مجھے اچھی طرح یاد ہے۔۔۔
ریاض الجنۃ میں پائوں رکھنے سے پہلے کائنات یقیناً گردش میں تھی۔
سورج اور چاند ستارے تب بھی موجود تھے جب میں نے وہاں رکھے ہوئے، پہلے پلنگ میں جھانکا تھا۔
اندر گلابی تولیے میں لپٹی، سرخ سفید گڑیا رکھی تھی جس کی آنکھیں مجھ پر جمی تھیں۔ میں اچانک ہڑبڑا گیا تھا۔ ان خالی آنکھوں میں چار سو ارب کہکشائوں سے زیادہ وسیع حیرت تھی۔
میرا خیال ہے کہ جب میں نےدوسرے پلنگ میں لیٹےہوئے گول مٹول سے گڈے کو دیکھا تھا، اس لمحے بھی سیاروں کی چال جاری تھی۔ لیکن اس میں رکھی آنکھوں سے حیرت کا دائرہ آٹھ سو ارب کہکشائوں تک پھیل گیا تھا۔
جب میں نے تیسرے پلنگ میں، خود کو تکتی آنکھوں کی وسعت ناپنے کا اندازہ کیا تھا تو میرا حساب کتاب جواب دے گیا تھا۔ یہ حیرت کائنات کی وسعت سے ماوراء تھی۔
پلنگ میں لیٹی ہوئی ننھی پری کی بند مٹھی کو میں نے انگلی سے جوں ہی چھوا تو اس نے مضبوطی سے میری انگلی پکڑ لی تھی۔ کرب کی ان گنت لہریں آنکھوں سے داخل ہوکر میرے رگ و پے میں دوڑنے لگی تھیں۔
بڑھتی نمی سے آس پاس کا منظر دھندلا گیا تھا۔
میں گھبرا کر، اپنی انگلی چھڑا کر پھر چوتھے پلنگ کی طرف بڑھ گیا تھا۔ خبر نہیں پھر کیا ہوا ۔ شاید اختر صاحب بولے تھے۔
‘یہ چار دن کی ہے۔ ہمارے کارکن اسے کچرا کنڈی سے اٹھا کر لائے تھے’۔
میرے دماغ کو بھک سے اڑا دینے کے لیے یہ تفصیل ہی کافی تھی۔
انہوں نے پہلے پلنگ والی گڑیا کی عمر بتائی تھی دس دن ۔۔۔ پھر گڈے کی چھ دن ۔۔۔ پھر تین دن ۔۔۔ اور اب چار دن ۔۔۔ یا خدا ۔۔۔
تصور کریں ۔۔۔ آپ کے سامنے چار بچے لیٹے ہوں، جنہیں شہر کے مختلف مقامات سے، سڑکوں سے، جنگل سے، کچرا کنڈی سے اٹھا کر لایا گیا ہو، تو کیا آپ کا دماغ پھٹ نہیں جائے گا؟۔
ان بچوں کو پیدا ہوتے ہی مرنے کے لیے پھینک دیا گیا تھا مگر مارنے والے سے زیادہ بڑی بچانے والے کی ذات ہے۔ سو مالکِ کائنات نے انہیں بچا لیا۔
کہنے کی بات اور ہے۔ جب یہ بچے آنکھوں کے سامنے ہوں تو کائنات کی گردش رک جاتی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ میں نے اب سے پہلے زندگی میں تکلیف دہ منظر نہیں دیکھے۔ بہت دیکھے ہیں۔ اتنے لرزہ خیز مناظر کا شاہد رہا ہوں کہ اب کسی سے ان کا ذکر بھی نہیں کرتا۔ لیکن اس دن سے پہلے، میرے لیے کائنات کی گردش، کبھی تھمی نہیں تھی۔
اس دن چار چھوٹے بستروں میں لیٹے، معصوم بچوں کی آنکھوں میں پھیلی حیرت کو سمیٹنا، میرے بس سے باہر تھا۔ شاید پوری کائنات کے بس سے باہر تھا۔
ان بچوں کی آنکھوں میں مسترد ہونے کی حیرت تھی۔
وہ حیران تھے۔ کوئی فرشتوں کو بھی مسترد کرسکتا ہے؟۔
لیکن کیا آپ نے مسترد ہونے والے بچوں کی آنکھوں میں پھیلی حیرت کی وسعت کو کبھی ناپا ہے؟۔
یقین جانیے۔
بلیک ہول کی طرح یہ حیرت آپ کا وجود چشمِ زدن میں نگل جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پچھلے سال کی بات ہے۔ میں اس دن آزاد کشمیر کے شہر میرپور سے تقریباً بیس کلومیٹر دور، ایک نواحی علاقے ‘جھڑی کس’ میں قائم یتیم خانے میں تھا۔ ریاض الجنۃ وہاں ایک کمرے کا نام ہے جہاں جنت کے یہ پھول مہکتے ہیں۔ قلقاریاں مارتے ہیں اور خدا کی حمد کرتے ہیں جس نے انہیں محفوظ ہاتھوں میں پہنچا دیا۔
شاید اس عمارت کو یتیم خانہ کہنا ٹھیک نہیں ہوگا۔
یتیم خانے سے ہمارے ذہنوں میں ایک خاص عمارت، ماحول اور فضا کاتصور ابھرتا ہے، جو یہاں کے لیے غلط ہوگا۔
میں جہاں موجود تھا، ایسی عمارت پاکستان میں کہیں موجود نہیں۔
