آج نام ور مزاح گو شاعر سید محمد جعفری کی برسی ہے۔ وہ 27 دسمبر 1905ءکو پہرسر‘ بھرت پور کے ایک ذی علم گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ 1906ءمیں ان کے والد سید محمد علی جعفری‘ اسلامیہ کالج لاہور سے منسلک ہوگئے یوں سید محمد جعفری کی تمام تر تعلیم لاہور میں ہوئی۔ قیام پاکستان کے بعد سید محمد جعفری مرکزی محکمہ اطلاعات میں اہم منصب پر فائز ہوئے۔ اسی ملازمت کے دوران انہیں ایران میں بحیثیت پریس اور کلچرل اتاشی خدمات انجام دینے کا موقع ملا۔
یہ بھی دیکھئے:
https://youtu.be/4FtQfFmbW5M
سید محمد جعفری نے ایک صاحب اسلوب شاعر تھے انہوں نے سیاسی اور سماجی موضوعات پر 900 کے لگ بھگ نظمیں تحریر کیں۔ ان کے یہاں کلاسیکی شاعری کی تمام التزامات نظر آتے ہیں خصوصاً انہوں نے غالب اور اقبال کے جن مصرعوں کی تضمین کی ہے اس کی کوئی اور مثال اردو شاعری میں نظر نہیں آتی۔
یہ بھی پڑھئے:
ن لیگ میں تقسیم کے لیے قومی حکومت کا منصوبہ
فارن فنڈنگ کیس: پی ٹی آئی خود اپنے جال میں پھنس گئی
گاندھی اور نہرو اب بھارت کے ہیرو نہیں رہے، ان کی جگہ گوڈسے لے چکا
سید محمد جعفری7 جنوری 1976ءکو کراچی میں وفات پاگئے۔ وہ کراچی میں خراسان باغ کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں ۔
۔سید محمد جعفری کے انتقال کے بعد ان کی شاعری کے دو مجموعے شوخی تحریر اور تیرنیم کش کے نام سے شائع ہوئے تھے۔ اب ان کی شاعری کی کلیات اور خطوط کا ایک مجموعہ بھی شائع ہوچکا ہے ۔
نمونہ کلام:
اے کراچی تیری رونق اور شہروں میں کہاں
مچھروں کی بین الاقوامی نمائش ہے یہاں
کس قدر آباد ہیں تیری نواحی بستیاں
ان میں مچھر میہماں ہیں اور مچھر میزباں
مچھروں کا شہر ہے حفظان صحت کا نظام
کر رہا ہے پوری پوری تندہی سے اپنا کام
اور شہروں کے بھی مچھر ہیں کراچی میں مقیم
کیونکہ اب چلتی نہیں اس شہر میں بحری نسیم
کر دیا کرتا تھا پسپا مچھروں کو یہ غنیم
ترک کر دی ہے ہواؤں نے بھی اب رسم قدیم
مچھروں نے باندھ رکھی ہے کراچی میں ہوا
ان کے اوپر کارگر ہوتی نہیں کوئی دوا
اے کراچی غیر ملکوں سے جو مچھر آئے ہیں
کیسے کیسے تو نے ان کے داد رے سنوائے ہیں
رات کو سوتے میں وہ کانوں پہ جب منڈلائے ہیں
اپنے ہی ہاتھوں سے تھپڑ اپنے منہ پر کھائے ہیں
ان کو رشوت بھی اگر دے دیں نہ باز آئیں گے وہ
کاٹ کر چپکے سے تاریکی میں اڑ جائیں گے وہ
چھوٹے مچھر موٹے مچھر اور بڑے ہیں اور کھرے
شہر کے بازار اور گھر مچھروں سے ہیں بھرے
رات دن منڈلا رہے ہیں ان کی فوجوں کے پرے
کان پر گاتے ہیں ٹکرا کر یہ بیجو باورے
مچھروں کو اے کراچی تو نے بخشا ہے وہ چین
خود کو ہر مچھر سمجھتا ہے وہی ہے تان سین
ہو چکا ہے مچھروں پر خون انسانی حلال
کون ان کو مار سکتا ہے کسی کی کیا مجال
مچھروں کی پرورش کا خاص رکھتے ہیں خیال
آدمی کی جان بچ جائے نہیں اس کا سوال
آدمی اپنی حفاظت کے اگر قابل نہیں
مچھروں کا خون سر لینے سے کچھ حاصل نہیں
نکلو مچھر دانیاں باندھے ہوئے جب گھر سے جاؤ
زخمی ہو جائے بدن اتنا زیادہ مت کھجاؤ
جب کوئی مچھر تمہیں کاٹے تو اس کا دل بڑھاؤ
بلکہ تالی بھی بجاؤ ساتھ اس کے مل کے گاؤ
مچھروں پر جاں نثاری کے لیے سچے بنو
ان کے کچھ مکھن لگاؤ ان کے تم چمچے بنو
مچھروں کے کاٹ لینے کا شرف حاصل ہو جب
تم اگر فریاد لائے لب پہ ہوگی بے سبب
اور لکھا جائے گا تھانے میں بھی نام و نسب
کچھ نہ بولو منہ سے کہلاؤ گے ورنہ بے ادب
مچھروں کے پالنے کو کھول رکھے ہیں گٹر
”مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر”
آدمی پر مچھروں کا یہ بڑا احسان ہے
خون پی لیتے ہیں جو سرچشمۂ ہیجان ہے
رات میں بچوں کا چہرہ ان کا دسترخوان ہے
اشرف مخلوق مچھر ہے کہ یہ انسان ہے
آدمی مرتے ہیں تو مر جائیں پر مچھر رہیں
شہر کے اندر رہیں اور شہر کے باہر رہیں
مچھروں کو پالنے والے کراچی اور سلام
استفادہ کر رہے ہیں مچھروں سے خاص و عام
لڑتے ہیں ناحق جنوبی اور شمالی ویتنام
اس سے تو بہتر ہے انساں مچھروں کے آئیں کام
زندگی انساں کی بے مقصد نہ ہونا چاہئے
یعنی قربانی کی کوئی حد نہ ہونا چاہئے