریری شکل دی،وہ اندازکم ہی کسی کے حصے میں آیا۔یہ انداز تحریروقت کی قیدسے آزاداورسدابہارہے۔“
شہنشاہ جہانگیربھی شکارکاشوق رکھتاتھا اوراس حدتک کے اس کی تزک میں ہردوسرے تیسرے صفحے پراس کاذکرموجود ہے۔آگرہ سے شائع ہونے والے ’شمع‘ کے1926ء کے شماروں میں مولوی معشوق حسین خاں نے جہانگیرکے شوق شکارپرایک دلچسپ مضمون لکھاہے۔نواب مرزاداغ دہلوی کے ایک خط میں بھی عام شیر اورآدم خورشیرکے شکارکاتذکرہ ملتاہے۔محمد شکورخان نے1917ء میں ’مجربات شکار‘ کے نام سے کتاب لکھی تھی۔جس میں شکارکے طریقے اوراستعمال ہونے والی رائفلوں کی تفصیل فراہم کی گئی ہے۔اسی طرح 1932ء میں عبدالرحمٰن خان کی کتاب”رہنمائے شکار“شائع ہوئی تھی۔جس کے بارے میں مصنف کادعویٰ تھاکہ یہ فن شکارکے متعلق اردوزبان میں پہلی کتاب ہے۔نورالسعیداخترنے 1989ء میں ”سلاطین کاشوق شکار“ کے نام سے کتاب مرتب کی تھی۔بہزادلکھنوی مرحوم کی کہانی”نر دولی کاآدم خور“ شایدآج بھی قارئین کے ذہنوں میں تازہ ہو۔نواب حافظ محمداحمدخان اورخان بہادرحکیم الدین اپنے زمانے کے مشہور شکار ی گزرے ہیں،جنہوں نے شکارکی کہانیاں قلم بندکیں۔جہاں تک معروف انگریز شکاریوں کاتعلق ہے،ان کی لکھی شکارکی داستانوں کو اگرمقبول جہانگیر،حکیم اقبال حسین،توصیف عاصم،سمیع محمدخان،محمدسلیم الرحمٰن اورجاوید شاہین جیسے مترجم نہ ملتے تواردوداں طبقہ ان سے محروم رہ جاتا۔
شکاریات پرمتفرق کتابوں سے منتخب کردہ یادگارکہانیوں ”شکاریات کی ناقابلِ فراموش داستانیں“ کی چاروں جلدوں میں اس بات کوملحوظ خاطر رکھاگیاہے کہ انتخاب بہترین کہانیوں پرمشتمل ہو۔یہ کہانیاں 1960ء سے1980ء میں شائع ہونے والی کتب وجرائدسے اخذکی گئی ہیں،جن میں جم کوربٹ،کینتھ اینڈرسن، جیسے نامورشکاریوں کی تحریریں شائع ہوئی تھیں اورکئی عشروں سے قارئین کی نظروں سے دور تھیں۔مذکورہ شکاریوں کے ساتھ برصغیرکے دیگرنامورشکاریوں کی کہانیاں بھی ان جلدوں میں شامل کی گئی ہیں۔حکیم اقبال حسن کی کتاب ’سیروشکار‘ سے چند دلچسپ تراجم اس انتخاب میں شامل ہیں۔کینتھ اینڈرسن کی کتاب’جنگل نامہ‘ کاترجمہ جاویدشاہین نے ساٹھ کی دہائی میں کیاتھا۔جلداول میں کتاب کے چندتراجم شامل کیے گئے،جبکہ جلددوم میں ان کی ’باگھ نامی شیر‘ کے عنوان سے بے دلچسپ کہانی شامل کی گئی ہے۔
