Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
اقراانجم
ناول میں چونکہ زندگی کی سچائی بیان کی جاتی ہے، اس لیے بنیادی طورپر ناول کا موضوع انسان ہے اور ایک ناول کی اولین ذمہ داری ہے وہ ناول کو مافوق الفطرت اور فرضی کرداروں سے بچا کے رکھے اور سچائی بیان کرے ہمارے ادب میں ایسی ہی ایک مثال ڈپٹی نذیر احمد کی ہے جن کو باقاعدہ طور پر اردو کا پہلا ناول نگار مانا جاتا ہے۔ ناول نگاری کی اولین بنیاد ان کے ہاتھوں سے پروان چڑھی تو غلط نہ ہو گا ان کے ناولوں میں مراۃ العروس , توبۃ النصوح , ابن الوقت بنیادی اہمیت کے حامل ہیں ان کے ناول مراۃ العروس کو پہلا ناول تسلیم کیا جاتا ہے جو کہ 1869 میں شائع ہوا۔
ڈپٹی نذیر احمد کے ناول مقصدی اور اصلاحی نوعیت کے ہیں وہ اپنے ناولوں میں ایک مبلغ کی صورت میں نظر آتے ہیں جو آنے والی آندھی اور طوفان سے ہمیں بچا رہے ہیں ان کے ناولوں میں صرف قاری کی اصلاح ہی بنیادی مقصد ہے اور اہل دنیا کے لیے بہت ہی خوب صورت راہ دکھائی ہے جس پے چل کے دنیا وآخرت کی کنجی مل سکتی ہے ڈپٹی نذیر احمد اپنے ہم عصروں میں زندہ مثال ہیں جنھوں نے الگ ہی موضوع برتا اور صرف قاری کی اصلاح کو مدنظر رکھا ڈپٹی نذیر احمد نے انگریزی ادب کا گہرا مطالعہ کیا اس گہرے مطالعے کی وجہ سے ان کے ہاں ناول میں بہت سی خصوصیات پیدا کر دیں۔
یہ بھی پڑھئے:
ن م راشد، باغی شاعر
منٹو کو فحش کیوں کہا گیا؟
نذیر احمد کے ہاں ہمیں مقصدیت نظر آتی ہے ان کا مقصد اصلاح معاشرہ تھا میرے نزدیک ادیب وہ ہی ہے جو اپنے فن کو مقصد کی بنیاد پر رکھے تاکہ معاشرے میں موجود برائیوں کا ایسا خاتمہ کیا جائے جیسے نذیر احمد نے کیا ناول میں صرف عشق و محبت کی بات ہی تو نہیں ہو دنیا میں ناول صرف عشق کا مینار نہیں ہے بلکہ اسی سوچ اور فکر کا مینار ہے جس مینار کو ڈپٹی نذیر نے کھڑا کیا ۔نذیر احمد کے ہاں وعظ ونصحیت اور نیکی کی تبلیغ کے باوجود عملی زندگی کے مرقعے نظر آتے ہیں ہم بلاشبہ یہ کہہ سکتے ہیں نذیر احمد نے اپنے ناولوں میں “جو ہونا چاہیے ” پر زور دیا ہے “جو ہے ” اس ہر کم توجہ دی ہے عمدہ ناول نگار کی پہچان ہی یہ ہی ہے جو ہونا چاہیے سارا فوکس اسی پے کیا جائے معاشرے میں ہونے والے ظلم وستم اور اچھائی اور برائی کے خلاف آواز اٹھائے اور یہ آواز ایک ادیب ہی اٹھا سکتا ہے ڈپٹی نذیر احمد نے یہ کام عمدہ طریقے سے انجام دیا وہ اپنے ناولوں کا اختتام حقیقی نہیں رومانوی طریقوں سے کرتے ہیں ہمیں یہ مثالیں انگریزی کے بعض ناول نگاروں ” رچرڈسن ” اور ” جاں گالزدردی” کے ہاں بھی ملتی ہیں ویسے بھی اگر حقیقت اور صداقت مجروع نہ ہوتو اخلاق ومقصدیت میں کوئی عیب نہیں رہتا ۔
اسی رومانوی اختتام کی وجہ سے ” جان گالزدردی” نے ناول نگار کو مصلح قرار دیا ہے ۔