Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
جنید صفدر حمزہ شہباز اور عظمی گیلانی اپنی کسی نجی تقریب میں نغمہ سرائی کرتے ہیں، تھوڑی موسیقی ہو جاتی یے تو اس سے ان کے مقام مرتبے میں کوئی کمی نہیں بلکہ عوامی سطح پر ان کی مذید اہمیت بڑھ جاتی ہے اور یہ پیغام جاتا ہے کہ یہ لوگ بھی عام لوگوں کی طرح کے ہیں اور اپنے دکھ سکھ میں بلکل عام لوگوں کی طرح اظہار کرتے ہیں جند صفدر نے اپنی شادی پر گیت گائے تو حکومتی حلقوں کی طرف سے ان پر طرح طرح کی جگت بازی کی گئ حمزہ شہباز نے گانا گایا تو انہیں بھی طنز کے تیروں سے چھلنی کیا جاتا رہا اب عظمی بیگ نے نجی تقریب میں ڈھولک بجا کے گانے گائے ہیں تو ان پر بھی طنز کیا جا رہا ہے سوال یہ ہے کہ اگر اپنی خوشی پر کوئی شخص ناچتا گاتا ہے تو یہ فعل حرام کیسے ہوگیا…….. ؟
ابھی گزشتہ روز لاہور کے ایک تھانے میں پولیس افسر کی سالگرہ کے موقع پر پر ان کے ساتھیوں نے تھوڑا ناچ گا لیا تو سوشل میڈیا پر ہنگامہ کھڑا کر دیا گیا جس پولیس کے اعلیٰ افسران نے پورا تھانہ ہی معطل کر دیا سوال یہ ہے کہ انہوں نے اگر چند لمحوں کیلئے مل جل کے خوشی منائی ہے تو اس میں کیا جرم کیا انہوں نے……… ؟ حکومتی ترجمانوں اور مداحوں سے کوئی پوچھے۔
یہ بھی دیکھئے:
خود عمران خان کے شوکت ہسپتال کیلئے جو فنڈ ریزینگ ہوئی اس میں مختلف گلوکاروں کی آواز بھی بیچی گئی نصرت فتح علی خان نے سب سے زیادہ ان کا ساتھ دیا۔ اندرون وبیرون ملک مفت شو کئیے اور کروڑوں روپے اکٹھے کر کے دئیے تو پھر سوال یہ ہے کہ ان کے فن کو استعمال کر کے جو پیسے اکٹھے کئیے گئے وہ حلال کیسے ہو گیے…….؟
موسیقی روح کی غذا نہ سہی۔ مگر جسم کی ضرورت بہرحال ہے دکھ میں آنسوؤں کا نکل آنا اور خوشی میں ہاتھوں کا مچل جانا ایک فطری عمل ہے۔ دنیا کے اکثر مذاہب میں موسیقی زریعہ عبادت بھی ہے ہم مسلمانوں میں موسیقی زریعہ عبادت تو نہیں ہے مگر زریعہ. ریاضت.. تو بہرحال ہے بڑے بڑے صوفیا نے قوالی کے زریعے اپنے نفس کی سختی اور بے لگامی کو لگام ڈالی۔ برصغیر میں صوفیا نے قوالی کے زریعے بھی اسلام کی خدمت کی ہمارے اکثر علماء اپنے خطبات میں سر اور لے کا ایسا استعمال کرتے ہیں کہ اچھا بھلا گائیک متاثر ہو جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
چھ مارچ: رستم زماں بھولو پہلوان کا یوم وفات
بھارت کی پانچ ریاستوں میں انتخابات: مودی کے لیے چیلنج کیا ہے؟
عطا الرحمن واقعی رحمان کی عطا تھے