معروف ادیب دانشوراورٹی وی میزبان مرحوم عبیداللہ بیگ جوخود بھی اچھے شکاری تھے۔ان کاکہناہے کہ ”شکارکے واقعات خود اتنے دلچسپ ہوتے ہیں کہ ان میں کسی طرح کانمک یامرچ لگانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔شکارکانام آتے ہی سنسنی دوڑجاتی ہے،اس لیے شکار کے واقعات میں سنسنی خیزعنصرکوبڑھانے کیلیے کسی طرح کی مبالغہ آرائی کی ضرورت نہیں ہوتی۔“ان تمام کتب میں کئی دلچسپ کہا نیا ں شامل ہیں۔یہ سانس روکنے والے قصے ہیں۔اندازبیان ایساہے کہ کئی جگہوں پرقاری خود کوانہی کاحصہ تصورکرتاہے۔شکاری مصنفین نے اپنی زندگی ہندوستان کے مختلف علاقوں کے ان معصوم لوگوں کے تحفظ کے لیے وقف کردی تھی جوآدم خورشیروں اوردیگرجانوروں کا شکار ہوتے رہے تھے اوران شکاریوں کواپنانجات دہندہ سمجھتے تھے۔یہ خوش قسمتی تھی کہ ان شکاریوں کوبندوق چلانے کے ساتھ ساتھ قلم چلانا بھی خوب آتاتھااوراسی بناپریہ داستانیں قلم کے ذریعے کاغذ پربھی منتقل ہوئیں اورانہیں دنیابھرمیں ہرخاص وعام میں مقبولیت حاصل ہوئی۔
ان کتابوں میں آدم خورشیرکے شکارکے قصے زیادہ ہیں۔ڈاکٹرمحمدعلی شاہ سبزواری نے عام شیرکی خصلت کے بارے میں کہاتھا۔”شیرکے عادات واطوارمیں ایک بہادرشہنشاہ سے بہت مشابہت ہے۔یہ درندہ خوں خواراورقہارہونے کے باوجود رحم دل بھی ہوتاہے۔یہ کبھی کسی جانور پرحملہ نہیں کرتابشرطیکہ بھوکا نہ ہو۔محض تفریح یاکسی بے کس جانورکوستانے کے لیے اس کونہیں مارتا جبکہ چیتے اوردیگرخون خواردرند ے بلا ضرورت اپنے سے کمزورجانوروں کومارڈالتے ہیں۔علاوہ بریں یہ چیتے کی طرح پشت سے اچانک حملہ نہیں کرتا۔جس وقت اس کا پیٹ بھراہوتاہے اورزیبرایاہرن وغیرہ اس کے آس پاس سے گزرجاتے ہیں تویہ کچھ نہیں کہتا۔ہاں مگرجب بھوکاہوتاہے توبلاشبہ بے حدغضب ناک ہوتاہے۔اس وقت جوکوئی بھی سامنے آجائے اسے اپناشکاربنالیتاہے۔“
”شکاریات کی ناقابلِ فراموش داستانیں“جلد دوم میں مکتبہ میری لائبریری کی 1961ء میں شائع شدہ کتاب ”شیرشیرشیر“ اور1963ء میں چھپی ”شیرآیاشیرآیا“ سے دلچسپ کہانیاں شامل کی گئی ہیں۔ان میں جم کاربٹ اورکینتھ اینڈرسن کی ”تلاوس کی آدم خورشیرنی“،”یامادو دی کاآدم خور“،”چوگڑھ کی آدم خورشیرنی“،”چوکاکاآدم خورشیر“،”گڑہٹی کاشیطان“،”جولاگری کی آفت“ اور”کانڈاکاآدم خورشیر“ جیسی تحریریں شامل ہیں۔جوزبان وبیان کے اعتبارسے زندہ جاویدتحریریں کہلائے جانے کے قابل ہیں۔مترجمین نے بھی ترجمے کاحق ادا کردیاہے۔ان کی علاوہ نقی محمدخورجوی کے فرزندسمیع محمدخان کی ترجمہ کردہ طویل کہانی”ٹھاک کاآدم خور“ بھی اس انتخاب میں شامل ہے۔
شکاری کینتھ اینڈرسن نے برسہابرس پہلے جوکچھ کہاتھا وہ آج حقیقت میں تبدیل ہوگیاہے۔”ہندوستان بلکہ ساری دنیاہی اس وقت زیادہ مفلس ہوجائے گی جب انسان کابے رحم ہاتھ اپنے مادی فائدے کی خاطرجنگلوں کوکاٹ کاٹ کروہاں کی زمینوں کواپنے کاروباری مقاصد میں استعمال کرناشروع کرے گا اوران جنگلوں سے حیوانی زندگی کانام ونشان مٹانے کی کوشش کرے گا۔پھراسے تنہائی میں غوروخوض کرنے پرپرامن کے لمحے کہاں نصیب ہوں گے جوجنگلوں سے وابستہ ہیں۔“
