پچھلے ہفتے نیشنل لائبریری آف پاکسان جانا ہوا تو دل باغ باغ ہوگیا۔
کورونا کے بحران نے جب سے سر اٹھایا ہے، مثبت پیش رفت دیکھنے کو جیسے آنکھیں ترس گئی ہیں۔ اس لیے جب لائبریری کے ڈائریکٹر جنرل جناب غیور حسین نے مجھے پچھلے ایک سال کے دوران نیشنل لائبریری میں ہونے والی ترقی دکھائی تو آنکھوں پر یقین نہ آیا کہ کیا میں واقعی وہی پرانی لائبریری دیکھ رہا ہوں یا یورپ و امریکا کی کسی جدید ترین لائبریری میں آگیا ہوں۔
انہوں نے چند مہینوں میں ہی جیسے لائبریری میں انقلاب برپا کردیا ہے۔
جہاں کبھی پرانا گھسا ہوا فرنیچر تھا، وہاں اب ہر ریڈنگ ہال میں بہترین اور آرام دہ چمکتی ہوئی کرسیاں، میزیں، الماریاں اور کتابوں کے شیلف لگادئیے گئے ہیں۔
گندے اور میلے فرش کی جگہ اب تمام ہالز میں نئی ونائل فلورنگ ہے اور چھت پر فالس سیلنگ اور نئی لائٹیں نصب ہوچکی ہیں جن سے ہر ہال جگمگا رہا ہے۔
لائبریری کے ہر گوشے میں سب کے لیے مفت وائی فائی کا سگنل کام کررہا ہے اور درجنوں نئے ڈیسک ٹاپ کمپیوٹرز، پرنٹرز اور اسکینرز طلبہ و طالبات کے انتظار میں ہیں کہ یکم فروری سے تعلیمی عمل کا آغاز ہو تو لائبریری ان کو خوش آمدید کہے۔
مجھے سب سے زیادہ حیرت، لائبریری میں بچوں کے لیے نوتعمیر شدہ چلڈرن سیکشن کو دیکھ کر ہوئی جہاں تین ہزار کتابیں سجی ہوئی ہیں اور ابھی مزید سات ہزار کی گنجائش باقی ہے۔ بچوں کے لیے یہاں نہایت پرُلطف ماحول پیدا کیا گیا ہے اور خوبصورت رنگ برنگا فرنیچر اور اندرونی آرائشی اشیاء رکھی گئی ہیں۔ یہاں بچوں کے لیے ایک آڈیو ویژوول سیکشن بھی بنایا گیا ہے جہاں بڑے سے ایل ای ڈی اسکرین پر، بچوں کو تعلیمی اور تفریحی فلمیں وغیرہ مفت دکھائیی جائیں گی۔ آپ تصویر میں چلڈرن سیکشن کی ایک جھلک دیکھ سکتے ہیں۔
احممصنف نیشنل لائبریری کے سربراہ غیور حسین کے ساتھ
لائبریری کا ہی دوسرا حیران کردینے والا شعبہ، گوشہِ نور ہے جو معذور افراد کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ اس شعبے میں کسی بھی معذوری کے شکار افراد آکر پڑھ سکتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس شعبے میں ایسے جدید پرنٹرز لگادئیے گئے ہیں جن سے کسی بھی عام کتاب کو بریل میں پرنٹ کیا جاسکتا ہے۔
ایک اہم پیش رفت خواتین سیکشن کا قیام بھی ہے۔ وہ خواتین جو مردوں سے الگ ہوکر، پردے کے اہتمام کے ساتھ پڑھنا چاہتی ہیں، ان کے لیے لائبریری نے ایک خواتین سیکشن بنادیا ہے جہاں پاکستان اور دنیا بھر کی خواتین کی لکھی ہوئی کتابیں رکھ دی گئی ہیں۔ لائبریری کی کینٹین کو مکمل طور پر نیا بنادیا گیا ہے اور یہاں بھی اعلیٰ معیار کا فرنیچر اور کراکری لائی جارہی ہے۔
جناب غیور حسین نے بتایا کہ لائبریری کے دروازے ہر خاص و عام اور ادارے کے لیے کھلے ہیں۔ اگر این جی اوز، پرائیویٹ ٹرینرز، اسکولز اور کالجز چاہیں تو یہاں بلامعاوضہ تعلیمی و تربیتی ورکشاپس اور دیگر تقاریب منعقد کرسکتے ہیں جن کا لائبریری کوئی کرایہ نہیں لے گی اور تمام سہولتیں انہیں مفت مہیا کی جائیں گی۔ بقول غیور صاحب یہ لائبریری پاکستانی عوام کے پیسوں سے بنی ہے، لہّذا اس پر ان کا حق ہے اور وہ اپنے مفاد میں اس قومی اثاثے کو جب چاہیں استعمال کرسکتے ہیں۔
مجھے خوشی ہے کہ اس پوسٹ کے ذریعے، میں آپ کے سامنے پاکستان میں پہلی بار قومی کتب خانے یعنی نیشنل لائبریری آف پاکستان کا لوگو بھی پیش کررہا ہوں۔ لائبریری قائم ہوئے برس ہا برس گزر چکے ہیں مگر اب تک یہ آفیشل لوگو سے محروم تھی۔ گزشتہ ہفتے ہی اس لوگو کا اجرا ہوا ہے اور یہ اس لوگو کی پہلی باقاعدہ تصویر ہے۔
جیسا کہ میں نے کہا کہ وبا اور آلام کے اس دور میں، جب آنکھیں کسی دل خوش کرنے والے نظارے کو ترس گئی تھیں، نیشنل لائبریری میں ہونے والی ترقیاتی سرگرمیاں اور پیش رفت آمدِ بہار کا پیام سی محسوس ہوئی ہے۔
یقیناً اس قلبِ ماہئیت کا سہرا لائبریری کے موجودہ سربراہ جناب غیور حسین کے سر بندھنا چاہیے جنہوں نے ادارے کا وقت اور مالی وسائل ضائع نہیں ہونے دئیے بلکہ کورونا کے باعث جن دنوں میں لائبریری عوام کے لیے بند تھی، ان ہی دنوں میں یہ سارے کام کرڈالے۔ ایک مخلص اور اہل سربراہ اپنے ادارے میں کیسی روح پھونک سکتا ہے، آپ اس کا مشاہدہ نیشنل لائبریری میں جاکر کرسکتے ہیں۔
علم مسلمانوں کی میراث تھی جو ہم بھول چکے ہیں۔ لیکن ہم اب بھی توقع رکھ سکتے ہیں کہ اگر ہمارے کتب خانے آباد ہوجائیں تو مستقبل روشن ہوگا۔
روشن مستقبل کے لیے نیشنل لائبریری کی خدمات قابل قدر ہیں۔