یہ ایک اسٹیٹ آف دی آرٹ، پرپز بلٹ چلڈرن کمپلیکس تھا جہاں سارے پاکستان اور آزاد کشمیر کے ساڑھے پانچ سو سے زیادہ یتیم اور مسترد ہونے والے بچے پرورش پارہے ہیں۔
ادارے کا نام ‘کشمیر آرفن ریلیف ٹرسٹ’ ہے جسے عرفِ عام میں کورٹ KORT پکارا جاتا ہے۔
اس کے بانی چوہدری محمد اختر ہیں۔ جنہیں آپ میرے ساتھ تصویر میں کھڑا دیکھ سکتے ہیں۔ یہ کورٹ میں موجود ساڑھے پانچ سو بچوں کے آفیشل بابا ہیں، کیونکہ ان تمام بچوں کی شناختی دستاویزات میں ولدیت کے خانے میں چوہدری محمد اختر کا نام درج ہے۔ کیا آپ پاکستان میں کسی اور شخص کو جانتے ہیں، جس نے اتنے سارے بچوں کو اپنا نام دیا ہو؟۔
آج اس تصویر کہانی کو آپ کے سامنے پیش کرنے کا خاص مقصد یہ ہے کہ میں چوہدری محمد اختر کی گزشتہ پندرہ برس پر محیط، ناقابلِ یقین جرات، انسان دوستی اورعزم کو خراجِ تحسین پیش کرسکوں، جس کی بدولت آج کے دن حکومتِ پاکستان نے بھی انہیں ‘تمغہِ امتیاز’ سے نوازا ہے۔
یقین جانیے۔ کورٹ کی تعمیر اور توسیع، ایک ایسی کہانی ہے، جسے سُن کر پتھر کا کلیجہ بھی ریزہ ریزہ ہوجائے۔ میں یہ کہانی تفصیل سے لکھ رہا ہوں۔ امید ہے جلد ہی کسی اخبار میں شائع ہوجائے گی۔
مختصراً اتنا بتا دیتا ہوں کہ جہاں اب کورٹ قائم ہے،وہاں سے لوگ کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں برساتی نالہ گزرتا تھا۔ چنانچہ علاقے کا نام اسی مناسبت سے جھڑی کس پڑگیا۔ اب برساتی نالہ تو شاید نہیں ہے، مگر فیض کا دھارا پہلے سے زیادہ قوت سے بہنے لگا ہے۔
جس علاقے کی طرف لوگ دن میں بھی آنے سے کتراتے تھے اور گھنے جنگل میں صرف شکاری ہی کتے لے کر داخل ہونے کی ہمت کرتے تھے، وہاں اب جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا ادارہ بن گیا ہے، جو مسترد ہونے والے بچوں کی زندگیوں میں شب و روز اجالے بکھیر رہا ہے۔
داستانوں میں آتا ہے کہ قیس نے لیلیٰ کے لیے پہاڑ کاٹ دیا تھا۔ چوہدری محمد اختر نے کورٹ کے لیے حقیقتاً پہاڑ چیر ڈالے ہیں اور جھڑی کس میں جہاں آج کورٹ کا عظیم الشان کمپلیکس موجود ہے، وہاں دیو قامت پہاڑ کھڑے تھے، جنہیں کاٹ کر عمارت کے لیے زمین ہموار کی گئی ہے۔ پاکستان میں کسی ادارے کے لیےعزم کی ایسی کوئی اور مثال میں نے نہیں دیکھی ہے۔ اگر آپ کو اس جناتی کاوش کے حجم کا اندازہ کرنا ہو تو ایک بار کورٹ کا دورہ کرلیں۔ آپ خود میری بات سے متفق ہوجائیں گے کہ یہ کام غیر معمولی ہے۔
کورٹ کی ابتدا آزاد کشمیر میں آنے والے زلزلے کے بعد ہوئی تھی۔ اس کی مکمل تفصیل تو میں بعد میں عرض کروں گا لیکن آج یہ یتیم بچوں کی پرورش کے روایتی ادارے سے بڑھ کر ایک ہمہ گیر ترقیاتی فلسفے میں ڈھل چکا ہے جو غریبوں کو مفت مکانات بنا کر دے رہا ہے، آزاد کشمیر کے ہرعلاقے میں صاف پانی کے لیے واٹر فلٹریشن پلانٹس کی تنصیب کررہا ہے، غریبوں میں راشن اور گرم کپڑے و بستر بانٹ رہا ہے اور ہزاروں کے حساب سے معذوروں میں وہیل چئیرز تقسیم کرچکا ہے۔
پندرہ سال کی مختصر مدت میں، خیال سے تحریک تک ڈھلنے کا یہ سفر، نہایت شان دار اور ڈھارس بندھانے والا ہے، جس کے لیے چوہدری محمد اختر نے بے مثال قیادت فراہم کی ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ اب کورٹ کے پاس درجنوں کی تعداد میں ایسے کارکنان اور رضاکار موجود ہیں جو اپنے قائد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے، دھیرے دھیرے تاریک راہوں میں امیدوں کے چراغ روشن کررہے ہیں۔
میں جناب چوہدری محمد اختر کو آج حکومتِ پاکستان کی جانب سے تمغہ امتیاز ملنے پر، ایک بار پھر مباکباد پیش کرتا ہوں۔