کپتان نے جن طبقات کو الل ٹپ سیاسی نظریات تھوک کے حساب سے بیچ کر “انقلابی” بنایا ان میں پڑھی لکھی، خوش حال مڈل کلاس اور پاکستانی تارکین وطن بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ یہ کپتان کی انگریزی، اعتماد اور بے نیازانہ بانکپن پر فریفتہ ہو بیٹھے۔ انہوں نے پڑھا ہوا تھا کہ انگریز یہاں حاکم رہا۔ اور کپتان ان کو میانوالی کے انجنیئر اکرام نیازی کا بیٹا بعد میں، انگریزوں کا داماد پہلے نظر آتا تھا۔ کیا بتانے کی ضرورت ہے کہ پدر سری معاشرے میں بیٹے اور بھائی کے سسرال پر فوقیت کے احساسات پائے جاتے ہیں؟ تو کپتان کی شکل میں انگریزوں سے مرعوبیت کا حل نظر آتا تھا۔
اپنی تعلیم اور خوش حالی کے باوجود ٹریفک پولیس کے سپاہی، ایکسائز کے اہلکار اور پٹوار سے ڈرنے والے اس طبقے کے لیے کپتان وہ سلطان راہی تھا جو “ان پڑھ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں” کی سرکار کے اہلکاروں کو سر عام بے خوفی سے للکارتا تھا۔
کپتان میں انہیں وہ خواہشات پوری ہوتی نظر آتی تھیں جو اپنے طور پر پوری کرنے کی ان میں سکت نہ تھی۔ قانون کا خوف انہیں کیچوا بنا دیتا تھا۔ وہ اپنی چڑھ دوڑنے کی خواہش کا اظہار صرف وہاں کرتے جہاں انہیں مواخذے کا خوف نہ ہوتا، ان کے ساتھ ہم خیال ہجوم ہوتا یعنی پکڑے جانے کی صورت میں ذمہ دار کا تعین نہ ہو سکتا یا جہاں ہدف کمزور ہوتا۔ دھرنے اور لانگ مارچوں میں میڈیا اور پولیس اہلکاروں پر حملے اور ویڈیو کیمرے کی مدد سے “دلیرانہ اصول پسندی” کی مثالیں ان کی نفسیاتی ساخت کا پتہ دیتی ہیں۔
اس ذہنی کیفیت میں کپتان کی تقریروں میں “اوئے آئی جی تجھے تو میں اپنے ہاتھ سے پھانسی۔۔۔ اوئے ڈی سی تیری تو ایسی کی تیسی۔۔۔ اوئے فلانے۔۔۔۔، اوئے ڈھمکانے۔۔۔اوئے دوڑ جا کوئی بل نہیں دیں گے ۔۔۔۔ وغیرہ” جیسے جملے ان پر ایک سحر طاری کر دیتے تھے۔ انہیں کپتان کی شکل میں انتظامیہ اور سرکار کو للکارنے کی خواہش کی مجسم تعبیر نظر آتی تھی۔
اس طبقے نے پہلے محبت کی اور بعد میں نظریہ خریدا۔ نظریہ ان کے لیے ان کے محبوب کا تحفہ تھا۔ اور محبوب تو کان کا میل بھی گولی بنا کر دے دیے تو عشاق ایڈرینلائن رش میں امرت دھارا جان کر نگل جاتے ہیں۔
عشاق نے کپتان کے دیے گئے نظریات کو دلیل کی کسوٹی پر نہ پرکھا۔
کپتان نے کہا ان دونوں چور ڈاکو پارٹیوں نے باریاں لگائی ہوئی ہیں، کیا یہ ملک ان کے باپ کا ہے؟
عشاق نے سوال نہ کیا کہ کون سے دو؟ سیاست دان اور فوج؟ کیونکہ اس ملک کی عمر کا نصف حصہ تو براہ راست فوج نے حکومت کی۔ اور باقی کا آدھا جو کبھی دو اور کبھی چار سال کی قسطوں میں سیاست دانوں کو ڈرائیونگ سیٹ دی گئی اس میں بھی ڈرائیونگ سکول والی گاڑی کی طرح اصل کنٹرول پیر تسمہ پا نے اپنے ہاتھ میں رکھا.
کپتان نے کہا موروثی سیاست لعنت ہے، جمہوریت میں اس کا تصور نہیں۔
عشاق نے سوال نہ کیا کہ جمہوریت موروثیت یا غیر موروثیت کا نام نہیں لوگوں کی رائے کا نام ہے۔ لوگ اگر وزیر اعظم پیئر ٹروڈو کے بیٹے جسٹن ٹروڈو کو وزیر اعظم بناتے ہیں، ووٹر فریڈم پارٹی اور بندرا نائیکے خاندان کا انتخاب کرتے ہیں، نہرو کے بعد بیٹی اندرا گاندھی اور اس کے بیٹے راجیو گاندھی کو وزیراعظم بناتے ہیں یا سینیئر بش کے بعد جونیئر بش کو وائٹ ہاؤس بھیجتے ہیں تو یہ موروثیت نہیں جمہور کی رائے کہلاتی ہے۔
کپتان نے کہا قومیں سڑکوں اور پلوں سے نہیں تعلیم سے بنتی ہیں۔
عشاق نے ایک لحظے کے لیے چونک کر رکنا اور سوال پوچھنا گوارا نہ کیا کہ حضور سنگترے اور سیب کا موازنہ کس چکر میں کیے جا رہے ہیں؟ تعلیم بہت اہم، سڑک بھی کسی لحاظ سے کم اہم نہیں۔ پڑھے لکھے کو اپنا فیض اور ہنر آگے پہنچانے کے لیے سفر بھی کرنا ہو گا جس کی بنیادی شرط راستہ اور ثانوی ضرورت راستے کا بہتر اور محفوظ ہونا ہے۔ سڑکیں کسی بااختیار کے ہاتھوں افتتاح کی تختی کی جائے تنصیب کے طور پر نہیں بنائی جاتیں، یہ معیشت کی رگیں ہوتی ہیں جن پر دوڑتے پھرنے سے معیشت نمو پاتی ہے۔
عشاق دل کی سنتے ہیں، دماغ کی نہیں۔ اس لیے یہ پوسٹ کسی عاشق کے لیے نہیں۔ نارمل لوگوں کے لیے ہے تاکہ اگر ان میں سے کسی پر عشق کرنے کا بھوت سوار ہونے کو ہو تو اسے مفت میں سیکنڈ اوپینیئن مل جائے۔
عشق عقل کی نہیں سنتا اسی لیے چالاک قاتل جرم کرنے کے بعد عشق کی ڈھال کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتے ہیں۔اگلے روز خوشاب میں ایک مجرم نے ایسا ہی کرنے کی کوشش کی۔
عشق والوں کو اپنا کیمپ بچانے کے لیے عقل کو رستہ دینا ہو گا۔