Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
آج اردو کے نامور محقق، ادیب اور شاعر جناب مشفق خواجہ کا یوم وفات ہے۔ جناب مشفق خواجہ کا اصل نام خواجہ عبدالحئی تھا اور وہ 19 دسمبر 1935ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد خواجہ عبدالوحید علامہ اقبال کے ہم جلیس اور کئی علمی کتب کے مصنف تھے جبکہ ان کے چچا خواجہ عبدالمجید اردو کی معروف لغت جامع اللغات کے مولف تھے۔
یہ بھی دیکھئے:
قیام پاکستان کے بعد مشفق خواجہ کراچی منتقل ہوگئے جہاں انہوں نے 1958ءمیں کراچی یونیورسٹی س ایم اے کیا۔ 1957ءسے 1973ءتک وہ انجمن ترقی اردو سے وابستہ رہے۔ اس ادارے سے وابستگی نے مشفق خواجہ کی شخصیت کو جلا بخشی اور یوں انہوں نے تن تنہا کئی اہم تحقیقی کارنامے انجام دیئے۔
1980ءکی دہائی میں مشفق خواجہ نے خامہ بگوش کے قلمی نام سے ادبی کالم نگاری کا آغاز کیا جس نے پورے برصغیر میں دھوم مچادی۔
یہ بھی پڑھئے:
مزاح نگاری کا فوجی مزاج: کاکولیات
بیس فروری: آج رتی جناح کی سالگرہ بھی ہے اور برسی بھی
اطہر متین احمد: کراچی ڈائری کا آخری ورق
ان کی تصانیف اور تالیفات میں خوش معرکہ زیبا، پرانے شاعر نیا کلام، اقبال از احمد دین، غالب اور صفیر بلگرامی، جائزہ مخطوطات اردو، تحقیق نامہ اور کلیات یگانہ کے نام سرفہرست ہیں۔ ان کا شعری مجموعہ ابیات کے نام سے
اشاعت پذیر ہوا تھا۔ اس کے علاوہ ان کے ادبی کالموں اور مکاتیب کے کئی مجموعے بھی شائع ہوچکے ہیں۔
مشفق خواجہ 21 فروری 2005ء کو کراچی میں وفات پاگئے اور کراچی ہی میں سوسائٹی کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔
مشفق خواجہ کا نمونہ کلام
نقش گزرے ہوئے لمحوں کے ہیں دل پر کیا کیا | مڑ کے دیکھوں تو نظر آتے ہیں منظر کیا کیا | |
کتنے چہروں پہ رہا عکس مری حیرت کا | مہرباں مجھ پہ ہوئے آئینہ پیکر کیا کیا | |
رہگذر دل کی نہ پل بھر کو بھی سنسان ہوئی | قافلے غم کے گذرتے رہے اکثر کیا کیا | |
پاؤں اٹھتے تھے اسی منزلِ وحشت کی طرف | راہ تکتے تھے جہاں راہ کے پتھر کیا کیا | |
اور اب حال ہے یہ خود سے جو ملتا ہوں کبھی | کھول دیتا ہوں شکایات کے دفتر کیا کیا |
آج اردو کے نامور محقق، ادیب اور شاعر جناب مشفق خواجہ کا یوم وفات ہے۔ جناب مشفق خواجہ کا اصل نام خواجہ عبدالحئی تھا اور وہ 19 دسمبر 1935ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد خواجہ عبدالوحید علامہ اقبال کے ہم جلیس اور کئی علمی کتب کے مصنف تھے جبکہ ان کے چچا خواجہ عبدالمجید اردو کی معروف لغت جامع اللغات کے مولف تھے۔
یہ بھی دیکھئے:
قیام پاکستان کے بعد مشفق خواجہ کراچی منتقل ہوگئے جہاں انہوں نے 1958ءمیں کراچی یونیورسٹی س ایم اے کیا۔ 1957ءسے 1973ءتک وہ انجمن ترقی اردو سے وابستہ رہے۔ اس ادارے سے وابستگی نے مشفق خواجہ کی شخصیت کو جلا بخشی اور یوں انہوں نے تن تنہا کئی اہم تحقیقی کارنامے انجام دیئے۔
