اس روز شام گئے صدف مرزا نے اپنے حلقہ احباب کے چند لوگوں اور ٹی وی لنک کی ٹیم کو گھر پہ مدعو کیا ہوا تھا۔ تمام احباب سے مل کر بہت اچھا لگا ۔ میرا لیے ڈنمارک میں اردو ادب و زبان کا قدیم اور نہایت معتبر حوالہ نصر ملک صاحب ہیں ۔ اس شام معلوم ہوا کہ وہاں بھی اردو ادب و زبان کی خدمت کرنے والے کئی دھڑوں اور تنظیموں کی شکل میں موجود ہیں اور وردو زبان و ادب کی خدمت میں مصروف ہیں اور اس مقصد کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوشش میں رہتے ہیں ۔
جناب نصر ملک اور اُن کی بیگم ہما نصر ملک کا نام بچوں کے ادب سے لے کر بڑوں کے ادب اور تراجم کے ساتھ ساتھ صحافت کے لیے بھی صرف یورپ ہی نہیں بلکہ اردو کے حوالے سے دنیا بھر میں نہایت معتبر ہے۔ صدف مرزا عمر اور تجربے میں نصر ملک کے قد کے برابر تو نہیں ہیں لیکن تراجم ، نسائی ادب و شاعری اور نہایت خوبصورت صحافت کے حوالے سے وہ اپنی ایک جداگانہ اور اعلیٰ شناخت رکھتی ہیں۔ صدف مرزا سے میری پہلی ملاقات دو ہزار گیارہ میں فیض احمد فیض کے صد سالہ عالمی پروگرام کی ایک تقریب میں ہوئی تھی جو ہماری ادبی تنظیم اردو انجمن برلن کی جانب سے جرمنی میں منعقد کی گئی تھی۔ اس تقریب میں لندن سے معروف ایکٹوسٹ صحافی اکرم قائم خانی، بھارت سے معروف سماجی کارکن، مدرس و ادیبہ پروفیسر راجم پلے اور کینڈا سے ماہر تعلیم پروفیسر کامران احمد نے بھی شرکت کی تھی۔
یہ تقریب جرمنی کے معروف ادارے ہائنرش بول اسٹفٹنگ کے تعاون سے ان کے ہال میں کی گئی تھی۔ اس یادگار تقریب میں صدف مرزا نے فیض ادبی کمیٹی یورپ کی نمائندگی کی تھی۔ بعد ازاں اس کمیٹی میں یورپ کے کئی ممالک کو شامل کر کے یورپی لٹریری سرکل کی بنیاد ڈالی گئی تھی اور اس سرکل کی صدارت کی ذمہ داری صدف مرزا کو سونپی گئی تھی اور آج بھی ہے جسے وہ بہ احسن و خوبی انجام دے رہی ہیں۔
صدف مرزا سے پہلی ملاقات کا تاثر یہی تھا کہ یہ یورپ میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے اپنی مستحکم آواز رکھتی ہیں اور کسی بھی شعبہ زندگی میں عورت کو مرد سے کم تر درجے پر نہیں دیکھتیں اور نہ دکھانا چاہتی ہیں۔ میں بھی اجتماعی طور پر خواتین کے حقوق کے حوالے سے مثبت سوچ اور عمل رکھتی ہوں لیکن میرے نزدیک مرد و عورت کی تقسیم کا معاملہ غیر ضروری انسانی حقوق کی تقسیم یا امتیازی تقسیم کی ہی ایک صورت ہے ۔ عورت اور مرد دونوں ہی معاشرے کا لازمی جز ہیں اور معاشرے کے سدھار کی ذمہ داری دونوں ہی پر یکساں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مذہبی و سیاسی سطح پر ان ذمہ داریوں و فرائض کی ادائیگی دونوں صنفوں پر مختلف انداز میں عائد کی گئی ہیں جن میں سے کچھ باتوں پر شاید ہر عورت کو اختلاف ہو یا اکثر مرد اسے نہ تسلیم کرتے ہوں ۔ بہر حال یہ ایسی بحث ہے جو صدف مرزا کی شخصیت کے تصور کے ساتھ ہی میرے ذہن میں کہیں بیٹھ گئی تھی۔ صدف مرزا کے احباب کا حلقہ ،ان کی خانگی ذمہ داریاں اور اُن کی ادبی و علمی سرگرمیاں دیکھ کر یہ اندازہ ہوا کہ وہ نہایت محنتی خاتون ہیں جو اپنے ارادوں کی پختگی کو ہی اپنی ڈھال بنائے زندگی کی گاڑی آگے گھسیٹ رہی ہیں۔
