وائٹ ہاوس کی نئی انتظامیہ سابق صدر ٹرمپ کی مڈل ایسٹ پالیسی کا ازسر نو جائزہ لینے کے بعد اب طالبان،امریکہ امن معاہدہ پہ نظرثانی کا اختیار استعمال کرنے کی پالیسی اپناتی دکھائی دیتی ہے،اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی اب افغان تنازعہ کا کوئی ایسا حل نکالنا چاہتے ہیں جس کے ذریعے یہاں طالبان کی خالص مذہبی ریاست کے قیا م کو روکا جا سکے لیکن امریکی یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ افغانستان میں اب وسیع تر قومی جمہوری ریاست کی تشکیل کا ہدف حاصل نہیں کر پائیں گے۔پھر سوال یہ ہے کہ وہ افغان تنازعہ کو زیادہ گنجلک بنا کے کون سے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں؟تاہم طالبان کی امارات اسلامی کے طلوع کو روکنے کے لئے امریکہ کو یہاں اپنے قیام کو غیر معینہ مدت تک بڑھانے کے علاوہ افغانیوں کو تشدد کے نئے رجحانات کی طرف دھکیلنا پڑے گا۔
امریکہ اور نیٹو کمانڈرز نے انخلاءکے لئے مئی 2021 کی متعین تاریخ کے بعد اگر فوجیں یہاں روکے رکھنے کا فیصلہ کیا،جیسا کہ حالیہ اطلاعات سے اشارہ ملا ہے،تو اس کے نتیجہ میں وہ دوحہ امن معاہدہ سبوتاژ ہو سکتا ہے جو غیر ملکی فورسیسز کے یہاں سے پُرامن انخلاءکی ضمانت دیتا ہے۔بائیڈن انتظامیہ یہ بھی کہتی ہے کہ وہ صدر ٹرمپ کی طرف سے مقرر کردہ انخلاءکے نظام الاوقات کی پاسداری کرے گی۔تاہم موجودہ شکل میں ان کے لئے دوحہ معاہدہ کو قبول کرنا دشوار ہو گا،یہاں افغانستان میں ایک فاتح گروہ کی طرف سے امارات اسلامی کا قیام مغرب کے عالمی سیاسی بیانیہ کی ساکھ کو برباد کر ڈالے گا اور یہی پیش دستی مڈل السٹ کے مستقبل کو متعین کرنے والے امریکی منصوبوں پہ بھی اثرانداز ہو سکتی ہے۔
ادھر پینٹاگون کے ترجمان جان کربی کے اس بیان ” کہ طالبان نے اپنے وعدوں پر عمل نہیں کیا” سے امریکی فورسز کے انخلاءبارے گہرے شکوک وشبہات ابھر رہے ہیں۔ امریکی کہتے ہیں،امن معاہدے کے تحت غیر ملکی فورسز کا انخلاءالقاعدہ جیسی بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ طالبان کو قطع تعلق اور افغان سرزمین پر ان کی سرگرمیوں کے مکمل خاتمہ سے مشروط تھا۔اقوام متحدہ کے حوالہ سے ایک مطالعاتی رپورٹ میں دعوی کیاگیا کہ طالبان نے امریکی مذاکرات کاروں سے القاعدہ سے قطع تعلق کے علاوہ بین الاقوامی افواج ،بڑے افغان شہروں اور کچھ دیگر اہداف پر حملہ نہ کرنے کا جو وعدہ کیا تھا وہ پورا نہیں ہوا،رپوٹ میں کہا گیا،اگرچہ طالبان نے امریکی فوج پر حملوں سے گریز کیا لیکن انہوں نے افغان سیکیورٹی فورسز اور عام شہریوں پر اٹیک بڑھا دیئے ہیں۔امریکی یہ بھی جانتے ہیں کہ مئی کے مہینہ میں غیرملکی فوجوں کے مکمل انخلا کے بعد یہاں طاقت کا توازن یکسر بدل جائے گا،جس سے ایران کی مڈل الیسٹ میں پھیلی پراکسی جنگووںکا ارتکاز متاثر ہو گا جو مشرق وسطی میں طاقت کے توازن کو تبدیل کر سکتا ہے۔