ہمارے ایک دوست موسیقار ایک مخصوص مسجد میں نماز جمعہ پڑھا کرتے تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا اس مسجد کے خطیب سر کو بہت سمجھتے ہیں۔ میں انہیں سنتے ہوئے محظوظ ہونے کے ساتھ ساتھ سیکھنے کی بھی کوشش کرتا ہوں۔ کیونکہ ان کے سر لے اور الفاظ کی ادائیگی میں بہت کشش ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ سر اور لے کے بغیر رونق بھی نہیں لگتی ہمارے اکثر نعت خواں فلمی گیتوں پر نعتیہ اشعار پڑھتے ہیں اور بعض تو ایسے پڑھتے ہیں کہ نور جہاں اور لتا کے گائے گیت بھی دل سے اتر جاتے ہیں۔
حافظ آباد کے ایک مرحوم مشہور خطیب کے ساتھ میری دوستی بن گئی تو انہوں نےباقاعدہ ہارمونیم بجا کے مجھے بہت سے مشکل راگ سنائے۔ میں نے کہا آپ نے گلوکاری کیوں نہیں کی۔ کہنے لگے خطابت خاندانی کام تھا۔ کھل کے گانا مشکل تھا۔ سو میں نے تقریروں میں گائیکی کو شامل کر دیا۔ میری تقریروں کا رنگ جدا ہوگیا۔ دیکھا جائے تو مولانا کی بات درست بھی تھی۔ اچھی آواز دلوں پر بہرحال اثر کرتی ہے۔ ماحول کو آسودہ بھی کرتی ہے۔
بڑے بڑے بادشاہ نواب اور سردار کسی زمانے میں گلوکاروں کو بہت احترام دیتے تھے۔ ان بڑے بڑے القابات اور انعامات سے نوازا جاتا۔ تان سین اکبر کے دربار میں پنج پیاروں میں شامل تھے۔ اسے اکبر کے دربار میں وہی مقام و مرتبہ حاصل تھا جو اس کے دوسرے منصب داروں کو حاصل تھا۔ پٹیالہ گھرانے کے بزرگوں کو بھی جرنیل خان اور کرنیل خان کے خطابات بھی ہمارے سامنے موجود ہیں۔ مذید دیکھیں تو برصغیر میں جب تک موسیقی کو اہمیت دی گئی ہمارے ہاں ایک پرسکون معاشرہ تھا۔ رومانی فلموں گیتوں اور موسیقی نے لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑے رکھا۔
لوگوں کے درمیان فاصلے بہت کم تھے ۔مگر جب سے ہم نے موسیقی پر ہر طرح کے.. حملے.. شروع کئے ہیں ہمارا معاشرہ بھی کئی طرح کے.. حملوں…کی ذد میں ہے۔ یہ بات بری طرح پھیلا دی گئ ہے کہ موسیقی کی وجہ سے معاشرہ بگڑ رہا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ موسیقی سے وابستہ لوگ کبھی ایسے جرائم میں ملوث نہیں رہے۔ جس کو دیکھتے ہوئے کہا جائے یہ واقعی کوئی گھناونا کام اور اس سے وابستہ لوگ بدکردار ہیں۔
حقیقت یہ ہے موسیقی سے وابستہ لوگ معاشرے کو تقسیم نہیں بلکہ اکٹھا کرتے ہیں. سو ہمیں ہر ایک بات پہ زبان درازی سے گریز کرنا چاہیے. کم از کم لوگوں کو خوشی کے موقع پر گانے اور تھوڑی دیر کیلئے ناچنے پر طنز نہیں کرنا چاہیے. موسیقی کے زریعے لوگوں کو جوڑنے جا کام لینا چاہیے آپ بڑے سے بڑے سیاستدان کا کہیں جلسہ رکھ لیں. لوگوں کو اکٹھا کرنے کیلئے کروڑوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں. مگر آپ کسی بھی شہر میں کسی گلوکار کا شو رکھ لیں. ایک دن کے نوٹس پر پندرہ بیس ھزار کا مجمع چٹکیوں میں لگ جائے گا۔ لوگ پوری رات پورے جوش خروش کے ساتھ جھومتے ہوئے نوٹ نچھاور کرتے نظر آئیں گے۔ کہنا یہ چاہتا ہوں کہ معاشرے کو موسیقی کی وجہ سے اتنا نقصان نہیں ہوتا جتنا نقصان ہمارے روزانہ کی دیگر سرگرمیوں سے ہو رہا ہے۔