شام کو جب سارے مہمان چلے گئے تو صدف نے کچن سمیٹا اور مجھے آرام کرنے کا کہہ کر خود بھی اپنے کمرے میں چلی گئیں۔ میں نے عادت کے مطابق پلنگ سے ملحقہ بک شیلف میں رکھی کتابوں کا جائزہ لیا اور صدف مرزا کی ہی ضخیم کتاب “ زبان یار من دانش” لے کر پڑھنے کے لیے بیٹھ گئی ۔ اس سے قبل صدف مرزا کی شاعری کی کتاب “ آب جُو” کا مطالعہ بھی بہت متاثر کن رہا تھا اور یہ کتاب بھی اُن کی علمی و ادبی استعداد کا تاثر بڑھا رہی تھی۔ صدف نے اپنی آب بیتی “برگد “کا بھی ذکر کیا تھا جو اشاعت کے مراحل میں ہے ۔ یہ کتاب انہوں نے اپنے والد مرحوم کے حوالے سے لکھی ہے۔ اس کے علاوہ وہ ڈینش شاعرات کی شاعری کا بھی جلد ترجمہ پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں ۔ فی الوقت مجھے ان کی اس کتاب یعنی یار من دانش میں کچھ غلطیاں دکھائی دیں ۔ جو شاید کتابت اور تواریخ کی تھیں اور ساتھ میں کچھ تراجم جو ڈینش و جرمن ادب میں بھی قریب تر تھے زبان کے حوالے سے ناقص تھے لیکن کتاب انتہائی دلچسپ تھی اور کئی اہم مضامین کے تراجم اس میں موجود تھے۔
صبح اُٹھ کر میں نے صدف سے اس کا ذکر کیا تو وہ مسکرا کر بتانے لگیں کہ یہ کتاب تو “ ڈمی “ ہے اس میں تو بے شمار غلطیاں ہیں، ابھی اصل کتاب شائع ہوکر آنے والی ہے اور وہ مجھے اس کتاب کی ایک کاپی ضرور عنایت کریں گی لیکن میرے بضد ہونے پر انہوں نے کتاب کی وہ ڈمی میرے لیے زاد راہ کے طور پر دینے کا وعدہ کر لیا۔ حسب روایت ناشتے کی میز مرغن اشیاء اور دیسی لوازمات سے بھری ہوئی تھی۔ رات کا کھانا ہی مجھے ہضم نہیں ہوا تھا اب اتنا ثقیل ناشتہ دیکھ کر طبیعت کچھ بوجھل سی لگنے لگی ۔ ان کے گھر میں اس وقت میں واحد مہمان تھی جس کے لیے صدف نے اتنا تکلف کر ڈالا تھا۔ وہ نہ جانے کب سے ناشتے کی تیاری میں مصروف تھیں۔ میں تو صبح تھوڑی سی دہی ایک سیب اور دو بسکٹ سے زیادہ ناشتہ نہیں کرتی ہوں۔ گھر پہ اتوار کے دن اگر پراٹھے بنالیں تو دن کا کھانا گول کرنا پڑتا ہے اور شام چھ بجے کے بعد میں کچھ نہیں کھاتی سوائے پھل یا سلاد کے لیکن ایک روز قبل ہی صدف نے بہت محبت سے صبح گیارہ بجے سے رات گیارہ بجے تک تین وقت کھانا اور دو ٹائم چائے بمعہ لوازمات کھلا کر مجھے کچھ سوچنے سمجھنے اور بولنے سے محروم کرنے کی نادانستہ کوشش کر ڈالی تھی۔ مجھے انکار کرنا بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا لیکن یہ ناشتہ کرکے میں اب خود پر ظلم نہیں کرنا چاہتی تھی۔ بہت ہمت کرکے میں نے صدف مرزا کو انتباہ کیا کہ وہ زپراٹھے نہ بنائیں کیونکہ میں اب کچھ نہیں کھا سکتی صرف چائے کا ایک کپ درکار ہے تو انہوں نے جھٹ ایک حکیمی قہوہ یا جوشاندہ بنا کر مجھے دیا کہ اس کے پینے سے طبیعت صاف ہوجائے گی۔ اس قہوے کے جادوئی اثرات نے طبیعت واقعی بہت اچھی طرح صاف کردی اور دوپہر میں ہم ان کے فلیٹ سے ملحقہ ایک ہال میں پروگرام کے لیے ہشاش بشاش چل دیئے۔
پروگرام سے قبل زبیر صاحب اور چودھری سرور صاحب نے آکر مہمانوں کے لیے چائے اور دیگر لوازمات کی میز سجائی اور اپنے ٹی وی کیمرے مناسب جگہ نصب کئے۔ اس کے بعد مہمانوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا، سب سے تعارف ہوا اور پروگرام اپنے وقت کے مطابق کلام پاک کی تلاوت کے آغاز سے شروع ہوا۔ اس پروگرام میں صدف مرزا نے خوبصورت نظامت کی ذمہ داری نبھائی اور یورپ میں میرا تعارف اور میری کتابوں و ادبی سر گرمیوں کا جائزہ پیش کیا۔ پھر ترجمہ کے حوالے سے کچھ مقررین نے یورپی ادب کا اردو میں پیش کردہ ترجمہ بمعہ اپنی آراء کے پیش کیا اور آخر میں مجھے بھی یہ اعزاز دیا گیا کہ جرمنی میں اردو ترجمہ کے حوالے سے تازہ صورتحال کا جائزہ پیش کروں اور محفل میں شریک لوگوں کے سوالات کے جواب دوں ۔ سوال و جواب کا یہ سلسلہ کافی دیر تک چلا ۔اس کے بعد ایک مختصر شعری نشست کا اہتمام بھی کیا گیا تھا جس میں مقامی شعراء نے اپنا کلام اردو اور پنجابی زبان میں سنایا اور آخر میں میری شاعری بھی سنی گئی۔ ایک ہلکی پھلکی شامِ ملاقات ، اردو تراجم کے حوالے سے جرمنی میں ادب کی صورتحال کا جائزہ اور شاعری سے فارغ ہوکر ہم ٹی وی لنک کے دفتر گئے جہاں صدف نے میرا ایک انٹرویو کیا جو شاید یو ٹیوب پر موجود ہے۔ میں کافی تھک گئی تھی۔ لیکن حسب روایت ہم ڈنر کے لیے ایک ترکی ریسٹوینٹ گئے جہاں ٹی وی لنک کی جانب سے ایک پر تکلف عشائیے کا اہتمام تھا۔ وہاں بھی ہماری گفتگو کا سلسلہ جاری رہا ۔ جناب زبیر صاحب اور چودھری سرور صاحب نے اپنی صحافتی کارکردگی اور علمی سرگرمیوں سے آگاہ کیا اور بہت اچھی یادیں شئیر کئیں۔ صدف مرزا ماشاءاللہ اس وقت بھرپور انداز میں اپنی زندگی کے خوشگوار اور یادگار ادبی محافل کا ذکر کرتی رہیں اور ڈنمارک میں ہونے والی ادبی سرگرمیوں سے بھی متعارف کرواتی رہیں۔ لیکن میں ان حضرات کی تمام گفتگو میں خود کو محظوظ ہوتا نہیں محسوس کر رہی تھی۔ زبیر صاحب نے شاید میری کیفیت بھانپ لی تھی تب ہی اچانک بولے کہ اب ہمیں واپس جانا چاہئے رات کے بارہ بج چکے ہیں۔ ہم صبح صبح ہال کی چابیاں دینے کے لیے اور صفائی کے لیے آئیں گے تو ڈاکٹر صاحبہ کے ساتھ صدف کے گھر کے قریب پارک اور سمندر کا ایک چکر لگا لیں گے تاکہ عشرت صاحبہ ڈنمارک کی تازہ ہوائیں بھی اپنے یادگار سفر میں ساتھ لے جاسکیں ۔ ہم سب نے اس وقت اپنی گھڑی پر نظر ڈالی، واقعی بارہ بچ چکے تھے۔ لیکن ریسٹورینٹ میں اچانک آنے والے مہمانوں کا ایک تانتا سا بندھ گیا۔
جاری