جلدسوم میں انگریزمصنفین کے علاوہ برصغیرسے تعلق رکھنے والے کئی نامورشکاریوں کے قصے بھی شامل ہیں۔جوانگریزشکاریوں کے ہم پلہ تھے مگران کی تحریریں بوجوہ قارئین تک نہ پہنچ سکیں۔ان میں کرنل شیرجنگ،ڈاکٹرخان رشید،خان صاحب جمشیدبٹ، نواب قطب یار جنگ،شیخ الطاف دیرہ دونی،کیپٹن ایس ایم خلیل اللہ،ضیاالحسن فاروقی،عبدالمغنی خان،ڈاکٹرمحمدعلی شاہ سبزواری اورمیجر وہاج الدین جیسے اہم نام شامل ہیں۔یورپی شکاریوں میں لیفٹیننٹ کرنل اے لاک،جے ای کیرنگٹن،ہیوایلن،اولائیوسمیتھینزکے نام اہم ہیں۔ان کی چند انتہائی دلچسپ داستانیں اس جلد میں شامل کی گئی ہیں۔ان کے علاوہ خواجہ محمدحسین جونامورشکارجمشید بٹ کے دیرینہ ساتھیوں میں سے تھے۔ان کی چنددلچسپ کہانیاں بھی اس جلد میں شامل ہیں۔
جم کوربٹ اورکینتھ اینڈرسن جیسے یورپی شکاری بہت اچھے لکھاری بھی تھے۔انہوں نے اپنی تحریروں میں اس زمانے کے لوگوں کارہن سہن اورمختلف علاقوں کی تاریخ اورحالات بھی بیان کیے ہیں۔جن سے اُس زمانے کے حالات کے بارے میں بہت معلومات ملتی ہیں۔جم کوربٹ کواپنے ساتھ کیمرہ بھی رکھتاتھا۔انیسویں صدی کے نصف آخر اوربیسوی صدی کے نصف اول کے نینی تال اوردوسری جگہوں کے حالات اس نے بہت تفصیل سے بیان کیے ہیں۔
”شکاریات کی ناقابلِ فراموش داستانیں“ کی چوتھی جلددومنفردمضامین ”ٹیپوسلطان کاشوقِ شکار“ اور”لال قلعے کاشکاری“ شامل ہیں۔اس کے علاوہ اولائیوسمیتھیز،صابرحسین صابر،سیدشہامت علی دیگرکئی نامورشکاریوں کے قلم کے شاہکارشامل کیے گئے ہیں۔اولائیوسمیتھیزہما لیہ کے جنگلوں میں برسوں گھومتی پھرتی رہیں۔ان کے تجربات دلچسپ بھی ہیں اورمعلومات افزابھی۔ان کی خود نوشت Ten thousend Miles On Elephants انتہائی دلچسپ اورمعلومات افزاہے۔جس کی تلخیص خورشیدالزماں نے کی ہے۔اس خود نوشت کے تین حصے”جنگل کے دن،جنگل کی راتیں“،”شیرجنگ نے ہاتھی مارا“ اور”شکارکے ان سنے واقعات“اس جلد کی ابتدامیں شامل کیے گئے ہیں۔مشہورشکاری قمرنقوی کے قلم سے”بالم پورکاآدم خور“،”لہتراڑکے بھیڑیے“ اور”ڈمیالی کابھوت“ بھی اس جلد میں شامل ہیں۔جبکہ اس جلد کے اختتام پرشکاریات پراردومیں شائع ہونے والی کتابوں کی ایک فہرست بھی دی گئی ہے۔اس طرح مجموعی طور پرشکاریات پریہ چھ جلدیں اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے تحفہ خاص کی حیثیت رکھتاہے۔