جنید صفدر حمزہ شہباز اور عظمی گیلانی اپنی کسی نجی تقریب میں نغمہ سرائی کرتے ہیں، تھوڑی موسیقی ہو جاتی یے تو اس سے ان کے مقام مرتبے میں کوئی کمی نہیں بلکہ عوامی سطح پر ان کی مذید اہمیت بڑھ جاتی ہے اور یہ پیغام جاتا ہے کہ یہ لوگ بھی عام لوگوں کی طرح کے ہیں اور اپنے دکھ سکھ میں بلکل عام لوگوں کی طرح اظہار کرتے ہیں جند صفدر نے اپنی شادی پر گیت گائے تو حکومتی حلقوں کی طرف سے ان پر طرح طرح کی جگت بازی کی گئ حمزہ شہباز نے گانا گایا تو انہیں بھی طنز کے تیروں سے چھلنی کیا جاتا رہا اب عظمی بیگ نے نجی تقریب میں ڈھولک بجا کے گانے گائے ہیں تو ان پر بھی طنز کیا جا رہا ہے سوال یہ ہے کہ اگر اپنی خوشی پر کوئی شخص ناچتا گاتا ہے تو یہ فعل حرام کیسے ہوگیا…….. ؟
ابھی گزشتہ روز لاہور کے ایک تھانے میں پولیس افسر کی سالگرہ کے موقع پر پر ان کے ساتھیوں نے تھوڑا ناچ گا لیا تو سوشل میڈیا پر ہنگامہ کھڑا کر دیا گیا جس پولیس کے اعلیٰ افسران نے پورا تھانہ ہی معطل کر دیا سوال یہ ہے کہ انہوں نے اگر چند لمحوں کیلئے مل جل کے خوشی منائی ہے تو اس میں کیا جرم کیا انہوں نے……… ؟ حکومتی ترجمانوں اور مداحوں سے کوئی پوچھے۔
یہ بھی دیکھئے:
خود عمران خان کے شوکت ہسپتال کیلئے جو فنڈ ریزینگ ہوئی اس میں مختلف گلوکاروں کی آواز بھی بیچی گئی نصرت فتح علی خان نے سب سے زیادہ ان کا ساتھ دیا۔ اندرون وبیرون ملک مفت شو کئیے اور کروڑوں روپے اکٹھے کر کے دئیے تو پھر سوال یہ ہے کہ ان کے فن کو استعمال کر کے جو پیسے اکٹھے کئیے گئے وہ حلال کیسے ہو گیے…….؟
موسیقی روح کی غذا نہ سہی۔ مگر جسم کی ضرورت بہرحال ہے دکھ میں آنسوؤں کا نکل آنا اور خوشی میں ہاتھوں کا مچل جانا ایک فطری عمل ہے۔ دنیا کے اکثر مذاہب میں موسیقی زریعہ عبادت بھی ہے ہم مسلمانوں میں موسیقی زریعہ عبادت تو نہیں ہے مگر زریعہ. ریاضت.. تو بہرحال ہے بڑے بڑے صوفیا نے قوالی کے زریعے اپنے نفس کی سختی اور بے لگامی کو لگام ڈالی۔ برصغیر میں صوفیا نے قوالی کے زریعے بھی اسلام کی خدمت کی ہمارے اکثر علماء اپنے خطبات میں سر اور لے کا ایسا استعمال کرتے ہیں کہ اچھا بھلا گائیک متاثر ہو جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
چھ مارچ: رستم زماں بھولو پہلوان کا یوم وفات
بھارت کی پانچ ریاستوں میں انتخابات: مودی کے لیے چیلنج کیا ہے؟
عطا الرحمن واقعی رحمان کی عطا تھے