1980ءکی دہائی میں مشفق خواجہ نے خامہ بگوش کے قلمی نام سے ادبی کالم نگاری کا آغاز کیا جس نے پورے برصغیر میں دھوم مچادی۔
یہ بھی پڑھئے:
مزاح نگاری کا فوجی مزاج: کاکولیات
بیس فروری: آج رتی جناح کی سالگرہ بھی ہے اور برسی بھی
اطہر متین احمد: کراچی ڈائری کا آخری ورق
ان کی تصانیف اور تالیفات میں خوش معرکہ زیبا، پرانے شاعر نیا کلام، اقبال از احمد دین، غالب اور صفیر بلگرامی، جائزہ مخطوطات اردو، تحقیق نامہ اور کلیات یگانہ کے نام سرفہرست ہیں۔ ان کا شعری مجموعہ ابیات کے نام سے
اشاعت پذیر ہوا تھا۔ اس کے علاوہ ان کے ادبی کالموں اور مکاتیب کے کئی مجموعے بھی شائع ہوچکے ہیں۔
مشفق خواجہ 21 فروری 2005ء کو کراچی میں وفات پاگئے اور کراچی ہی میں سوسائٹی کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔
مشفق خواجہ کا نمونہ کلام
نقش گزرے ہوئے لمحوں کے ہیں دل پر کیا کیا | مڑ کے دیکھوں تو نظر آتے ہیں منظر کیا کیا | |
کتنے چہروں پہ رہا عکس مری حیرت کا | مہرباں مجھ پہ ہوئے آئینہ پیکر کیا کیا | |
رہگذر دل کی نہ پل بھر کو بھی سنسان ہوئی | قافلے غم کے گذرتے رہے اکثر کیا کیا | |
پاؤں اٹھتے تھے اسی منزلِ وحشت کی طرف | راہ تکتے تھے جہاں راہ کے پتھر کیا کیا | |
اور اب حال ہے یہ خود سے جو ملتا ہوں کبھی | کھول دیتا ہوں شکایات کے دفتر کیا کیا |
آج اردو کے نامور محقق، ادیب اور شاعر جناب مشفق خواجہ کا یوم وفات ہے۔ جناب مشفق خواجہ کا اصل نام خواجہ عبدالحئی تھا اور وہ 19 دسمبر 1935ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد خواجہ عبدالوحید علامہ اقبال کے ہم جلیس اور کئی علمی کتب کے مصنف تھے جبکہ ان کے چچا خواجہ عبدالمجید اردو کی معروف لغت جامع اللغات کے مولف تھے۔
یہ بھی دیکھئے:
قیام پاکستان کے بعد مشفق خواجہ کراچی منتقل ہوگئے جہاں انہوں نے 1958ءمیں کراچی یونیورسٹی س ایم اے کیا۔ 1957ءسے 1973ءتک وہ انجمن ترقی اردو سے وابستہ رہے۔ اس ادارے سے وابستگی نے مشفق خواجہ کی شخصیت کو جلا بخشی اور یوں انہوں نے تن تنہا کئی اہم تحقیقی کارنامے انجام دیئے۔
1980ءکی دہائی میں مشفق خواجہ نے خامہ بگوش کے قلمی نام سے ادبی کالم نگاری کا آغاز کیا جس نے پورے برصغیر میں دھوم مچادی۔
یہ بھی پڑھئے:
مزاح نگاری کا فوجی مزاج: کاکولیات
بیس فروری: آج رتی جناح کی سالگرہ بھی ہے اور برسی بھی
اطہر متین احمد: کراچی ڈائری کا آخری ورق
ان کی تصانیف اور تالیفات میں خوش معرکہ زیبا، پرانے شاعر نیا کلام، اقبال از احمد دین، غالب اور صفیر بلگرامی، جائزہ مخطوطات اردو، تحقیق نامہ اور کلیات یگانہ کے نام سرفہرست ہیں۔ ان کا شعری مجموعہ ابیات کے نام سے
اشاعت پذیر ہوا تھا۔ اس کے علاوہ ان کے ادبی کالموں اور مکاتیب کے کئی مجموعے بھی شائع ہوچکے ہیں۔