فی الوقت افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی نے متحارب فریقوں کے مابین ایک قسم کے دفاعی توازن قائم رکھا ہوا ہے،اگرچہ امریکہ نے اپنی فوجی کاروائیوں کا دائرہ محدودکر دیا لیکن اس کی یہاں عملی موجودگی طالبان کو برسرزمین طاقت کے توازن کو اپنے حق میں جھکانے میں مانع ہے،جس دن امریکی فورسز یہاں سے نکلیں اسی روز طاقت کا پلڑا طالبان کے حق میں جھک جائے گا،جس سے جنوبی ایشیائی ممالک کی تزویری پوزیشن بھی تبدیل ہو جائے گی۔امر واقعہ یہ ہے کہ پچھلے چند ماہ میں بڑے پیمانے پر امریکی فضائی حملوں کی بندش کے بعد طالبان جنگجووں نے اہم شاہراہوں پر قبضہ کر کے افغان سرکاری فورسز کو شہری مراکز یا پھر بڑی فوجی چھاونیوں کے اندر تک دھکیل دیا بلکہ کئی ناقابل تسخیر علاقوں تک طالبان کی رسائی نے ان کے اندر اِس اعتماد کو تقویت پہنچائی کہ اسی طرح کی جارحانہ کارروائیوں کے ذریعے وہ صرف چند دنوں میں افغان سیکیورٹی فورسز کی تسخیرکر سکتے ہیں۔لیکن اس پیچیدہ جدلیات کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ جب تک دونوں فریقین کے مابین کوئی سیاسی سمجھوتہ ہو نہیں جاتا،اس وقت تک افغان حکومت اور طالبان،دونوں،چھوٹے دہشت گردگروپوں کی شکل میں ابھرتے ہوئے خطرات کو روکنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے،داعش جیسے کئی سخت گیر مسلح گروہ ملک میں پیدا ہونے والے سیکیورٹی خلا سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور یہی گروہ ممکنہ طور پر پڑوسی ممالک میں کارروائیوں کے ذریعے دوحہ امن معاہدہ کے مقاصد کو نقصان پہنچانے کا وسیلہ بن سکتے ہیں کیونکہ بدیہی طور پہ ایسی کاروائیوں سے یہی مطلب لیا جائے گا کہ طالبان اُنہی غیر ملکی مسلح گروہوں کو دوبارہ محفوظ پناہ گاہیں فراہم کر رہے ہیں جن سے لاتعلقی کا عہد انہوں نے دوحہ معاہدہ میںکیا۔ہمارے خیال میں یہی وہ دراڑ ہے امریکی جسے بڑھانے کی کوشش کر کے افغانستان کو کبھی نہ تھمنے والی خانہ جنگی کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں۔
بظاہر یہی لگتا ہے کہ سنہ 1988 میں روسی فوج کے افغانستان سے انخلاءکے دوران ابھرنے والی شورش کی آگ میں جس طرح افغان مجاہدین کی کامیابیوں کو جلا کے خاکستر کیا گیا تھا اسی طرح نئی امریکی انتظامیہ انہی چھوٹے دہشتگرد گروہوں کی باہمی کشمکش کی آگ میں طالبان کی فوجی فتوحات کو سلگتا دیکھنے کے متمنی ہو گی۔اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکی انتظامیہ یکم مئی تک طے شدہ فوجی انخلاءروکنے کے لئے امن معاہدے سے دستبرداری کے لئے طالبان کی خلاف مبینہ ورزیوں کو جواز بناتی ہے یا پھر عسکریت پسند گروپ اور افغان حکومت کے مابین امن مذاکرات میں طالبان کی خلاف ورزیوں اور تاخیر کا حوالہ دیتے ہوئے طالبان سے انخلا کی آخری تاریخ میں توسیع کے لئے کہتے ہیں۔تاہم طالبان نے واضح کر دیا ہے کہ معاہدہ کے مطابق اگر یکم مئی تک تمام بین الاقوامی افواج افغانستان سے نہ نکلیں تو وہ امن عمل سے دستبردار ہو کے غیر ملکی افواج کے خلاف دوبارہ جہاد شروع کر دیں گے۔حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حالات میں مئی میں فوجی انخلاءممکنہ طور پر افغان گورنمنٹ کے خاتمہ اور خانہ جنگی کی تجدید کا سبب بن سکتا ہے،امریکہ کے جنگی ماہرین کہتے ہیں کہ “اٹھارہ ماہ سے تین سال کے اندر اندر پیچھے ہٹنے کی صورت میں امریکہ کو دہشت گردی کے خطرات کا پھر سامنا کرنا پڑ سکتا ہے،انہی خطرات کے پیش نظر،بائیڈن انتظامیہ انخلا کی تاریخ میں توسیع کے لئے طالبان کو قائل کرنے کے علاوہ چین ، ایران ، پاکستان ، قطر ، روس اور سعودی عرب سمیت دیگر ممالک سے بھی طالبان پر دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کرے گی۔