ہمارے ایک دوست موسیقار ایک مخصوص مسجد میں نماز جمعہ پڑھا کرتے تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا اس مسجد کے خطیب سر کو بہت سمجھتے ہیں۔ میں انہیں سنتے ہوئے محظوظ ہونے کے ساتھ ساتھ سیکھنے کی بھی کوشش کرتا ہوں۔ کیونکہ ان کے سر لے اور الفاظ کی ادائیگی میں بہت کشش ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ سر اور لے کے بغیر رونق بھی نہیں لگتی ہمارے اکثر نعت خواں فلمی گیتوں پر نعتیہ اشعار پڑھتے ہیں اور بعض تو ایسے پڑھتے ہیں کہ نور جہاں اور لتا کے گائے گیت بھی دل سے اتر جاتے ہیں۔
حافظ آباد کے ایک مرحوم مشہور خطیب کے ساتھ میری دوستی بن گئی تو انہوں نےباقاعدہ ہارمونیم بجا کے مجھے بہت سے مشکل راگ سنائے۔ میں نے کہا آپ نے گلوکاری کیوں نہیں کی۔ کہنے لگے خطابت خاندانی کام تھا۔ کھل کے گانا مشکل تھا۔ سو میں نے تقریروں میں گائیکی کو شامل کر دیا۔ میری تقریروں کا رنگ جدا ہوگیا۔ دیکھا جائے تو مولانا کی بات درست بھی تھی۔ اچھی آواز دلوں پر بہرحال اثر کرتی ہے۔ ماحول کو آسودہ بھی کرتی ہے۔
بڑے بڑے بادشاہ نواب اور سردار کسی زمانے میں گلوکاروں کو بہت احترام دیتے تھے۔ ان بڑے بڑے القابات اور انعامات سے نوازا جاتا۔ تان سین اکبر کے دربار میں پنج پیاروں میں شامل تھے۔ اسے اکبر کے دربار میں وہی مقام و مرتبہ حاصل تھا جو اس کے دوسرے منصب داروں کو حاصل تھا۔ پٹیالہ گھرانے کے بزرگوں کو بھی جرنیل خان اور کرنیل خان کے خطابات بھی ہمارے سامنے موجود ہیں۔ مذید دیکھیں تو برصغیر میں جب تک موسیقی کو اہمیت دی گئی ہمارے ہاں ایک پرسکون معاشرہ تھا۔ رومانی فلموں گیتوں اور موسیقی نے لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑے رکھا۔
لوگوں کے درمیان فاصلے بہت کم تھے ۔مگر جب سے ہم نے موسیقی پر ہر طرح کے.. حملے.. شروع کئے ہیں ہمارا معاشرہ بھی کئی طرح کے.. حملوں…کی ذد میں ہے۔ یہ بات بری طرح پھیلا دی گئ ہے کہ موسیقی کی وجہ سے معاشرہ بگڑ رہا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ موسیقی سے وابستہ لوگ کبھی ایسے جرائم میں ملوث نہیں رہے۔ جس کو دیکھتے ہوئے کہا جائے یہ واقعی کوئی گھناونا کام اور اس سے وابستہ لوگ بدکردار ہیں۔
حقیقت یہ ہے موسیقی سے وابستہ لوگ معاشرے کو تقسیم نہیں بلکہ اکٹھا کرتے ہیں. سو ہمیں ہر ایک بات پہ زبان درازی سے گریز کرنا چاہیے. کم از کم لوگوں کو خوشی کے موقع پر گانے اور تھوڑی دیر کیلئے ناچنے پر طنز نہیں کرنا چاہیے. موسیقی کے زریعے لوگوں کو جوڑنے جا کام لینا چاہیے آپ بڑے سے بڑے سیاستدان کا کہیں جلسہ رکھ لیں. لوگوں کو اکٹھا کرنے کیلئے کروڑوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں. مگر آپ کسی بھی شہر میں کسی گلوکار کا شو رکھ لیں. ایک دن کے نوٹس پر پندرہ بیس ھزار کا مجمع چٹکیوں میں لگ جائے گا۔ لوگ پوری رات پورے جوش خروش کے ساتھ جھومتے ہوئے نوٹ نچھاور کرتے نظر آئیں گے۔ کہنا یہ چاہتا ہوں کہ معاشرے کو موسیقی کی وجہ سے اتنا نقصان نہیں ہوتا جتنا نقصان ہمارے روزانہ کی دیگر سرگرمیوں سے ہو رہا ہے۔
جنید صفدر حمزہ شہباز اور عظمی گیلانی اپنی کسی نجی تقریب میں نغمہ سرائی کرتے ہیں، تھوڑی موسیقی ہو جاتی یے تو اس سے ان کے مقام مرتبے میں کوئی کمی نہیں بلکہ عوامی سطح پر ان کی مذید اہمیت بڑھ جاتی ہے اور یہ پیغام جاتا ہے کہ یہ لوگ بھی عام لوگوں کی طرح کے ہیں اور اپنے دکھ سکھ میں بلکل عام لوگوں کی طرح اظہار کرتے ہیں جند صفدر نے اپنی شادی پر گیت گائے تو حکومتی حلقوں کی طرف سے ان پر طرح طرح کی جگت بازی کی گئ حمزہ شہباز نے گانا گایا تو انہیں بھی طنز کے تیروں سے چھلنی کیا جاتا رہا اب عظمی بیگ نے نجی تقریب میں ڈھولک بجا کے گانے گائے ہیں تو ان پر بھی طنز کیا جا رہا ہے سوال یہ ہے کہ اگر اپنی خوشی پر کوئی شخص ناچتا گاتا ہے تو یہ فعل حرام کیسے ہوگیا…….. ؟
ابھی گزشتہ روز لاہور کے ایک تھانے میں پولیس افسر کی سالگرہ کے موقع پر پر ان کے ساتھیوں نے تھوڑا ناچ گا لیا تو سوشل میڈیا پر ہنگامہ کھڑا کر دیا گیا جس پولیس کے اعلیٰ افسران نے پورا تھانہ ہی معطل کر دیا سوال یہ ہے کہ انہوں نے اگر چند لمحوں کیلئے مل جل کے خوشی منائی ہے تو اس میں کیا جرم کیا انہوں نے……… ؟ حکومتی ترجمانوں اور مداحوں سے کوئی پوچھے۔
یہ بھی دیکھئے:
خود عمران خان کے شوکت ہسپتال کیلئے جو فنڈ ریزینگ ہوئی اس میں مختلف گلوکاروں کی آواز بھی بیچی گئی نصرت فتح علی خان نے سب سے زیادہ ان کا ساتھ دیا۔ اندرون وبیرون ملک مفت شو کئیے اور کروڑوں روپے اکٹھے کر کے دئیے تو پھر سوال یہ ہے کہ ان کے فن کو استعمال کر کے جو پیسے اکٹھے کئیے گئے وہ حلال کیسے ہو گیے…….؟
موسیقی روح کی غذا نہ سہی۔ مگر جسم کی ضرورت بہرحال ہے دکھ میں آنسوؤں کا نکل آنا اور خوشی میں ہاتھوں کا مچل جانا ایک فطری عمل ہے۔ دنیا کے اکثر مذاہب میں موسیقی زریعہ عبادت بھی ہے ہم مسلمانوں میں موسیقی زریعہ عبادت تو نہیں ہے مگر زریعہ. ریاضت.. تو بہرحال ہے بڑے بڑے صوفیا نے قوالی کے زریعے اپنے نفس کی سختی اور بے لگامی کو لگام ڈالی۔ برصغیر میں صوفیا نے قوالی کے زریعے بھی اسلام کی خدمت کی ہمارے اکثر علماء اپنے خطبات میں سر اور لے کا ایسا استعمال کرتے ہیں کہ اچھا بھلا گائیک متاثر ہو جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
چھ مارچ: رستم زماں بھولو پہلوان کا یوم وفات
بھارت کی پانچ ریاستوں میں انتخابات: مودی کے لیے چیلنج کیا ہے؟
عطا الرحمن واقعی رحمان کی عطا تھے
ہمارے ایک دوست موسیقار ایک مخصوص مسجد میں نماز جمعہ پڑھا کرتے تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا اس مسجد کے خطیب سر کو بہت سمجھتے ہیں۔ میں انہیں سنتے ہوئے محظوظ ہونے کے ساتھ ساتھ سیکھنے کی بھی کوشش کرتا ہوں۔ کیونکہ ان کے سر لے اور الفاظ کی ادائیگی میں بہت کشش ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ سر اور لے کے بغیر رونق بھی نہیں لگتی ہمارے اکثر نعت خواں فلمی گیتوں پر نعتیہ اشعار پڑھتے ہیں اور بعض تو ایسے پڑھتے ہیں کہ نور جہاں اور لتا کے گائے گیت بھی دل سے اتر جاتے ہیں۔
