• Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں
No Result
View All Result
10 °c
Islamabad
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
No Result
View All Result
آوازہ
No Result
View All Result
Home کتاب اور صاحب کتاب

ادب، مقصدیت اور ڈپٹی نذیر احمد کے ناول

توبتہ النصوح کی کہانی مسلم معاشرت کے اس بحران کی کہانی ہے جو انگریزی تہذیب اور صنعتی عہد کی وجہ سے شروع ہوا

آوازہ ڈیسک by آوازہ ڈیسک
July 9, 2020
in کتاب اور صاحب کتاب
0
ادب، مقصدیت اور ڈپٹی نذیر احمد کے ناول
Share on FacebookShare on TwitterShare on LinkedinShare on Whats app
ADVERTISEMENT
Ad (2024-01-27 16:32:21)

        اقراانجم

ناول میں چونکہ زندگی کی سچائی بیان کی جاتی ہے، اس لیے بنیادی طورپر ناول کا موضوع انسان ہے اور ایک ناول کی اولین ذمہ داری ہے وہ ناول کو مافوق الفطرت اور فرضی کرداروں سے بچا کے رکھے اور سچائی بیان کرے ہمارے ادب میں ایسی ہی ایک مثال ڈپٹی نذیر احمد کی ہے جن کو باقاعدہ طور پر اردو کا پہلا ناول نگار مانا جاتا ہے۔ ناول نگاری کی اولین بنیاد ان کے ہاتھوں سے پروان چڑھی تو غلط نہ ہو گا ان کے ناولوں میں مراۃ العروس , توبۃ النصوح , ابن الوقت بنیادی اہمیت کے حامل ہیں ان کے ناول مراۃ العروس کو پہلا ناول تسلیم کیا جاتا ہے جو کہ 1869 میں شائع ہوا۔

ڈپٹی نذیر احمد کے ناول مقصدی اور اصلاحی نوعیت کے ہیں وہ اپنے ناولوں میں ایک مبلغ کی صورت میں نظر آتے ہیں جو آنے والی آندھی اور طوفان سے ہمیں بچا رہے ہیں ان کے ناولوں میں صرف قاری کی اصلاح ہی بنیادی مقصد ہے اور اہل دنیا کے لیے بہت ہی خوب صورت راہ دکھائی ہے جس پے چل کے دنیا وآخرت کی کنجی مل سکتی ہے ڈپٹی نذیر احمد اپنے ہم عصروں میں زندہ مثال ہیں جنھوں نے الگ ہی موضوع برتا اور صرف قاری کی اصلاح کو مدنظر رکھا ڈپٹی نذیر احمد نے انگریزی ادب کا گہرا مطالعہ کیا اس گہرے مطالعے کی وجہ سے ان کے ہاں ناول میں بہت سی خصوصیات پیدا کر دیں۔

Ad (2024-01-27 16:31:23)

یہ بھی پڑھئے:

ن م راشد، باغی شاعر

منٹو کو فحش کیوں کہا گیا؟

نذیر احمد کے ہاں ہمیں مقصدیت نظر آتی ہے ان کا مقصد اصلاح معاشرہ تھا میرے نزدیک ادیب وہ ہی ہے جو اپنے فن کو مقصد کی بنیاد پر رکھے تاکہ معاشرے میں موجود برائیوں کا ایسا خاتمہ کیا جائے جیسے نذیر احمد نے کیا ناول میں صرف عشق و محبت کی بات ہی تو نہیں ہو دنیا میں ناول صرف عشق کا مینار نہیں ہے بلکہ اسی سوچ اور فکر کا مینار ہے جس مینار کو ڈپٹی نذیر نے کھڑا کیا ۔نذیر احمد کے ہاں وعظ ونصحیت اور نیکی کی تبلیغ کے باوجود عملی زندگی کے مرقعے نظر آتے ہیں ہم بلاشبہ یہ کہہ سکتے ہیں نذیر احمد نے اپنے ناولوں میں “جو ہونا چاہیے ” پر زور دیا ہے “جو ہے ” اس ہر کم توجہ دی ہے عمدہ ناول نگار کی پہچان ہی یہ ہی ہے جو ہونا چاہیے سارا فوکس اسی پے کیا جائے معاشرے میں ہونے والے ظلم وستم اور اچھائی اور برائی کے خلاف آواز اٹھائے اور یہ آواز ایک ادیب ہی اٹھا سکتا ہے ڈپٹی نذیر احمد نے یہ کام عمدہ طریقے سے انجام دیا وہ اپنے ناولوں کا اختتام حقیقی نہیں رومانوی طریقوں سے کرتے ہیں ہمیں یہ مثالیں انگریزی کے بعض ناول نگاروں ” رچرڈسن ” اور ” جاں گالزدردی” کے ہاں بھی ملتی ہیں ویسے بھی اگر حقیقت اور صداقت مجروع نہ ہوتو اخلاق ومقصدیت میں کوئی عیب نہیں رہتا ۔
اسی رومانوی اختتام کی وجہ سے ” جان گالزدردی” نے ناول نگار کو مصلح قرار دیا ہے ۔توبۃ النصوح” کا ذکر کیا جائے تو نذیر احمد ہمیں ایک مصلح کے روپ میں ہی نظر آتے ہیں اپنے ناول میں خوبصورت کرداروں کی وجہ سے دنیااور آخرت کا سبق دے رہے ہیں بچوں کو کیا تربیت دی جائے ان کی ناجائز خواہشات کو پورا نہ کیا جائے اس ناول کا بنیادی مقصد ہے بچوں کو دیناوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کی طرف راغب کرنا اس ناول کا اولین خاصہ ہے نذیر احمد چونکہ سر سید کے رفقاء کار میں شامل تھے سرسید کی سرپرستی میں تحریک علی گڑھ کی جو بنیاد رکھی گئی اس میں نذیر احمد بھی پیش پیش تھے اس تحریک نے مغرب سے بھی اثر لیا لیکن دینی عقائد کو بھی بہت اہمیت دی شبلی نعمانی , مولانا حالی اصلاحی کاموں کی طرف راغب تھے مذہب اور جدید رحجانات پر تعلیمی کتب کا منظر عام پر آنا خوش آئند بات تھی ڈپٹی نذیر احمد کی شخصیت کو اسی تناظر میں دیکھا جائے تو ان کا یہ رنگ ڈھنگ ان کے ناولوں میں نمایاں نظر آتا ہے نذیر احمد کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے ناول کو نئی بنیادیں فراہم کیں ان کی کردار نگاری اس ضمن میں قابل ذکر ہے ڈپٹی نذیر احمد کے کردار آج بھی زندہ ہیں اور یہ کردار ہمیشہ جیتے جاگتے رہیں گے
نصوح کا کردار کتنا لاجواب ہے اسے جب اپنی موت نظر آنے لگتی ہے تو اسے اپنے کیے ہوئے افعال پر شرمندگی ہوتی ہے اگر وہ اگلی دنیامیں جاتا ہے تو اس کے اعمال کیا ہیں ؟؟؟؟
یہ ہمارا المیہ ہے ہم موت کو سامنے پا کر خدا کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہونا شروع ہو جاتے ہیں اپنی وہ غلطیاں جو کبھی یاد بھی نہ ہوں وہ بھی یاد آنے لگتی ہیں پھر ان کو سدھار لیا جاتا ہے یہی کام نصوح نے خواب دیکھنے کے بعد کیا اور اپنے بچوں کی اصلاح کرنا چاہی ہر ماں پاب اپنے بچے کو راہ راست پر لانا چاہتے ہیں” توبتہ النصوح “میں انھوں نے اس واقعے سے ہماری آنکھیں کھولنا چاہی ہیں ۔
کلیم کا کرداراس حوالے سے بڑا جاندار ہے وہ پے در پے واقعات سے بھی نہیں سیکھتا اور اپنی روش پر چلتا رہتا ہے اور وہ کامیاب بھی نہیں ہے۔ ماں باپ کے سمجھانے پر کلیم گھر چھوڑ دینا بہتر سمجھتا ہے یہ مسلہ آج بھی جوں کا توں ہے نذیر احمد نے بڑی گہرائی میں ناول کو پروان چڑھایا
نذیر احمد کے تصورات شاید یہ ہی ہیں کہ جوانی میں لوگ اپنے ہی تصورات پر عمل پیرا ہیں ڈھلتی عمر کے ساتھ ہمیں خسارہ نظر آنا شروع ہو جاتا ہے “توبتہ النصوح ” بچوں بڑوں کی نمائندگی کر رہا ہے توبتہ النصوح کی کہانی کبھی بھی پرانی نہیں ہو سکتی۔ ایک ناول نگار نے کتنے ہی حسین و دلکش الفاظ سے معاشرے کی نمائندگی کی ہے ہر لفظ سچائی پر مبنی ہے توبتہ النصوح کی کہانی مسلم معاشرت کے اس بحران کی کہانی ہے جو انگریزی تہذیب اور صنعتی عہد کی وجہ سے شروع ہوا وہ فن اور ہنر بے کار ہو گئے جو مغلیہ معاشرت میں رائج الوقت تھے نئی تہذیب نے کس طرح ہمیں مذہب سے دور کیا، ڈپٹی نذیر احمد نے اسی رحجان کی طرف نظر دوڑائی اور خوبصورت ناول تخلیق کیے اب ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ مولویوں کی سی سوچ رکھتے ہیں اور تنگ نظر ہیں نہیں نہیں بالکل نہیں وہ دنیاوی اصولوں سے بالکل نظر نہیں چراتے بلکہ بیلنس کرنے کی تلقین کرتے ہیں اسی سے نذیر احمد نے داد پائی ڈپٹی نذیر احمد کی زبان میں رس ہے شہد کی مکھی کی طرح کا رس اور یہ رس حلق کے اندر تک جا کے لطافت بخشتا ہے اور نئے اور مزیدار ذائقے سے روشناس کرواتا ہے نذیر احمد نے آنے والوں کے لیے نئے چراغ روشن کیے اور ادبی دنیا میں ان کا اسلوب زندہ و جاوید رہے گا ……..

