مبینہ طر پر پاکستان کے سب سے پاپولر مگر کارکردگی اور معاشرتی ترقی و تبدیلی کے حوالے سے کمزور ترین سربراہ حکومت جناب عمران خان صاحب 28 اپریل 2021 ءکو کوئٹہ کے ایک روزہ دورے پر تشریف لارہے ہیں جناب عمران خان صاحب نے پچھلے دو ڈھائی سال میں سب سے کم بلوچستان یعنی کوئٹہ کے دورے کئے ہیں تربت مکران اور گوادر کے علاؤہ ابھی جناب وزیراعظم صاحب کو لورالائی،خضدار اور نصیر آباد و جعفر آباد ژوب و چمن جانے کی توفیق نصیب نہیں ہوئی ہے ہاں جناب عمران خان صاحب چاغی و نوشکی اور خاران بھی نہیں جاسکے ہیں جہاں ایک زمانے میں بلوچستان میں تحریک انصاف کے روح رواں جناب مرحوم میر زرک زہری صاحب تھے اور چیرمین عمران خان صاحب چاغی و نوشکی کے دورے پر تشریف لائے تھے زرک زہری صاحب بادشاہ طبعیت مبارکہ کے مالک تھے اور جناب عمران خان صاحب سے اسی سفر میں ناراض ہو گئے تھے بادش بخیر جناب عمران خان صاحب چیرمین سے وزیر اعظم منتخب ہوئے مگر مزاج و حرکتیں اور کردار و گفتار میں کتنی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں یہ راز تو اب پیرنی صاحبہ ہی منصب جلیلہ کے بعد بیان فرمائیں گے۔
ممکنہ طور پر جناب وزیراعظم پاکستان عمران خان صاحب نوجوانوں کےلئے ایک پروگرام میں شرکت فرمائیں گے اور زیارت و ہرنائی میں ایک مجوزہ قومی شاہراہ کی سنگ بنیاد رکھ کر دو چار ملاقاتیں کریں گے اور امن و امان و ترقیات و سی پیک و مغربی روٹ کے متعلق بریفننگ کے کر افطار ڈنر کے لئے واپس اسلام آباد بنی گالہ پیرنی صاحبہ کے پاس ہی حاضری دیں گے جس طرح وطن عزیز کے 22,23 کروڑ عوام روز اپنے گھروں کو لوٹ کر غربت و مہنگائی اور بدانتظامی و افراتفری کا رونا روتے ہیں بلوچستان میں ڈیڑھ کروڑ انسانوں کی عزت و آبرو مندی اور حقوق و تکالیف کیسے اور کتنے دشوار گزار اور مشکلات و خرافات سے پر ہیں اس کا ایک مختصر جائزہ جناب عابد میر صاحب کے اس تفصیل میں ملاحظہ فرمائیں اور ممکنہ طور پر جناب وزیراعظم پاکستان عمران خان صاحب اور ان کے پارٹی لیڈران اور ان کے لئے سوچنے اور فوجی وردی میں ملبوس دانش ور اور ماہرین تک رسائی حاصل کرنے میں معاونت فرمائیں کہ انتظام و انصرام اور ترجیحات و ترقیات میں تیز رفتار،شفاف اور انسانوں سے محبت و عقیدت کے ساتھ ان کے نسلوں کے لئے مفید اور تعمیری مباحث و فیصلے نہ کرنے کے باعث قومیں ناکام و نامراد یو کر سنبھل جائے یہ ممکن نہیں ہے بلکہ صلاحیت و ظرفیت اور استعداد و توان کی مجموعی ترقی و خوشحالی اور فرائض و اختیارات کے ادراک و تعین میں نسلوں کی راہنمائی و دانش مندی کی ضرورت ہے،،
ملاحظہ فرمائیں صرف ایک ہفتے کی صبح و شام ہولناکیاں اور انسانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والی داستان غمِ و الم
بلوچستان کا قاتل ہفتہ
جناب عابد میر صاحب کے وال سے،،،کب ہم سنبھلنے اور خوف و غم سےآزاد معاشرے کی تشکیل و تعمیر نو کی طرف قدم اٹھائیں گے جناب،،،عبدالمتین اخونزادہ)
ہفتہ رفتہ کا آغاز 21 اپریل کو مکران کے علاقے ہوشاپ میں ایف سی اہلکار کی جانب سے گیارہ سہ بچے کے ساتھ زیادتی کے سنگین واقعہ سے ہوا۔ مکران بھر میں اس پر شدید احتجاج کے بعد مذکورہ اہلکار کو گرفتار کر لیا گیا۔اسی روز کی شام سرینا ہوٹل میں دھماکہ ہوا، جس کے نتیجے میں 5 افراد جان سے گئے۔
اور پھر اسی روز سے گویا اہل قلم و اہلِ علم کی وفایات کا ایک لامختتم سلسلہ شروع ہو گیا۔
21 اپریل:براہوئی زبان کے استاد اور بلوچستان یونیورسٹی کے بلوچستان اسٹڈی سینٹر کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر حمید شاہوانی کی وفات (وجہ مبینہ طور پر کورونا)
23 اپریل:پروفیسر کامریڈ غلام نبی، پرنسپل انٹر کالج منگوچر (سبب، روڈ ایکسیڈنٹ)
23 اپریل: ماہر تعلیم سابق ڈائریکٹر کریکولم و پائیٹ، پیر محمد سیال (سبب، کورونا)
25 اپریل:پروفیسر قمرالنسا، ایسوسی ایٹ پروفیسر گرلز کالج جناح ٹاؤن (سبب، کینسر)
25 اپریل:پروفیسر نزہت، پرنسپل گرلز کالج بیلہ (سبب، روڈ ایکسیڈنٹ)
25 اپریل:نوجوان صحافی عبدالواحد رئیسانی (سبب، ٹارگٹ کلنگ)
25 اپریل:بی ایس او کے سابق مرکزی انفارمیشن سیکٹریری نوجوان ناصر بلوچ کی رحلت (سبب، ہارٹ اٹیک)27 اپریل:پی ٹی وی کے معروف پروڈیوسر زیب شاہد کا انتقال (سبب، ہارٹ اٹیک) اور لگتا ہے حضرتِ عزرائیل ابھی سستانے کے موڈ میں نہیں۔