آج طلعت محمود کا یوم وفات ہے۔ آج ہندوستانی سینما کو اپنی لازوال ملکوتی آواز سے چار چاند لگانے والے برصغیر کے نامور گلوکار اور ادا کار طلعت محمود کا یوم وفات ہے۔ طلعت محمود 24 فروری 1924ء کو بھارت کے تہذیبی و ثقافتی شہر لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔طلعت نے چھوٹی سی عمر میں اپنی موسیقی کی صلاحیتیں دکھانا شروع کر دیں۔ وہ راتوں کو جاگ جاگ کر ہندوستان کے ممتاز کلاسیکی موسیقاروں کو سنا کرتے تھے۔
مسلم خاندان سے تعلق ہونے کی وجہ سے ان کی گلوکاری کو زیادہ پذیرائی نہیں ملی بلکہ اسے معیوب سمجھا گیا، ایسے میں طلعت کو فلموں میں کام کرنے یا گھر بیٹھنے میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ باوجود والدین کی شدید مخالف کے انہوں نے موسیقی کو چُن لیا۔
طلعت محمود نے بطور اداکار “تم اور میں”، “آرام”، “دلِ نادان”، “ڈاک بابو”، “وارث”، “رفتار”، “دیوالی کی رات”، “ایک گاؤں کی کہانی”، “لالہ رخ”، “سونے کی چڑیا” اور “مالک” نامی فلموں میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے، جبکہ بطور گلوکار بھارت کی کلاسیکی فلموں “دیوداس”، “بوٹ پالش”، “حقیقت”، “ٹیکسی ڈرائیور”، “بابُل”، “سزا”، “ترانہ”، “نادان”، “مدہوش”، “سنگدل”، “داغ”، “انوکھی”، “فٹ پاتھ”، “بارہ دری”، “سجاتا”، “ایک پھول چار کانٹے” اور”پریم پتر” جیسی فلموں کے لیے گیت گائے،
آزاد دائرۃ المعارف کے مطابق طلعت نے چھوٹی سی عمر میں اپنی موسیقی کی صلاحیتیں دکھانا شروع کر دیں اور وہ ساری رات جاگ کر ہندوستان کے ممتاز کلاسیکی موسیقاروں کو سنتا تھا۔ مسلم خاندان سے تعلق ہونے کی وجہ سے اس کی گلوکاری کو پزیرائی نہیں ملی بلکہ معیوب اسے سمجھا گیا۔ ایسے میں طلعت کو فلموں میں کام کرنے یا گھر بیٹھنے میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ باوجود والدین کی شدید مخالف کے اس نے موسیقی کو چُنا لیکن اس کے انڈسٹری میں شہرت پانے کے کچھ سالوں بعد طلعت کے خاندان نے اس کو قبول کر لیا۔
برصغیر کے اس نادر روزگار گلوکار نے 9 مئی 1998ء کو ممبئی میں وفات پائی۔