ممتاز شاعر اور دانش ور امجد حسین امجد ماہ مبارک میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ سلم کی تعلیمات کی روشنی میںاحکام رمضان اور تزئین معاشرت سے ہمیں آگاہ کریں گے، اس سلسلے میں وہ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی علیہ رحمہ کی کتاب ‘کتاب الصوم’ پیش کررہے ہیں
یایھاالذین امنو کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون( البقرہ 183
ترجمہ / اے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کیۓ گیۓ ہیں ۔ جس طرح تم سے پہلے انبیا کے ماننے والوں پر فرض کیۓ گیۓ تھے ۔ اس سے توقع ھے کہ تم میں تقوی کی صفت پیدا ھوگی ۔
—————————————-
1 – رمضان کے روزے ھجرت مدینہ کے اٹھارہ مہینوں بعد فرض ھوئے ۔ تحویل قبلہ کاحکم اس سے کوئی ڈیڑھ دو ماہ پہلے آیا تھا ۔رمضان کے روزوں کی فرضیت قرآن مجید احادیث اور اجماع امت تینوں سے ثابپ ھے ۔
محولہ بالا آیات میں رمضان کے روزوں کے متعلق حکم دیتے ھوئے” کتب علیکم الصیام ” کے الفاظ استعمال کئے گیۓ ہیں ۔اور “کتب” کا لفظ فرضیت کے لیے استعمال ھوتا ھے ۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ھے کہ ” بنی الاسلام علی خمس ” یعنی اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ھے
( 1) اس بات کی شہادت دینا کہ اللہ کے کوئی الہ نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں ۔
( 2) نماز قائم کرنا
( 3) زکوٰۃ ادا کرنا
(4) بیت اللہ کا حج کرنا
( 5) رمضان کے روزے رکھنا۔
2 – اسلام کے اکثر احکام کی طرح روزے کی فرضیت بھی بتدریج عائد کی گئی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدا میں مسلمانوں کو ھر مہینے کے صرف تین دن کےروزے رکھنے کی ھدایت فرمائی ۔ مگر یہ روزے فرض نہ تھے ۔ پھر 2 ھجری میں رمضان کے روزوں کا یہ حکم قرآن میں نازل ھوا۔ مگر اس میں اتنی رعایت رکھی گئی کہ جو لوگ روزے کو برداشت کرنے کی طاقت رکھتے ھوں اور پھر بھی روزہ نہ رکھیں ، وہ ھر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا کریں ۔ بعد میں دوسرا حکم نازل ھوا اور یہ عام رعایت واپس لے لی گئی ۔ لیکن مریض ، مسافر اور حاملہ یا دودھ پلانے والی عورت اور ایسے بوڑھے لوگوں کے لیۓ جن میں روزے کی طاقت نہ ھو اس رعایت کو بدستور باقی رہنے دیا گیا۔ ”
3 – سورہ بقرہ ھی میں آگے چل کر روزوں کا ایک مقصد بیان ھوا ھے ۔
ولتکبرو اللہ علی ما ھداکم و لعلکم تشکرون ( البقرہ 185 )
اور جس ھدایت سے اللہ نے تمھیں سرفراز فرمایا ھے ۔ اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکر گزار بنو ۔
معلوم ھوا کہ رمضان کے روزوں کو صرف عبادت اور صرف تقوی کی تربیت ھی قرار نہیں دیا گیا ۔ بلکہ انہیں مذید برآں اس عظیم الشان ھدایت کی نعمت پر اللہ کا شکریہ ادا کرنے کا حکم بھی دیا گیا۔ جو قرآن کی صورت میں اس نے ہمیں عطا فرمائی ۔
حقیفت یہ ھے کہ ایک دانش مند انسان کے لئے کسی نعمت کی شکر گزاری اور کسی احسان کے اعتراف کی بہترین صورت اگر ھو سکتی ھے تو وہ صرف یہی ھے کہ وہ اپنے آپ کو اسی مقصد کی تکمیل کے لئے زیادہ سے زیادہ تیار کرے ۔ جس کے لئے عطا کرنے والے نے یہ نعمت عطا کی ھو
قرآن ھمیں اس لئے عطا کیا گیا ھے کہ ھم اللہ تعالی کی رضا کا راستہ جان کر اس پر چلیں اور دنیا کو چلائیں ۔ اس مقصد کے لئے ھم کو تیار کرنے کا بہتریں ذریعہ روزہ ھے ۔