حافظ آباد کے ایک مرحوم مشہور خطیب کے ساتھ میری دوستی بن گئی تو انہوں نےباقاعدہ ہارمونیم بجا کے مجھے بہت سے مشکل راگ سنائے۔ میں نے کہا آپ نے گلوکاری کیوں نہیں کی۔ کہنے لگے خطابت خاندانی کام تھا۔ کھل کے گانا مشکل تھا۔ سو میں نے تقریروں میں گائیکی کو شامل کر دیا۔ میری تقریروں کا رنگ جدا ہوگیا۔ دیکھا جائے تو مولانا کی بات درست بھی تھی۔ اچھی آواز دلوں پر بہرحال اثر کرتی ہے۔ ماحول کو آسودہ بھی کرتی ہے۔
بڑے بڑے بادشاہ نواب اور سردار کسی زمانے میں گلوکاروں کو بہت احترام دیتے تھے۔ ان بڑے بڑے القابات اور انعامات سے نوازا جاتا۔ تان سین اکبر کے دربار میں پنج پیاروں میں شامل تھے۔ اسے اکبر کے دربار میں وہی مقام و مرتبہ حاصل تھا جو اس کے دوسرے منصب داروں کو حاصل تھا۔ پٹیالہ گھرانے کے بزرگوں کو بھی جرنیل خان اور کرنیل خان کے خطابات بھی ہمارے سامنے موجود ہیں۔ مذید دیکھیں تو برصغیر میں جب تک موسیقی کو اہمیت دی گئی ہمارے ہاں ایک پرسکون معاشرہ تھا۔ رومانی فلموں گیتوں اور موسیقی نے لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑے رکھا۔
لوگوں کے درمیان فاصلے بہت کم تھے ۔مگر جب سے ہم نے موسیقی پر ہر طرح کے.. حملے.. شروع کئے ہیں ہمارا معاشرہ بھی کئی طرح کے.. حملوں…کی ذد میں ہے۔ یہ بات بری طرح پھیلا دی گئ ہے کہ موسیقی کی وجہ سے معاشرہ بگڑ رہا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ موسیقی سے وابستہ لوگ کبھی ایسے جرائم میں ملوث نہیں رہے۔ جس کو دیکھتے ہوئے کہا جائے یہ واقعی کوئی گھناونا کام اور اس سے وابستہ لوگ بدکردار ہیں۔
حقیقت یہ ہے موسیقی سے وابستہ لوگ معاشرے کو تقسیم نہیں بلکہ اکٹھا کرتے ہیں. سو ہمیں ہر ایک بات پہ زبان درازی سے گریز کرنا چاہیے. کم از کم لوگوں کو خوشی کے موقع پر گانے اور تھوڑی دیر کیلئے ناچنے پر طنز نہیں کرنا چاہیے. موسیقی کے زریعے لوگوں کو جوڑنے جا کام لینا چاہیے آپ بڑے سے بڑے سیاستدان کا کہیں جلسہ رکھ لیں. لوگوں کو اکٹھا کرنے کیلئے کروڑوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں. مگر آپ کسی بھی شہر میں کسی گلوکار کا شو رکھ لیں. ایک دن کے نوٹس پر پندرہ بیس ھزار کا مجمع چٹکیوں میں لگ جائے گا۔ لوگ پوری رات پورے جوش خروش کے ساتھ جھومتے ہوئے نوٹ نچھاور کرتے نظر آئیں گے۔ کہنا یہ چاہتا ہوں کہ معاشرے کو موسیقی کی وجہ سے اتنا نقصان نہیں ہوتا جتنا نقصان ہمارے روزانہ کی دیگر سرگرمیوں سے ہو رہا ہے۔
