فن کی دنیا میں طنز و مزاح ایک ایسی فیلڈ ہے جس میں پاکستان ہمیشہ سے ہی خود کفیل رہا ہے۔ وہ پاکستان کے تھیٹر ہوں اسٹیج ہوں یا پھر ٹی وی پر نشر کیے جانے والے مزاح سے بھرپور سٹ کام فنکاروں نے ہمیشہ ہی اپنے فن سے دیکھنے والوں کو محظوظ کیا۔ معین اختر ہوں عمرشریف ہوں ، سہیل احمد ہوں یا افتخار ٹھاکر جیسے فنکار ان سب نے ہی لوگوں کے دلوں پر راج کیا ان کی کامیڈی میں مزاح کے ساتھ ساتھ ایک سبق آموز انجام بھی شامل رہا ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
گذشتہ کچھ عرصے سے طنز و مزاح کی فیلڈ بھی زوال کا شکار ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اسٹیج تو فیملی انٹرٹینمنٹ رہا ہی نہیں دوسری جانب آج کل پاکستان کے تقریبا تمام نیوز اور انٹرٹینمنٹ چینلز پر مزاحیہ پروگرام نشر تو کیے جا رہے ہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تمام کا ہی مواد ایک جیسا ہے۔ اینکر جو شو ہوسٹ بھی کررہا ہوتا وہ ایک کرسی پر براجمان ہوتا ہے دو یا تین تھیٹر کی دنیا کے فنکار مزاح کا تڑکا لگانے کے لیے ایک جانب تشریف آور ہوتے ہیں تو دوسری جانب ایک خاتون کو بنا سنوار کر بٹھا دیا جاتا ہے جس کا واحد مقصد پورے پروگرام میں صرف اپنی ہنسی کی آواز شامل کرنا ہوتا ہے۔
جہاں ایک جانب اس قسم کے طنز و مزاح کے چند ایک پروگرام جو شروعات میں تو عوام میں مقبول ہوئے لیکن جدت کے تڑکے سے محروم ہونے کے باعث اب اپنی اہمیت کھوتے دکھائی دیتے ہیں وہیں ہر چینل پر ایک ہے جیسا مواد دیکھ کرعوام بھی اکتاہٹ کا شکار نظر آتے ہیں۔ لیکن شاید اس اکتاہٹ کا اختتام قریب ترین ہے کیونکہ “اور لائف” ایک ایسا پروگرام نشر کرنے جارہا ہے جسے ان تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈائریکٹ کیا گیا ہے۔ اس پروگرام کے ڈائریکٹر فرحان قاسم خود بھی تھیٹر کی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں لہذا وہ مزاح سے متعلق تمام پیچیدگیوں کو سمجھتے ہوئے عوام کے لیے ایک ایسی انٹرٹینمنٹ ڈائریکٹ کررہے ہیں جس میں مزاح بھی ہوگا اور سبق آموز اختتام بھی ساتھ ہی ساتھ پروگرام کے ہر کردار پر بھرپور توجہ دی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
اکیس فروری: آج اردو کے نامور محقق مشفق خواجہ کا یوم وفات ہے
مزاح نگاری کا فوجی مزاج: کاکولیات
اطہر متین احمد: کراچی ڈائری کا آخری ورق
مزاح کی دنیا سے تعلق رکھنے والے سٹینڈاپ کامیڈین تیمور عباسی نے اس پروگرام کو لکھا ہے جس سے اس امر کی گارنٹی ملتی ہے کہ اس پروگرام جس کا نام “آرڈر دس آرڈر” ہے کا ایک ایک فقرہ مزاحیہ چٹکلوں سے بھرپور ہوگا۔
پروگرام آرڈر دس آرڈر کی سب سے منفرد بات اس کی تھیم ہے جو مزاح پر مبنی نشر ہونے والے تمام پروگرام سے ہٹ کر ہے۔ اس پروگرام میں مزاحیہ عدالت لگائی جائے گی جس میں جج بھی ہوگا جیوری بھی اور وکلاء بھی موجود ہوں گے۔ پروگرام کے مہمان ملزم ہوں گے جن پر مزاحیہ الزامات لگائے جائیں گے اور مزاح سے ہی وہ اپنے آپ پر لگے الزامات سے بری الزما ہونے کی کوشش کریں گے۔
جہاں اس پروگرام کے ہر پہلو پر کام کیا گیا ہے وہیں یہ خیال بھی رکھا گیا ہے کہ اس پروگرام میں خاتون آرٹسٹ کا کردار صرف اپنی ہنسی شامل کرنے کا نہ ہو۔ اس لیے پروگرام کی ہوسٹ عریبہ ترمذی ہوں گی جو کہ اس پروگرام میں وکیل کا کردار نبھائیں گی۔ عریضہ کہتی ہیں کہ “آرڈرڈس آرڈر کے اس کردار نے مجھے اپنی صلاحیتوں کے بھرپور استعمال کا موقع دیا ہے۔ مجھے اپنا یہ کردار انتہائی پسند ہے کیوں کہ یہ ایک آزاد خودمختار ، او باہمی خاتون کا کردارہے جو کورٹ میں جانے سے پہلےاپنی تیاری کرتا ہے”
پروگرام میں تین کردار جیوری کے روپ میں نظر آئیں گے۔ جس میں سے ایک کردار ایک ٹرانس جینڈر نبھا رہی ہیں جن کا نام سنیہا رانی ہے یوں خاتون اینکر کے ساتھ ساتھ ٹرانس جینڈر کو نمائندگی دے کر بھی اس پروگرام نے جدت کی دنیا میں قدم جما لیے ہیں۔۔سنیہا کہتی ہیں کہ “مجھے اپنا یہ کردار اس لیے پسند ہے کہ بطور ٹرانس جینڈر مجھے پہلی بار فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے” اپنے کردار کے بارے میں کہتی ہیں کہ یہ ایک سیریس کردار ہے جسے نبھا کر وہ بہت خوش ہیں اور اور ٹی وی کا شکریہ ادا کرتی ہیں جنہوں نے ٹرانس کمیونٹی کو اتنا بڑا موقع دیا”
قاسم محمود جو کہ بطور جیوری ایک پنجابی کردار نبھائیں گے وہ اپنے کردار کے بارے میں کہتے ہیں کہ “میرا کردار خاصا منفرد ہے یہ کردار جس طرح سے دوران گفتگو پنجابی زبان کا استعمال کرتا ہے اس سے دیکھنے والے خاصے محظوظ ہوں گے”
جیوری کا تیسرا کردار سید شہریار شاہد نبھا رہے ہیں وہ اپنے کردار کے بارے میں کہتے ہیں کہ “میرے کردار کا کام ہی لوگوں کو جج کرتا ہے جسے معاشرے کی کوئی پرواہ نہیں اسے بس وہی کرنا یے جو وہ سوچ رہا ہے اور یہی بات اس کردار کو منفرد بناتی ہے”
مزاح کا یہ سلسلہ مہمان ملزم پر لگائے جانے والے الزام سے اخذ کیے گئے ایک سبق آموز پہلو پر اختتام پذیر ہوگا جو کہ اس پروگرام کو تعلیمی و تربیتی لحاظ سے بھی ایک منفرد پروگرام بنائے گا۔