الحمراء ھال نکو نک بھرا ہوا تھا تالیاں بجتیں تو چوڑیوں کی چھنکار بھی سنائی دیتی ساتھ ہی قہقہوں کے درمیان میں کسی بچے کے رونے کی آواز بھی کانوں میں پڑتی اچھا زمانہ تھا لوگ فیملی سمیت مختلف پروگراموں میں شریک ہوا کرتے تھے فنکار بھی خاندانی تھے سو اپنی گفتگو میں
ایک ایک لفظ کو سو پردوں میں چھپا کے عوام کے دلوں پر
نچھاور کرتے عوام بھی سبحان اللہ کی صدا بلند کرتے ہوئے فنکار کے فن کا اعتراف کرتے یہ زمانہ پھر نہیں آنا
بیک سٹیج فنکاروں کا جمعہ بازار لگا ہوا تھا یہ کسی فنکار کے فن کے اعتراف کے سلسلے کا پروگرام تھا سو فنکار خود ہی میزبان بھی تھے اور مہمان بھی ترتیب کچھ یوں تھی کہ ایک کامیڈین پھر گلوکار پھر کامیڈین پھر گلوکار درمیان کہیں کوئی گفتگو کیلئے بھی بلا لیا جاتا پروگرام عروج پر جارہا تھا ہم بھی عطاء اللہ عیسٰی خیلوی صاحب کی بغل میں یا وہ ہماری بغل میں ستاروں کے آنگن میں بیٹھے تھے
ایسے موقع پر عطاء اللہ عیسٰی خیلوی صاحب کی بیخودی آپے سے باہر ہو جایا کرتی ہے اور پھر اچانک انہیں کمپرینگ اور ناچنے کا شوق چڑھ جاتا ہے جو میں نے دیکھا ہے وہ کچھ اس طرح ہے کہ موصوف بیٹھے بیٹھے خوب ناچ لیتے ہیں آٹھ کر ناچیں تو ناچتے کم اور لڑھکتے زیادہ ہیں اس دن بھی انہوں نے ایسا ہی کیا اچانک مائیک پکڑ کے کمپرینگ شروع کردی اتفاق سے اس وقت سٹیج پر البیلا صاحب کو بلایا جانا تھا عطاء اللہ عیسٰی خیلوی صاحب نے ادھر ادھر کے قلابے ملا کے البیلا صاحب کو سٹیج پر بلایا البیلا صاحب مسکراتے ہوئے سٹیج پر آے مائیک کے لیے ہاتھ بڑھایا تو عطاء صاحب کی بیخودی قابو سے باہر ہوگئ اور انہوں نے البیلا کا ہاتھ پکڑ کے ان پر پھیکی پھیکی جگتیں لگانی شروع کر دیں البیلا مسکراتے ہوئے سنتے رہے اب عطاء صاحب نے اس دوران مائیک البیلا کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے
بیک سٹیج کی طرف بھاگنے کی کوشش کی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اب البیلا کی باری ہے اور میری خیر نہیں
مگر البیلا نے بھاگتے ہوئے عطاء کو چادر سے پکڑ لیا اور
پھر چادر کو ہوا میں لہراتے ہوئے ہال میں موجود لوگوں سے مخاطب ہوتے کہا مجھے لگتا ہے آج عطاء صاحب جلدی میں
ہماری بھابھی کی بجائے کسی اور کی چادر پہن کے اگئے ہیں کیونکہ اس میں سے سرسوں کے تیل کی بو ارہی ہے عطاء صاحب ابھی اسی جگت کے صدمے میں تھے کہ البیلا نے
دوسری جگت لگاتے ہوئے کہا سامیعن عطاء صاحب اور ہم ایک ہی ہیں اے ہے ساڈا جی پر عیسٰی خیل ولوں…………………………..
عطاء صاحب نے جیب سے پانچ سو کا نوٹ نکالا البیلا صاحب کو نذر پیش کرتے ہوئے ہاتھ باندھ کے کھڑے ہو گئے
البیلا نے عطاء صاحب کو سینے سے لگایا ماتھا چوما اور لوگوں سے کہا عطاء صاحب میرے چھوٹے بھائی ہیں اور ہمارے درمیان بہت محبت کا رشتہ ہے اور پھر عطاء صاحب سے کہا. ھن تسی جاو مینوں لوکاں نوں ھسا لینڑں دیو میرے بعد فیر تسی رلانڑں لی وی انڑاں اے.
البیلا مرحوم سے بہت ملاقاتیں رہیں بہت میٹھے اور محبت سے بھرے ہوئے آدمی تھے کامیڈی میں ان کا اپنا انداز تھا.فلم سٹیج پر انہوں نے ایک عرصے تک خود کو نمایاں پوزیشن پر رکھا فلمی دنیا میں انہوں نے منور ظریف ننھا رنگیلا جیسے بڑے کامیڈین کے دور میں اپنے وجود کا احساس دلایا اور مقام بنایا سٹیج کی دنیا میں انہوں نے عوامی رنگ کو متعارف کرایا گاتے بہت اچھا تھے سو ہر ڈرامے میں ان کے گانے کا بھی انتظار رہتا تھا کامیڈی سے ہٹ کے بھی انہوں نے اپنا آپ منوایا پاکستان ٹیلی ویژن کیلئے انہوں نے ایک پلے… چاچا پتلی…….. کا کردار ادا کیا تھا۔یہ پلے پتلی تماشہ دکھانے والوں پر بنایا گیا تھا البیلا نے نے اس میں اپنے فن کی انتہاؤں کو چھوا انہوں نے اس کردار کی ادائیگی کے دوران ہنسایا بھی بہت اور رلایا بھی بہت۔ آج حاجی البیلا مرحوم کی برسی ہے دعاے مغفرت کی اپیل ہے۔