میں پرسوں ساہیوال کے ایک گائوں میں تھا۔ یہاں میں ہنرمند اور معذور عورتوں کے لیے، ایک ادارے کی طرف سے سلائی مشینیں، وہیل چئیرز، ان سلا کپڑا اور اون دھاگے سمیت سلائی کا دیگر سامان لے کر گیا تھا۔ یہ عورتیں کون تھیں؟۔ اس سوال کا جواب بڑا دلچسپ ہے۔ آپ کو ان سب میں ایک قدرِ مشترک نظر آئے گی اور وہ یہ تھی کہ یہ سب کی سب معذور ہیں۔
کسی کا پیر کٹا ہوا ہے تو کسی کا ہاتھ۔ کسی کی کمر کبھ سے خم ہے تو کسی کو سنائی نہیں دیتا۔ کوئی بیٹھ نہیں سکتی تو کسی کو گویائی نصیب نہیں۔ کسی کو نظر کم آتا ہے تو کسی کے اعصاب کمزور ہیں اور ہاتھ میں گرفت نہیں۔ کسی کو پولیو نے شکار بنایا ہے تو ناکافی غذائیت اور کم خوراکی کے باعث کسی کے ریڑھ کے ہڈی کے مہرے سرک گئے ہیں۔ ان سب کو معذوری کے شدید مسائل کا سامنا ہے۔
ان میں سے کئی بار بار مسترد کی گئی ہیں۔ کچھ کی شادیاں نہیں ہوئی ہیں اور عمر گزر گئی ہے۔ کچھ نے گائوں بھی پورا نہیں دیکھا کہ گھر سے باہر اٹھا کر کون لے جائے۔ شادی بیاہ بارات میں یہ اپنے کمروں میں بند ہوتی ہیں۔ جو سماعت اور گویائی سے محروم ہیں، ان کی زبان ہاتھوں میں ہے مگر اس آواز کو سننے والے ہی نہیں، اس لیے تقریباً تمام کی تمام ان پڑھ ہیں۔ کئی عورتیں بیوہ ہیں اور کئی لڑکیاں یتیم۔ کچھ کی شادیاں ہوئی ہیں تو شوہر بے ہنر یا بے روزگار ہیں، اس لیے گزارا مشکل سے ہوتا ہے مگر ان تمام میں دوسری قدرِ مشترک یہ ہے کہ یہ سب کی سب ۔۔۔ کمال کی ہنرمند ہیں۔
گویا غالب کے اس مصرعے کی تصویر ہیں کہ ۔۔۔ رُکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور ۔۔۔ معذوری نے اگر ان کا راستا روکا ہے تو حوصلے نے ان کے فن کو چارچاند لگا دئیے ہیں۔
اب یہ عورتیں کسی بھی عام سے کپڑے کو اپنی سلائی اور کڑھائی کی مہارت سے خاص بنا سکتی ہیں۔
پھول پودے، پتیاں، پرندے اور بیلیں بنا کر کچے پکے گھروں میں رنگوں کی قوس قزح بکھیر سکتی ہیں۔ کروشیا کے سلائیوں میں دھاگے کو پرو کر یوں بُن سکتی ہیں کہ گھنٹوں میں ایک شاہکار تیار ہوجائے اور دیکھنے والا دنگ رہ جائے کہ کیا ایک ان پڑھ، معذور اور لاچار سی عورت کا ذہن بھی تخلیق کی یہ کرشمہ سازیاں دکھا سکتا ہے؟۔ وہ جس نے گائوں کی گلیوں کو بھی پورا نہ دیکھا ہو، وہ چاند سورج کی گزرگاہوں کو اپنی سوئی کی نوک پر رکھتی ہے۔ اس خاموش سے دیہاتی ذہن کے فسوں ساز تخیل کی دسترس آپ کو حیران کردے گی۔
گویا اگر معذوری نے ان کو ایک کونے میں بٹھا دیا ہے تو اسی کونے سے انہوں نے اپنے تخلیقی اظہار کے دریا کے سوتے کھول دئیے ہیں اور نقوش و نگار کا سیلاب اٹھا دیا ہے۔
معذور عورتوں کو گھر بیٹھے روزگار دینے کا یہ کام جتنا مشکل ہے، اتنا ہی دل خوش کن اور چشم کشا بھی۔ اب یہ عورتیں جو چیزیں بنائیں گی، وہ ایک انٹرنیٹ بیسڈ مارکیٹ پر فروخت ہوں گی۔ ذمے دار اور باشعور لوگ اس ویب سائٹ سے اپنی من پسند چیزیں بھی خریدیں گے اور ان عورتوں کی حوصلہ افزائی بھی کریں گے یعنی اپنی سماجی ذمے داری بھی پوری کریں گے۔ تمام اشیاء کی آمدنی ان عورتوں کو مل جائے گی اور اس طرح وہ عورت جس کو ناکارہ اور فالتو سمجھ کر گھر میں پھینک دیا گیا تھا، اب ایک کارآمد اور فعال شخصیت کے طور پر گھر کے مرکز میں آکھڑی ہوگی جس کا سب کو خیال رکھنا ہوگا۔
میں نے اصرار کرکے ان سب عورتوں کو تقریب کے لیے بلایا تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ ان کا یہاں آنا آسان نہیں ہوگا۔ ان کو بھی مشکل ہوگی اور ان کے گھر والوں کو بھی ہوگی۔ لیکن اس بہانے کچھ عورتیں گھر سے باہر نکلیں گی۔ انہیں باہر آنے کا موقع ملے گا اور ان کے گھر والوں کی تربیت ہوگی کہ اب انہیں اس عورت کا خیال کیسے رکھنا ہے۔ میں جن عورتوں سے مخاطب تھا، ان کے مرد پیچھے بیٹھے ساری باتیں سن رہے تھے اور میں نے ان کو بھی بتا دیا تھا کہ اب اس عورت کا خیال رکھنا ان کی ترجیح ہونی چاہیے۔
میں کسی لمبی چوڑی تقریر کے ارادے سے ساڑھے چار سو کلومیٹر کی ڈرائیو کرکے اس گائوں میں نہیں گیا تھا۔ مگر جو ٹوٹے پھوٹے جملے ان سے کہے، انہوں نے اس کا جواب بھی بہت محبت سے دیا۔
مجھے خوشی ہے کہ میں آپ کو بھی یہ آوازیں سنا سکتا ہوں اور یہ منظر دکھا سکتا ہوں۔
سُن کر بتائیں ۔۔۔ کیا سنائی دیا؟ ۔۔۔
دیکھ کر بتائیں ۔۔۔ کیا دکھائی دیا؟
(احمد آفتاب نے یہ تحریر ایسے لکھی ہے کہ اس کے ساتھ ویڈیو بھی دیکھی جاسکے لیکن فارمیٹ کے مشکل کی وجہ سے یہاں وڈیو پیش کرنامشکل ہے، اسے الگ سے وڈیو سکشن میں پیش کیا جا رہا ہے، ہمیں یقین ہے کہ اہم درد یہ وڈیو بھی ضرور دیکھیں گے اور احمد آفتاب کی اس نیک کوشش میں ان کا ہاتھ بٹائیں گے)۔