اگر طالبان معاہدہ میں توسیع پر راضی نہیں ہوتے تو بائیڈن انتظامیہ افغان گورنمنٹ کو خاتمہ کے لئے چھوڑ دے گی؟ اس میں کوئی شبہ نہیںکہ جب تک امریکی فورسیسز یہاں موجود ہیں اس وقت تک طالبان بڑے شہری مراکز کے علاوہ حکومت کے زیر کنٹرول علاقوں میں تشدد کو بڑھاوا دینے کی حکمت عملی کو جاری رکھیں گے۔طالبان کے جارحانہ حملوں میں وسعت کی بدولت افغانستان میںگذشتہ سال کی آخری سہ ماہی کے مقابلے میں رواں سہ ماہی میں تشدد کے رجحان میں اچھا خاصہ اضافہ ہوا۔طالبان نے دسمبر 2020 میں افغانستان میں حملوں کی جو نئی لہر اٹھائی اس میں شمالی بغلان اور جنوبی ارزگان صوبوں میں دو روز کے مختصر عرصے میں افغان سیکیورٹی فورسز پر ہونے والے حملوں میں کم از کم 19 افرادہلاک ہوئے،کابل میں سڑک کے کنارے نصب بم سے گاڑی کو نشانہ بنایا گیا جس میں دو شہری زخمی ہوئے،اسی طرح کابل میں ایک وکیل کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی۔افغانستان میں نیٹو کے زیرقیادت مشن میں،گذشتہ سال یکم اکتوبر سے 31 دسمبر تک کے تین مہینوں میں 810 شہریوں کی ہلاکت اور 1776 افراد زخمی ہونے کی اطلاع ملی لیکن رواں سہ ماہی میں سخت سردیوں کے باوجود شہریوں کی ہلاکتوں میںغیر معمولی اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔
اکتوبر 2001 میں افغانستان پہ حملہ کے بعد طالبان حکومت ختم کر کے غیر ملکی فورسیسزکی چھتری تلے جس افغان گورنمنٹ کی تشکیل کی گئی اسی کو سہارا دینے کی خاطر افغان سیکیورٹی فورسز پہ امریکہ ہر سال تقریبا.88$ 4 بلین ڈالر خرچ کرتا ہے،صدر جو بائیڈن کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے گزشتہ ہفتے فون کال کر کے اپنے افغان ہم منصب کو یقین دہانی کرائی کہ نئی امریکی انتظامیہ دوحہ معاہدے کا ازسر نو “جائزہ” لے گی۔دوسری جانب پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ امریکہ اس معاہدے کے تحت فوجیوں کی مکمل واپسی کے لئے پُر عزم ہے لیکن ہم طالبان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ معاہدہ کی رو سے القاعدہ کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے کے علاوہ پُر تشدد کاروائیوں کی سطح کم کرے۔سینئر امریکی کمانڈروں نے طالبان کے امن بارے بیان کردہ وعدوں پہ عدم اطمنان کا اظہار کرنے کے باوجودکہا ہے کہ انہوں نے افغانستان میں فوجیوں کی تعداد کم کرنے کا مقصد پورا کر لیا۔اسپیشل انسپکٹر جنرل برائے افغان تعمیر نو جان ایف سوپکو نے کہا “جیسے جیسے امریکی فورسیسز کے نقوش سکڑتے جائیں گے،یہ اور بھی اہم ہو جائے گا کہ امریکہ اور دیگر امداد دہندگان اپنے وسائل اور پروگراموں کی زیادہ موثر انداز میں نگرانی کریں۔امریکی فضائیہ نے 2020 کی آخری سہ ماہی میںافغان سکیورٹی فورسز کو مدد فراہم کرنے کی خاطر فضائی حملوں میں کچھ اضافہ کیا تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ نے امن معاہدے پر دستخطوں کے بعد سے طالبان کے خلاف جارحانہ حملے بند کردیئے ہیں۔