حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہ تھا کہ جب رمضان آتا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ھر اسیر کو رہا کر تے تھے اور ہر سائل کو کچھ نہ کچھ دیتے تھے ( رواہ بیہقی )
رسول اللہ صلی اللہ وسلم کی شفقت رحمدلی، نرمی عطا ،بخش اور فیاضی کا جو حال عام دنوں میں تھا وہ تھا ہی کہ یہ چیزیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمانہ کا حصہ تھی لیکن رمضان المبارک میں خاص طور پر ان میں اضافہ ہو جاتا تھا ۔اس زمانے میں چونکہ آپ صل اللہ علیہ وسلم معمول سے زیادہ گہرائی سے اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہوتےاور اللہ کے ساتھ آپ کی محبت میں شدت آ جاتی تھی اس لئیےآپ کی نیکیاں عام دنوں کی بہ نسبت کہیں زیادہ بڑھ جاتی تھیں ۔ جیسا کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ عام دنوں میں فرض ادا کرنے کا جو ثواب ملتا ہے رمضان میں نفل ادا کرنے پر ملتا ہے اس لیے آپ رمضان کے زمانے میں بہت سے کثرت سے نیکیاں کرتے تھے یہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل میں سے دو چیزیں مثال کے طور پر بیان کی گئی ہیں اسیروں کو رہا کرنا اور مانگنے والوں کو دینا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل کے بارے میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں ہر قیدی کو رہا کر دیتے تھے محدثین کے درمیان بحثیں پیدا ہوئیں ۔کے آیا یہ جنگی قیدی تھے یا عام قیدی ۔اس بنا پر اس اسکول کی مختلف توجیہات کی گئی ہے بعض محدثین کے نزدیک اس سے مراد جنگی قیدی ہیں بعض کے نزدیک اس سے مراد وہ لوگ ہو سکتے ہیں جو اپنے حصےکا قرض ادا نہ کرنے کی وجہ سے ماخوذ ہیں ۔
اس طرح نبی صلی وسلم قرض میں ماخوذ قیدیوں کا قرض ادا کر دیتے تھے ۔اس کی دوسری توجیہات بھی اس قول کی گئی ہیں ۔۔اگر غور کیا جائے تو اس کی ایک اور شکل بھی ہوسکتی ہے مثلا آج کل کے زمانے میں ایک طریقہ پیرول پر رہائی کرنے کا ہے یعنی قیدی کو کسی ضمانت یا گارنٹی کے عوض رہا کرنے دینا ۔قیدی کو اس امید پر رہا کردیا جاتا ہے کیا رہائی کی مدت ختم ہونے کے بعد وہ خود واپس آ جائے گا ۔وہ ایسا معاشرہ تھا کہ اس میں اس بات کا اندیشہ نہیں تھا کہ جس قیدی کو رہا کیا جارہا ہے وہ یہ خیال کرکے کہ اب مجھے کون پکڑ سکتا ہے کسی ایسی جگہ فرار ہو جائے گا جہاں سے اس کو پکڑنا ممکن نہ رہے گا ۔وہ تو ایسے لوگ تھے کہ اگر ان سے کوئی قصور سرزد ھو جاتا تھا تو خود آکر اس کا اعتراف کرتے تھے ۔تاکہ ان کو سزا دے کر پاک کردیا جائے ۔اس لیے ہوسکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ عمل کی یہ شکل رہی ہوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کو ان کی سزا معاف نہ ہوسکتی تھی رمضان کے زمانے میں مشروط طور پر رہا کر دیتے ہوں۔ تاکہ وہ رمضان کا مبارک زمانہ اپنے گھروں پر گزاریں۔ واللہ اعلم بالصواب۔