مشفق خواجہ 21 فروری 2005ء کو کراچی میں وفات پاگئے اور کراچی ہی میں سوسائٹی کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔
مشفق خواجہ کا نمونہ کلام
نقش گزرے ہوئے لمحوں کے ہیں دل پر کیا کیا | مڑ کے دیکھوں تو نظر آتے ہیں منظر کیا کیا | |
کتنے چہروں پہ رہا عکس مری حیرت کا | مہرباں مجھ پہ ہوئے آئینہ پیکر کیا کیا | |
رہگذر دل کی نہ پل بھر کو بھی سنسان ہوئی | قافلے غم کے گذرتے رہے اکثر کیا کیا | |
پاؤں اٹھتے تھے اسی منزلِ وحشت کی طرف | راہ تکتے تھے جہاں راہ کے پتھر کیا کیا | |
اور اب حال ہے یہ خود سے جو ملتا ہوں کبھی | کھول دیتا ہوں شکایات کے دفتر کیا کیا |
آج اردو کے نامور محقق، ادیب اور شاعر جناب مشفق خواجہ کا یوم وفات ہے۔ جناب مشفق خواجہ کا اصل نام خواجہ عبدالحئی تھا اور وہ 19 دسمبر 1935ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد خواجہ عبدالوحید علامہ اقبال کے ہم جلیس اور کئی علمی کتب کے مصنف تھے جبکہ ان کے چچا خواجہ عبدالمجید اردو کی معروف لغت جامع اللغات کے مولف تھے۔
یہ بھی دیکھئے:
قیام پاکستان کے بعد مشفق خواجہ کراچی منتقل ہوگئے جہاں انہوں نے 1958ءمیں کراچی یونیورسٹی س ایم اے کیا۔ 1957ءسے 1973ءتک وہ انجمن ترقی اردو سے وابستہ رہے۔ اس ادارے سے وابستگی نے مشفق خواجہ کی شخصیت کو جلا بخشی اور یوں انہوں نے تن تنہا کئی اہم تحقیقی کارنامے انجام دیئے۔
1980ءکی دہائی میں مشفق خواجہ نے خامہ بگوش کے قلمی نام سے ادبی کالم نگاری کا آغاز کیا جس نے پورے برصغیر میں دھوم مچادی۔
یہ بھی پڑھئے:
مزاح نگاری کا فوجی مزاج: کاکولیات
بیس فروری: آج رتی جناح کی سالگرہ بھی ہے اور برسی بھی
اطہر متین احمد: کراچی ڈائری کا آخری ورق
ان کی تصانیف اور تالیفات میں خوش معرکہ زیبا، پرانے شاعر نیا کلام، اقبال از احمد دین، غالب اور صفیر بلگرامی، جائزہ مخطوطات اردو، تحقیق نامہ اور کلیات یگانہ کے نام سرفہرست ہیں۔ ان کا شعری مجموعہ ابیات کے نام سے
اشاعت پذیر ہوا تھا۔ اس کے علاوہ ان کے ادبی کالموں اور مکاتیب کے کئی مجموعے بھی شائع ہوچکے ہیں۔
مشفق خواجہ 21 فروری 2005ء کو کراچی میں وفات پاگئے اور کراچی ہی میں سوسائٹی کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔
مشفق خواجہ کا نمونہ کلام
نقش گزرے ہوئے لمحوں کے ہیں دل پر کیا کیا | مڑ کے دیکھوں تو نظر آتے ہیں منظر کیا کیا | |
کتنے چہروں پہ رہا عکس مری حیرت کا | مہرباں مجھ پہ ہوئے آئینہ پیکر کیا کیا | |
رہگذر دل کی نہ پل بھر کو بھی سنسان ہوئی | قافلے غم کے گذرتے رہے اکثر کیا کیا | |
پاؤں اٹھتے تھے اسی منزلِ وحشت کی طرف | راہ تکتے تھے جہاں راہ کے پتھر کیا کیا | |
اور اب حال ہے یہ خود سے جو ملتا ہوں کبھی | کھول دیتا ہوں شکایات کے دفتر کیا کیا |