Screenshot 2024-02-07 at 2.46.36 AM
Tags: ادبتنقیدڈپٹی نذیر احمدناول
Previous Post

کورونا میں اگر ایدھی صاحب ہوتے

Next Post

آئیڈل کی تلاش

آوازہ ڈیسک

آوازہ ڈیسک

Next Post
آئیڈل کی تلاش

آئیڈل کی تلاش

ہمارا فیس بک پیج لائیک کریں

ہمیں ٹوئیٹر ہر فالو کریں

ہمیں انسٹا گرام پر فالو کریں

Contact Us

[contact-form-7 id=”415″ title=”Contact form 1″]

Categories

  • Aawaza
  • Ads
  • آج کی شخصیت
  • اہم خبریں
  • تاریخ
  • تبادلہ خیال
  • تصوف , روحانیت
  • تصویر وطن
  • ٹیکنالوجی
  • خطاطی
  • زراعت
  • زندگی
  • سیاحت
  • شوبز
  • صراط مستقیم
  • عالم تمام
  • فاروق عادل کے خاکے
  • فاروق عادل کے سفر نامے
  • فکر و خیال
  • کتاب اور صاحب کتاب
  • کھانا پینا
  • کھیل
  • کھیل
  • کیمرے کی آنکھ سے
  • لٹریچر
  • محشر خیال
  • مخزن ادب
  • مصوری
  • معیشت
  • مو قلم

About Us

اطلاعات کی فراوانی کے عہد میں خبر نے زندگی کو زیر کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روح ضعیف ہو گئی اور جسم و جاں یعنی مادیت کا پلہ بھاری ہو گیا "آوازہ" ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو خبر کے ساتھ نظر کو بھی اہمیت دے گا۔ اس پلیٹ فارم پر سیاست اور واقعات عالم بھرپور تجزیے کے ساتھ زیر بحث آئیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی روح کی غذا یعنی ادب و ثقافت اور روحانیت سمیت بہت سے دیگر لطیف موضوعات بھی پڑھنے اور دیکھنے والوں کو لطف دیں گے۔
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions

No Result
View All Result
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions