کروڑوں فرزندان توحید کے دلوں کی دھڑکن، قطب عالم شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رح کے بنگلہ دیش میں شاید آخری خلیفہ مجاز، جن کی آواز پر پانچ ملین افراد کا اجتماع ڈھاکہ میں ہوا تھا، میری مراد حضرت مولانا احمد شفیع صاحب( امیر حفاظت اسلام بنگلہ دیش، صدر وفاق المدارس العربیہ و مہتمم و شیخ الحدیث دارالعلوم ہاٹہزاری چاٹگام) کا آج اٹھارہ ستمبر،غالبا یکم صفر بروز جمعہ، ڈھاکہ میں انتقال ہو گیا ہے۔ ان لله ما اخذ وله ما أعطى وكل شيء عنده باجل مسمى. حضرت کا انتقال اگرچہ کم و بیش ایک سو چار سال کی عمر میں ہوا ہے، لیکن اس وقت انکی شخصیت قحط الرجال کے اس دور میں امید کا ایک آخری سہارا تھی، اختلافات اور گروپنگ کے اس پرفتن زمانے میں مولانا احمد شفیع صاحب ملک کے طول و عرض میں وہ واحد ہستی تھے، جنکی قیادت و امارت، سب کے لئے نقطہ اتحاد بن جاتی تھی، تقریباً ڈھائی ہزار طلبہ ایک ساتھ جن کے آگے زانوئے تلمذ تہ کر کے درس بخاری شریف لیا کرتے تھے، ستر 70 سالہ شاندار تدریسی خدمات انجام دیکر جنہوں نے ہزار ہا افراد کو دینی علوم کے جوہر سے آراستہ کیا، اصلاح باطن اور تصوف و سلوک کے میدان میں بلا مبالغہ لاکھوں مسلمان، جن سے فیضیاب ہوئے، تصوف کا ڈھونگ رچا کر جو مبتدعین، لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں، ان کے زیغ و ضلال سے آپ نے بےشمار لوگوں کو بچایا، اپنے جاندار وعظ و بیان اور دو ٹوک و مفید ترین دعوتی پیغامات کے ذریعے ہر طبقے کے مسلمانوں کو راہ ہدایت کی رہنمائی فراہم کرنے میں جس عظیم ہستی نے بے بہا خدمات انجام دیں اور عمر کے آخری حصے میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والے سخت اسلام دشمن عناصر کے خلاف “حفاظت اسلام”نامی تنظیم کے بینر تلے جس عظیم ترین ہستی نے وہ بے مثال اور تاریخی تحریک چلائی، جس کی نظیر کئی عشروں کی تاریخ میں نایاب ہے، اس عظیم ترین تحریک کے ذریعے کروڑوں فرزندان توحید کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح متحد و متفق کرکے جس مرد آہن نے
” بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق” کا ایسا مصداق بنایا کہ تاریخ، غیرت ایمانی اور حمیت دینی کی ایسے زبردست مظاہرے کو کبھی فراموش نہیں کر سکے گی، بنگلہ دیش کی شاہراہوں نے بے کراں ایمانی جذبے سے سرشار احتجاج کا ایسا پرجوش لیکن پرامن منظر نامہ کبھی تخلیق نہیں کیا تھا جو منظر تحریک حفاظت اسلام نے پیش کیا ہے، آہ! آج وہ تاریخ ساز پیر مئے فروش ہم سے ہمیشہ کے لئے روپوش ہو گیا، بلاشبہ حضرت مولانا مولانا احمد شفیع صاحب کے انتقال سے تاریخ کا ایک بہت بڑا باب بند ہوگیا، اللہ تعالیٰ اس فقید المثال ہستی کے تمام اعمال صالحہ اور شاندار تاریخی دینی خدمات کو شرف قبول عطاء فرمائیں، اور ان کے درجات میں پیہم ترقی عطاء فرمائیں۔ ایسی عظیم المرتبت ہستیوں کا وجود ہی بے شمار فتنوں کے مقابلے میں ڈھال کا کردار اداء کرتاہے اور ان کے انتقال سے ایسا خلا پیدا ہوتا ہے، جس سے خطرناک فتنوں کے دروازے بعض اوقات کھل جاتے ہیں، ابھی اس وقت المیہ دیکھیئے، حضرت کا انتقال ڈھاکہ کے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں ہوا ہے اور ہزاروں افراد ڈھاکہ کی شاہراہوں میں اس بات کے لئے صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں کہ حضرت کی نماز جنازہ ڈھاکہ ہی میں ادا کی جائے، ان سطور کے لکھتے وقت ڈھاکہ میں بہت مخدوش حالات کی اطلاع ہے، بس دعاء ہے کہ اللہ تعالیٰ امت کے حالات میں ہر اعتبار سے بہتری کے اسباب پیدا فرمائیں، مدسہ ہاٹ ہزاری، تنظیم حفاظت اسلام اور وفاق المدارس العربیہ سمیت جتنے اہم میدانوں میں حضرت کے انتقال سے پیدا ہونے والے زبردست خلاء کے نتیجے میں بے شمار فتنوں کے دروازے وا ہونے کے غیر متوقع امکانات پیدا ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں، اللہ تعالیٰ ان فتنوں کے سد باب کا انتظام اپنی قدرت سے فرمائیں، حضرت مولانا رح کے انتقال سے امت کو جو عظیم نقصان ہوا ہے، اس کی تلافی کے اسباب بھی غیب سے فرمادیں، وما ذالک علی اللہ بعزیز۔ صرف مجھ ناچیز پر حضرت کے جو احسانات ہیں، ان کا پر لطف تذکرہ بھی طویل مضمون کی وسعت کا متقاضی ہے، فی الوقت ان سطور پر اکتفاء کرتا ہوں، اللہ تعالی نے موقع عنایت فرمایا تو یہ حسین یادیں پھر کبھی۔