جنید صفدر حمزہ شہباز اور عظمی گیلانی اپنی کسی نجی تقریب میں نغمہ سرائی کرتے ہیں، تھوڑی موسیقی ہو جاتی یے تو اس سے ان کے مقام مرتبے میں کوئی کمی نہیں بلکہ عوامی سطح پر ان کی مذید اہمیت بڑھ جاتی ہے اور یہ پیغام جاتا ہے کہ یہ لوگ بھی عام لوگوں کی طرح کے ہیں اور اپنے دکھ سکھ میں بلکل عام لوگوں کی طرح اظہار کرتے ہیں جند صفدر نے اپنی شادی پر گیت گائے تو حکومتی حلقوں کی طرف سے ان پر طرح طرح کی جگت بازی کی گئ حمزہ شہباز نے گانا گایا تو انہیں بھی طنز کے تیروں سے چھلنی کیا جاتا رہا اب عظمی بیگ نے نجی تقریب میں ڈھولک بجا کے گانے گائے ہیں تو ان پر بھی طنز کیا جا رہا ہے سوال یہ ہے کہ اگر اپنی خوشی پر کوئی شخص ناچتا گاتا ہے تو یہ فعل حرام کیسے ہوگیا…….. ؟
ابھی گزشتہ روز لاہور کے ایک تھانے میں پولیس افسر کی سالگرہ کے موقع پر پر ان کے ساتھیوں نے تھوڑا ناچ گا لیا تو سوشل میڈیا پر ہنگامہ کھڑا کر دیا گیا جس پولیس کے اعلیٰ افسران نے پورا تھانہ ہی معطل کر دیا سوال یہ ہے کہ انہوں نے اگر چند لمحوں کیلئے مل جل کے خوشی منائی ہے تو اس میں کیا جرم کیا انہوں نے……… ؟ حکومتی ترجمانوں اور مداحوں سے کوئی پوچھے۔
یہ بھی دیکھئے:
خود عمران خان کے شوکت ہسپتال کیلئے جو فنڈ ریزینگ ہوئی اس میں مختلف گلوکاروں کی آواز بھی بیچی گئی نصرت فتح علی خان نے سب سے زیادہ ان کا ساتھ دیا۔ اندرون وبیرون ملک مفت شو کئیے اور کروڑوں روپے اکٹھے کر کے دئیے تو پھر سوال یہ ہے کہ ان کے فن کو استعمال کر کے جو پیسے اکٹھے کئیے گئے وہ حلال کیسے ہو گیے…….؟
موسیقی روح کی غذا نہ سہی۔ مگر جسم کی ضرورت بہرحال ہے دکھ میں آنسوؤں کا نکل آنا اور خوشی میں ہاتھوں کا مچل جانا ایک فطری عمل ہے۔ دنیا کے اکثر مذاہب میں موسیقی زریعہ عبادت بھی ہے ہم مسلمانوں میں موسیقی زریعہ عبادت تو نہیں ہے مگر زریعہ. ریاضت.. تو بہرحال ہے بڑے بڑے صوفیا نے قوالی کے زریعے اپنے نفس کی سختی اور بے لگامی کو لگام ڈالی۔ برصغیر میں صوفیا نے قوالی کے زریعے بھی اسلام کی خدمت کی ہمارے اکثر علماء اپنے خطبات میں سر اور لے کا ایسا استعمال کرتے ہیں کہ اچھا بھلا گائیک متاثر ہو جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
چھ مارچ: رستم زماں بھولو پہلوان کا یوم وفات
بھارت کی پانچ ریاستوں میں انتخابات: مودی کے لیے چیلنج کیا ہے؟
عطا الرحمن واقعی رحمان کی عطا تھے
ہمارے ایک دوست موسیقار ایک مخصوص مسجد میں نماز جمعہ پڑھا کرتے تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا اس مسجد کے خطیب سر کو بہت سمجھتے ہیں۔ میں انہیں سنتے ہوئے محظوظ ہونے کے ساتھ ساتھ سیکھنے کی بھی کوشش کرتا ہوں۔ کیونکہ ان کے سر لے اور الفاظ کی ادائیگی میں بہت کشش ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ سر اور لے کے بغیر رونق بھی نہیں لگتی ہمارے اکثر نعت خواں فلمی گیتوں پر نعتیہ اشعار پڑھتے ہیں اور بعض تو ایسے پڑھتے ہیں کہ نور جہاں اور لتا کے گائے گیت بھی دل سے اتر جاتے ہیں۔