توبۃ النصوح” کا ذکر کیا جائے تو نذیر احمد ہمیں ایک مصلح کے روپ میں ہی نظر آتے ہیں اپنے ناول میں خوبصورت کرداروں کی وجہ سے دنیااور آخرت کا سبق دے رہے ہیں بچوں کو کیا تربیت دی جائے ان کی ناجائز خواہشات کو پورا نہ کیا جائے اس ناول کا بنیادی مقصد ہے بچوں کو دیناوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کی طرف راغب کرنا اس ناول کا اولین خاصہ ہے نذیر احمد چونکہ سر سید کے رفقاء کار میں شامل تھے سرسید کی سرپرستی میں تحریک علی گڑھ کی جو بنیاد رکھی گئی اس میں نذیر احمد بھی پیش پیش تھے اس تحریک نے مغرب سے بھی اثر لیا لیکن دینی عقائد کو بھی بہت اہمیت دی شبلی نعمانی , مولانا حالی اصلاحی کاموں کی طرف راغب تھے مذہب اور جدید رحجانات پر تعلیمی کتب کا منظر عام پر آنا خوش آئند بات تھی ڈپٹی نذیر احمد کی شخصیت کو اسی تناظر میں دیکھا جائے تو ان کا یہ رنگ ڈھنگ ان کے ناولوں میں نمایاں نظر آتا ہے نذیر احمد کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے ناول کو نئی بنیادیں فراہم کیں ان کی کردار نگاری اس ضمن میں قابل ذکر ہے ڈپٹی نذیر احمد کے کردار آج بھی زندہ ہیں اور یہ کردار ہمیشہ جیتے جاگتے رہیں گے
نصوح کا کردار کتنا لاجواب ہے اسے جب اپنی موت نظر آنے لگتی ہے تو اسے اپنے کیے ہوئے افعال پر شرمندگی ہوتی ہے اگر وہ اگلی دنیامیں جاتا ہے تو اس کے اعمال کیا ہیں ؟؟؟؟
یہ ہمارا المیہ ہے ہم موت کو سامنے پا کر خدا کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہونا شروع ہو جاتے ہیں اپنی وہ غلطیاں جو کبھی یاد بھی نہ ہوں وہ بھی یاد آنے لگتی ہیں پھر ان کو سدھار لیا جاتا ہے یہی کام نصوح نے خواب دیکھنے کے بعد کیا اور اپنے بچوں کی اصلاح کرنا چاہی ہر ماں پاب اپنے بچے کو راہ راست پر لانا چاہتے ہیں” توبتہ النصوح “میں انھوں نے اس واقعے سے ہماری آنکھیں کھولنا چاہی ہیں ۔
کلیم کا کرداراس حوالے سے بڑا جاندار ہے وہ پے در پے واقعات سے بھی نہیں سیکھتا اور اپنی روش پر چلتا رہتا ہے اور وہ کامیاب بھی نہیں ہے۔ ماں باپ کے سمجھانے پر کلیم گھر چھوڑ دینا بہتر سمجھتا ہے یہ مسلہ آج بھی جوں کا توں ہے نذیر احمد نے بڑی گہرائی میں ناول کو پروان چڑھایا
نذیر احمد کے تصورات شاید یہ ہی ہیں کہ جوانی میں لوگ اپنے ہی تصورات پر عمل پیرا ہیں ڈھلتی عمر کے ساتھ ہمیں خسارہ نظر آنا شروع ہو جاتا ہے “توبتہ النصوح ” بچوں بڑوں کی نمائندگی کر رہا ہے توبتہ النصوح کی کہانی کبھی بھی پرانی نہیں ہو سکتی۔ ایک ناول نگار نے کتنے ہی حسین و دلکش الفاظ سے معاشرے کی نمائندگی کی ہے ہر لفظ سچائی پر مبنی ہے توبتہ النصوح کی کہانی مسلم معاشرت کے اس بحران کی کہانی ہے جو انگریزی تہذیب اور صنعتی عہد کی وجہ سے شروع ہوا وہ فن اور ہنر بے کار ہو گئے جو مغلیہ معاشرت میں رائج الوقت تھے نئی تہذیب نے کس طرح ہمیں مذہب سے دور کیا، ڈپٹی نذیر احمد نے اسی رحجان کی طرف نظر دوڑائی اور خوبصورت ناول تخلیق کیے اب ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ مولویوں کی سی سوچ رکھتے ہیں اور تنگ نظر ہیں نہیں نہیں بالکل نہیں وہ دنیاوی اصولوں سے بالکل نظر نہیں چراتے بلکہ بیلنس کرنے کی تلقین کرتے ہیں اسی سے نذیر احمد نے داد پائی ڈپٹی نذیر احمد کی زبان میں رس ہے شہد کی مکھی کی طرح کا رس اور یہ رس حلق کے اندر تک جا کے لطافت بخشتا ہے اور نئے اور مزیدار ذائقے سے روشناس کرواتا ہے نذیر احمد نے آنے والوں کے لیے نئے چراغ روشن کیے اور ادبی دنیا میں ان کا اسلوب زندہ و جاوید رہے گا ……..