Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
2014ء میں نریندر مودی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ہندوستانی سرزمین مقامی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر تنگ ہوتی جا رہی ہے۔ ایک جانب شدت پسند ہندو جتھوں کی جانب سے سرعام قتل و غارت گری کے واقعات ہیں تو ساتھ ہی حکومت کی جانب سے ایسی آئینی اور قانونی تبدیلیاں کی جا رہی ہیں جن کے نتیجے میں اقلیتوں کو ان کے حقوق سے یکسر محروم کر کے ایک ہندو ریاست کا خواب پورا کیا جاسکے۔ بدقسمتی سے اس پر عالمی ردِ عمل کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں رہا۔زیادہ تر ممالک اور بین الاقوامی تنظیمیں بی جے پی حکومت پر کسی ٹھوس دباو کی بجائے پھسپھسے بیانات تک محدود رہے۔
مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک کا حال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ عرب شاہ اور شہزادے گزشتہ چھ سال کے عرصے میں مودی کے ساتھ پیار کی پینگیں بڑھانےمیں مصروف رہے ہیں۔ بھارت میں جس وقت بابری مسجد کے انہدام کو قانونی چھتری عطا کرنے کے فیصلے لکھے جا رہے تھے تواسی ہنگام عرب امارات میں مندروں کی تعمیر کےمنصوبے پروان چڑھ رہے تھے، مودی کو امارات کے اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا جا رہا تھا۔ بھارت کے ساتھ بندھے تجارتی مفادات کی وجہ سے عرب حکمران بھارت میں مسلمانوں کی حالتِ زار اور انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیوں پر آواز اٹھانے سے قاصر رہے۔ تاہم حالیہ چند ہفتوں میں اس صورتِ حال میں ڈرامائی تبدیلی دیکھنے کو آ رہی ہے۔ سماجی رابطے کی عالمی بیٹھک ‘ٹوئٹر’ سے بھارتی فسطائیت کے خلاف طبل جنگ بجا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے تمام خلیجی ریاستوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اماراتی، کویتی اور سعودی شاہی خاندانوں کے افراد کی جانب سے اکھاڑے میں اترنے کے بعد صورت حال مزید سنجیدہ ہوگئی اور یہ لڑائی ٹوئٹر سے نکل کر برسرزمین پہنچ گئی۔
آغاز اس قضیے کا یوں ہوا کہ بھارت میں کرونا وائرس کے پھیلاوٴ کا ذمہ دار ملک کے مختلف حصوں میں گشت کرتی تبلیغی جماعتوں کو قرار دے کر سوشل میڈیا پر تبلیغی جماعت کے خلاف منظم مہم شروع کر دی گئی۔ چند شدت پسند صارفین نے دو قدم آگے بڑھ کر بحیثیت مجموعی اسلام اور مسلمانوں کو رگیدنا شروع کر دیا ۔ خلیجی ممالک میں موجود ہندوستانی صارفین نے اس مہم میں حصہ ڈالا تو ریاستی ایجنسیاں حرکت میں آئیں اور ایسے کئی لوگ قانونی کارروائی کی زد میں آگئے ۔ اسی دوران میں لوک سبھا میں بی جے پی کے ممبر تجاسوی سوریا کی عرب خواتین کے بارے میں ایک نازیبا ٹویٹ کا عکس بھی گردش کرنے لگا جس نے شاہی خاندان کی خواتین کو مزید مشتعل کر دیا۔ اماراتی شہزادی ہندالقاسمی اور سوشل میڈیا پر متحرک عبدالرحمٰن النصار ،نورہ الغریر اور دیگر نے موثر طور پر بھارت میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا، ہندوقوم پرستوں کے جرائم اور مسلمان اقلیت کی محرومیوں کو بے نقاب کیا۔ اس کے ساتھ بھارت میں اقلیتوں کی حالتِ زار کا موازنہ عرب ممالک میں رہنے والے بھارتی شہریوں کے ساتھ کرکے باور کروایا گیا کہ بھارت کو اپنی مسلم دشمنی کی بھاری قیمت چکانی پڑ سکتی ہے۔ ایسے واقعات بھی دیکھنے میں آئے کہ دیار عرب سے اسلام مخالف مہم میں حصہ لینے والے بھارتی شہریوں کو قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد بہت سے ٹوئٹر اکاونٹ بھی ڈیلیٹ ہوگئے۔
آگ اتنی بڑھی کہ وزیراعظم مودی کو خود میدان میں آکر اپنے شہریوں کو شٹ اپ کال دینی پڑی۔ ایک ٹویٹ کے ذریعے انھوں نے اپنے شہریوں اور بیرونی دنیا کو بتایا کہ کرونا وائرس ذات پات، رنگ نسل، اور مذہب عقیدہ نہیں دیکھتا۔ اسی کو کافی نہ سمجھا گیا بلکہ بھارتی وزیرخارجہ نے سعودی، اماراتی، کویتی اور بحرینی ہم منصبوں کو فون کرکے اپنی صفائی پیش کی۔ سفارتی سطح پر بظاہر یہ جنگ اب تھم چکی ہے ، تاہم سوشل میڈیا کے عرب صارفین وقتا فوقتا دنیا کا دھیان بھارت میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کی جانب پوا رہے ہیں۔
ہندوستان کے ساتھ وابستہ وسیع تر تجارتی اور مالی مفادات نے عرب حکمرانوں کو مجبور کر رکھا تھا۔ مسئلہ کشمیر پر اپنے دیرینہ موقف سے بھی یہ لوگ پیچھے ہٹ چکے ہیں اورپاکستان کو سفارتی اور سیاسی سطح پر روایتی حمایت نہیں مل پائی۔ تاہم بی جے پی کی ہندوتوا پالیسی جتنی سخت ہوتی جا رہی ہے، مسلم دنیا خواب گراں سے انگڑائی لے رہی ہے ۔ امید کی جا سکتی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف بھارت میں آئندہ ہونے والے کسی بھی پرتشدد واقعے پر عرب شیوخ اور عوام کی جانب سے بھرپور صدائے احتجاج بلند کی جائے گی۔بھارتی حکومت جتنی بھی مسلم مخالف سہی، عربوں کے آگے گھٹنے ٹیکنا اس کی مجبوری ہے کیونکہ وہ کبھی نہیں چاہے گی کہ تھوڑی سی عدم احتیاط کے نتیجے میں وہ ان کروڑوں درہم و دینار سے محروم ہوجائے جو عرب ممالک میں کام کرنے والے شہری ہر ماہ اپنے ملک میں بھیجتے ہیں۔
2014ء میں نریندر مودی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ہندوستانی سرزمین مقامی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر تنگ ہوتی جا رہی ہے۔ ایک جانب شدت پسند ہندو جتھوں کی جانب سے سرعام قتل و غارت گری کے واقعات ہیں تو ساتھ ہی حکومت کی جانب سے ایسی آئینی اور قانونی تبدیلیاں کی جا رہی ہیں جن کے نتیجے میں اقلیتوں کو ان کے حقوق سے یکسر محروم کر کے ایک ہندو ریاست کا خواب پورا کیا جاسکے۔ بدقسمتی سے اس پر عالمی ردِ عمل کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں رہا۔زیادہ تر ممالک اور بین الاقوامی تنظیمیں بی جے پی حکومت پر کسی ٹھوس دباو کی بجائے پھسپھسے بیانات تک محدود رہے۔
مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک کا حال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ عرب شاہ اور شہزادے گزشتہ چھ سال کے عرصے میں مودی کے ساتھ پیار کی پینگیں بڑھانےمیں مصروف رہے ہیں۔ بھارت میں جس وقت بابری مسجد کے انہدام کو قانونی چھتری عطا کرنے کے فیصلے لکھے جا رہے تھے تواسی ہنگام عرب امارات میں مندروں کی تعمیر کےمنصوبے پروان چڑھ رہے تھے، مودی کو امارات کے اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا جا رہا تھا۔ بھارت کے ساتھ بندھے تجارتی مفادات کی وجہ سے عرب حکمران بھارت میں مسلمانوں کی حالتِ زار اور انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیوں پر آواز اٹھانے سے قاصر رہے۔ تاہم حالیہ چند ہفتوں میں اس صورتِ حال میں ڈرامائی تبدیلی دیکھنے کو آ رہی ہے۔ سماجی رابطے کی عالمی بیٹھک ‘ٹوئٹر’ سے بھارتی فسطائیت کے خلاف طبل جنگ بجا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے تمام خلیجی ریاستوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اماراتی، کویتی اور سعودی شاہی خاندانوں کے افراد کی جانب سے اکھاڑے میں اترنے کے بعد صورت حال مزید سنجیدہ ہوگئی اور یہ لڑائی ٹوئٹر سے نکل کر برسرزمین پہنچ گئی۔
آغاز اس قضیے کا یوں ہوا کہ بھارت میں کرونا وائرس کے پھیلاوٴ کا ذمہ دار ملک کے مختلف حصوں میں گشت کرتی تبلیغی جماعتوں کو قرار دے کر سوشل میڈیا پر تبلیغی جماعت کے خلاف منظم مہم شروع کر دی گئی۔ چند شدت پسند صارفین نے دو قدم آگے بڑھ کر بحیثیت مجموعی اسلام اور مسلمانوں کو رگیدنا شروع کر دیا ۔ خلیجی ممالک میں موجود ہندوستانی صارفین نے اس مہم میں حصہ ڈالا تو ریاستی ایجنسیاں حرکت میں آئیں اور ایسے کئی لوگ قانونی کارروائی کی زد میں آگئے ۔ اسی دوران میں لوک سبھا میں بی جے پی کے ممبر تجاسوی سوریا کی عرب خواتین کے بارے میں ایک نازیبا ٹویٹ کا عکس بھی گردش کرنے لگا جس نے شاہی خاندان کی خواتین کو مزید مشتعل کر دیا۔ اماراتی شہزادی ہندالقاسمی اور سوشل میڈیا پر متحرک عبدالرحمٰن النصار ،نورہ الغریر اور دیگر نے موثر طور پر بھارت میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا، ہندوقوم پرستوں کے جرائم اور مسلمان اقلیت کی محرومیوں کو بے نقاب کیا۔ اس کے ساتھ بھارت میں اقلیتوں کی حالتِ زار کا موازنہ عرب ممالک میں رہنے والے بھارتی شہریوں کے ساتھ کرکے باور کروایا گیا کہ بھارت کو اپنی مسلم دشمنی کی بھاری قیمت چکانی پڑ سکتی ہے۔ ایسے واقعات بھی دیکھنے میں آئے کہ دیار عرب سے اسلام مخالف مہم میں حصہ لینے والے بھارتی شہریوں کو قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد بہت سے ٹوئٹر اکاونٹ بھی ڈیلیٹ ہوگئے۔
آگ اتنی بڑھی کہ وزیراعظم مودی کو خود میدان میں آکر اپنے شہریوں کو شٹ اپ کال دینی پڑی۔ ایک ٹویٹ کے ذریعے انھوں نے اپنے شہریوں اور بیرونی دنیا کو بتایا کہ کرونا وائرس ذات پات، رنگ نسل، اور مذہب عقیدہ نہیں دیکھتا۔ اسی کو کافی نہ سمجھا گیا بلکہ بھارتی وزیرخارجہ نے سعودی، اماراتی، کویتی اور بحرینی ہم منصبوں کو فون کرکے اپنی صفائی پیش کی۔ سفارتی سطح پر بظاہر یہ جنگ اب تھم چکی ہے ، تاہم سوشل میڈیا کے عرب صارفین وقتا فوقتا دنیا کا دھیان بھارت میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کی جانب پوا رہے ہیں۔
ہندوستان کے ساتھ وابستہ وسیع تر تجارتی اور مالی مفادات نے عرب حکمرانوں کو مجبور کر رکھا تھا۔ مسئلہ کشمیر پر اپنے دیرینہ موقف سے بھی یہ لوگ پیچھے ہٹ چکے ہیں اورپاکستان کو سفارتی اور سیاسی سطح پر روایتی حمایت نہیں مل پائی۔ تاہم بی جے پی کی ہندوتوا پالیسی جتنی سخت ہوتی جا رہی ہے، مسلم دنیا خواب گراں سے انگڑائی لے رہی ہے ۔ امید کی جا سکتی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف بھارت میں آئندہ ہونے والے کسی بھی پرتشدد واقعے پر عرب شیوخ اور عوام کی جانب سے بھرپور صدائے احتجاج بلند کی جائے گی۔بھارتی حکومت جتنی بھی مسلم مخالف سہی، عربوں کے آگے گھٹنے ٹیکنا اس کی مجبوری ہے کیونکہ وہ کبھی نہیں چاہے گی کہ تھوڑی سی عدم احتیاط کے نتیجے میں وہ ان کروڑوں درہم و دینار سے محروم ہوجائے جو عرب ممالک میں کام کرنے والے شہری ہر ماہ اپنے ملک میں بھیجتے ہیں۔