19 ستمبر 1960ء کو ایوان صدر کراچی میں پاکستان کے صدر فیلڈ مارشل ایوب خان‘ بھارت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور عالمی بینک کے نائب صدر ڈبلیو اے بی ایلف نے سندھ طاس کے تاریخی معاہدے پر دستخط کیے۔ اس معاہدے میں طے کیا گیا تھا کہ دریائے سندھ کے تین مشرقی معاونین ستلج‘ راوی اور بیاس کے پانی پر بھارت کا حق ہوگا
اور دو مغربی معاونین چناب اور جہلم اور خود دریائے سندھ کے تمام تر پانی پر پاکستان کا حق ہوگا۔ اس معاہدے کے تحت یہ بھی طے پایا کہ ستلج‘ راوی اور بیاس سے پاکستان کے جس علاقے کی آب پاشی ہوتی ہے اس سے متبادل نہریں نکالنے کا انتظام کیا جائے گا۔ دریائے جہلم پر منگلا اور دریائے سندھ تربیلا کے مقام پر بند تعمیر کیے جائیں گے اور مجموعی طور پر پانچ بیراج‘ ایک سائفن اور آٹھ الحاقی نہریں بنائی جائیں گی۔ سندھ طاس کا معاہدہ پاکستان کی معاشیاتی تاریخ کا ایک اہم واقعہ تھا۔ اس کی بدولت جہاں پاکستان آبی رسد کے معاملے میں بھارت کی احتیاج سے آزاد ہوا وہاں پاکستان نے آبی تسخیر کے میدان میں بھی گراں قدر تجربہ حاصل کیا۔