حافظ آباد کے ایک مرحوم مشہور خطیب کے ساتھ میری دوستی بن گئی تو انہوں نےباقاعدہ ہارمونیم بجا کے مجھے بہت سے مشکل راگ سنائے۔ میں نے کہا آپ نے گلوکاری کیوں نہیں کی۔ کہنے لگے خطابت خاندانی کام تھا۔ کھل کے گانا مشکل تھا۔ سو میں نے تقریروں میں گائیکی کو شامل کر دیا۔ میری تقریروں کا رنگ جدا ہوگیا۔ دیکھا جائے تو مولانا کی بات درست بھی تھی۔ اچھی آواز دلوں پر بہرحال اثر کرتی ہے۔ ماحول کو آسودہ بھی کرتی ہے۔
بڑے بڑے بادشاہ نواب اور سردار کسی زمانے میں گلوکاروں کو بہت احترام دیتے تھے۔ ان بڑے بڑے القابات اور انعامات سے نوازا جاتا۔ تان سین اکبر کے دربار میں پنج پیاروں میں شامل تھے۔ اسے اکبر کے دربار میں وہی مقام و مرتبہ حاصل تھا جو اس کے دوسرے منصب داروں کو حاصل تھا۔ پٹیالہ گھرانے کے بزرگوں کو بھی جرنیل خان اور کرنیل خان کے خطابات بھی ہمارے سامنے موجود ہیں۔ مذید دیکھیں تو برصغیر میں جب تک موسیقی کو اہمیت دی گئی ہمارے ہاں ایک پرسکون معاشرہ تھا۔ رومانی فلموں گیتوں اور موسیقی نے لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑے رکھا۔
لوگوں کے درمیان فاصلے بہت کم تھے ۔مگر جب سے ہم نے موسیقی پر ہر طرح کے.. حملے.. شروع کئے ہیں ہمارا معاشرہ بھی کئی طرح کے.. حملوں…کی ذد میں ہے۔ یہ بات بری طرح پھیلا دی گئ ہے کہ موسیقی کی وجہ سے معاشرہ بگڑ رہا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ موسیقی سے وابستہ لوگ کبھی ایسے جرائم میں ملوث نہیں رہے۔ جس کو دیکھتے ہوئے کہا جائے یہ واقعی کوئی گھناونا کام اور اس سے وابستہ لوگ بدکردار ہیں۔
حقیقت یہ ہے موسیقی سے وابستہ لوگ معاشرے کو تقسیم نہیں بلکہ اکٹھا کرتے ہیں. سو ہمیں ہر ایک بات پہ زبان درازی سے گریز کرنا چاہیے. کم از کم لوگوں کو خوشی کے موقع پر گانے اور تھوڑی دیر کیلئے ناچنے پر طنز نہیں کرنا چاہیے. موسیقی کے زریعے لوگوں کو جوڑنے جا کام لینا چاہیے آپ بڑے سے بڑے سیاستدان کا کہیں جلسہ رکھ لیں. لوگوں کو اکٹھا کرنے کیلئے کروڑوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں. مگر آپ کسی بھی شہر میں کسی گلوکار کا شو رکھ لیں. ایک دن کے نوٹس پر پندرہ بیس ھزار کا مجمع چٹکیوں میں لگ جائے گا۔ لوگ پوری رات پورے جوش خروش کے ساتھ جھومتے ہوئے نوٹ نچھاور کرتے نظر آئیں گے۔ کہنا یہ چاہتا ہوں کہ معاشرے کو موسیقی کی وجہ سے اتنا نقصان نہیں ہوتا جتنا نقصان ہمارے روزانہ کی دیگر سرگرمیوں سے ہو رہا ہے۔