ADVERTISEMENT
آبادی کے حساب سے سب سے بڑی ریاست یوپی سمیت بھارت کی پانچ ریاستوں میں اس وقت ریاستی انتخابات چل رہے ہیں۔ 18 کروڑ کے قریب ووٹر حق رائے دہی استعمال کر رہے ہیں۔ ان انتخابات کی اہمیت اس لیے بہت زیادہ ہے کیونکہ ان کے نتائج اگلے عام انتخابات کے لیے ہوا کا پتا دیں گے۔ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی بظاہر اس وقت لیڈنگ پوزیشن پر نظر آ رہی ہے۔ پاکستان کی حکمران جماعت تحریک انصاف کی طرح بی جے پی کا مقابلہ بھی ایک منتشر، ٹوٹی پھوٹی اپوزیشن سے ہے جس سے بی جے پی کو تقویت مل رہی ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
https://www.youtube.com/watch?v=A_VLQiQT3DQ&t=136s
اترپردیش کے انتخابی دنگل کو کئی وجہ سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہاں بی جے پی کا چہرہ موجودہ وزیراعلی یوگی ادتیاناتھ ہیں جن کا نام وزارت عظمی کے لیے مودی کے ممکنہ جانشین کے طور پر لیا جاتا ہے۔ زعفرانی لباس اور سخت لب و لہجے کے حامل یوگی ادتیا ناتھ سخت گیر ہندو قوم پرست ہیں جن کی ساری سیاست کا محور مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی شدید ترین مخالفت ہے۔
کچھ عرصہ پہلے تک بھارت کے مسلمان یوپی کی سیاست میں بڑا نمایاں وزن رکھتے تھے۔ مسلمان ریاست کی کل آبادی کا 20 فیصد کے قریب ہیں۔ کانگریس اور دیگر سیاسی جماعتوں نے اس مرتبہ بھی مسلم ووٹر کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی کوشش جاری رکھی ہوئی ہے۔ تاہم بی جے پی کا زیادہ فوکس اس بات پر رہا ہے کہ ہندو ووٹ بینک ایک جگہ اکٹھا کرکے مسلمانوں کی فیصلہ کن قوت کو توڑا جا سکے۔ اس میں بی جے پی اب تک کامیاب چلی آ رہی ہے۔ مسلم ووٹ بینک اسد الدین اویسی کی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین، کانگرس اور سماج وادی پارٹی کے درمیان تقسیم ہے جبکہ اکا دکا مسلم ووٹر بی جے پی کی حمایت بھی کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
انتخابی مہم کے دوران بی جے پی کا پورا زور فرقہ وارانہ سیاست (Communal Politics) کے ذریعے بھارت کے ووٹ بینک کو تقسیم کرنے پر رہا ہے۔ اس ضمن میں قائداعظم محمد علی جناح، پاکستان اور اسلام بی جے پی کا خاص ہدف رہے۔ کانگریس وغیرہ دوسری جماعتوں پر پاکستان کا ایجنڈا آگے بڑھانے کے الزامات عائد کیے گئے اور دیش سے غداری کے الزامات کی بازگشت بھی سنائی دیتی رہی۔ کانگریس اور دیگر اپوزیشن پارٹیاں اس کے جواب میں یہ موقف رکھتی ہیں کہ بی جے پی حکومت وفاق اور ریاست دونوں سطح پر ڈلیور کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے اس لیے اب مخالفین کی وابستگی اور حب الوطنی کو ٹارگٹ کرکے ووٹر کو اپنی جانب کھینچنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
بھارت کی اترپردیش وہ ریاست ہے جو کورونا کی خوفناک لہر کا سب سے بڑا شکار رہی جس نے لاکھوں شہریوں کی جان لے لی۔ اس کے نتیجے میں آنے والا معاشی بحران، بے روزگاری، انفراسٹرکچر کی تباہی چند اضافی مشکلات ہیں جو پولنگ اسٹیشن میں بی جے پی کے لیے چیلنج بن سکتی ہیں۔ تاہم یوگی ادتیاناتھ کی ریاستی حکومت نے گزشتہ ٹرم میں ایک بڑا مسئلہ جو کامیابی سے حل کر لیا ہے وہ شہریوں کے جان و مال کا تحفظ کو درپیش خطرات ہیں۔ یوپی کچھ عرصہ قبل تک اسٹریٹ کرائم کے حوالے سے بہت بدنام تھا۔ یوگی جی کی حکومت نے اس پر خاصی محنت کی اور اب اسٹریٹ کرائم کا تناسب خاصا کم ہوچکا ہے۔ یہ چیز بھارتیہ جنتا پارٹی کے حق میں جاسکتی ہے۔
بہرحال، انتخابی شطرنج کا یہ کھیل اب دلچسپ مرحلے میں ہے۔ علیحدگی پسند اثرات سے متاثرہ ریاست منی پور میں کل یعنی 5 مارچ کو الیکشن ہے جبکہ یوپی میں الیکشن کا آخری مرحلہ 7 مارچ کو منعقد ہوگا۔ 10 مارچ سے نتائج کی آمد متوقع ہے۔ امید کرنی چاہیے کہ انتخابات کا نتیجہ ریاستوں کے عوام، اقلیتوں اور پورے ہندوستان کے حق میں بہتر ثابت ہوگا۔