Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
افضل عاجز
کل احتیاطی تدابیر کے ساتھ پارک کا چکر لگانے نکل پڑا۔ یہ کوئی مغرب کے بعد کا وقت ہوگا مگر سفید سفید سی روشنی ابھی چمک رہی تھی پسینے سے کپڑے بھیگے ہوئے تھے میں تین کپڑے پہن کے واک پہ جاتا ہوں یعنی پاجامہ شرٹ اور سرپہ ٹوپی گو کہ ان دنوں واک کا لطف بنیان اور کچھے میں ہی آتا ہے مگر پارک میں فیملیاں بھی آئی ہوئی ہوتیں ہیں تو اچھا نہیں لگتا مگر کبھی کبھی کوئی نوجوان کچھے اور بنیان میں بھی آ دھمکتا ہے تو پھر اس کی ایسی ہوتی ہے جیسی ملک کے حالات کی وجہ سے عمران خان کی ہورہی ہے مگر کبھی کبھی آیا یہ نوجوان اپنے آدھے ننگے جسم کے حوالے سے وہ وہ جواز پیش کرتا ہے کہ اس پر غصہ آنے کے بجائے الٹا ترس آنا شروع ہوجاتا ہے کئی جذباتی قسم کے بزرگ تو جیب سے سو دوسو نکال کے اس کی ہتھیلی پر رکھتے ہوئے کہتے ہیں لو بیٹا رکھ لو تمہارا کوئی قصور نہیں ملک کے حالات ہی ایسے ہیں لوگ تو لوگ خود حکومت بھی الف ننگی ہوچکی ہے۔
پارک کے پودے ابھی تک مرجھائے ہوئے ہیں اور وہ جوبن نظر نہیں آتا جو سال چھ مہینے پہلے نظر آتا تھا۔ یوں سمجھیے پارک اور ملک کے حالات ایک جیسے ہی چل رہے ہیں۔ اگر ملک کا بیڑا غرق نظر آتا ہے تو بیڑا پارک کا بھی غرق.ہی نظر آتا ہے البتہ. جہازوں کی تعداد کم ہوگئی ہے۔ پہلے تو یہ پارک کے ایک کونے میں مجلس لگائے بیٹھے ہوتے تھے۔ ادھر ادھر کے پارکوں سے بھی جہاز آتے جاتے رہتے تھے مگر اب ویرانی سی ویرانی ہے میرا خیال ہے کہ اصلی پائلٹوں کی طرح ان کے بھی لائیسنس جعلی نکل آئے ہیں پائلٹوں کو وفاقی وزیر بھلا سا نام ہے ان کا نام ہے،میں دانستہ لکھنے سے گریز کر رہا ہوں کیونکہ انہوں نے پائلٹوں
کے حوالے سے جو انکشاف کیا ہے جعلی لایننسوں کا اور پھر اس کے بعد دنیا بھر میں پی آئی اے کے بارے میں جو ردعمل آیا ہے اور ہماری ہوابازی کی صنعت کو جو نقصان پہنچا ہے اس کے بعد تو جہاں بھی ان کا نام آتا ہے، لوک بلغم بھرا تھوک پھینک دیتے ہیں سو خطرہ ہے کہ یہاں ان کا نام لکھا تو ساری پوست بلغم سے بھر جائے گی اور اخ تھو اخ تھو کے نعرے لگنے شروع ہو جائیں گے۔
اچھی بات یہ ہے کہ لوگ اب کورونا کے حوالے سے احتیاطی تدابیر اختیار کر رہے ہیں۔ پارک میں اپنے اپنے حساب سے
ہر ایک نے منہ لپیٹا ہوا ہوتا ہے خواتین نے تو ڈبل منہ لپیٹا ہوا ہوتا ہے یعنی دوپٹے سے نقاب اور پھر اس اس کے اوپر ماسک زیادہ تر گفتگو آنکھوں ہی آنکھوں میں ہوتی ہے۔
ہمیں آنکھوں کی زبان نہیں آتی سو سمجھ نہیں آتی کہ
لوگ ایک دوسرے کو لبھانے والی نظر سے دیکھ رہے ہیں یا
پھنسانے والی نظر سے مگر جب کوئی اچانک الٹے چکر لگانے
شروع کردے تو پھر سمجھ آجاتی ہے، انہوں نے کسی کو پھنسانے کی نظر سے دیکھا ہوگا جوابا اس نے غرانے کی نظر سے دیکھا تو یہ الٹے چکر پہ آ گئے
ہوتا رہتا ہے یہ دنیا ابھی نیک لوگوں سے خالی نہیں ہوئی
عمر کی قید سے ماوراء اکثر لوگ نظر بازی کا فیض بانٹنتے رہتے ہیں اور پھر جواباً فیض پاتے بھی ہیں ایسے لوگوں کا نام پارک میں.. فیض یافتہ. پڑ جاتا ہے شکر ہے ہمارا نام ابھی تک افضل عاجز ہی چل رہا ہے
پارک سے واپسی پر میں الٹے ہاتھ ہوگیا یہ دیکھنے کے لیے پارک کے ساتھ بچوں کے سکول کے سامنے گندگی کے ڈھیر کی کیا صورتحال ہے مزید کتنی ترقی ہوئی ہے کیا منہ پر کپڑا ڈالے گزرا جاسکتا ہے یا معاملہ آگے بڑھ چکا ہے؟
مگر یہ دیکھ کے مجھے خوشی ہوئی کہ سکول کے سامنے سے گندگی کے ڈھیر کو اٹھا لیا گیا ہے۔ دیواروں کو سفیدی پھیر کے چمکا دیا گیا۔ ہر دیوار پر خوبصورت اقوال زریں لکھ دیے گئے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے پودے بھی لگا دیے گیے ہیں۔ایک دیوار پر موٹا سا لکھ دیا گیا ہے۔ یہاں کسی نے گندگی پھیلانے کی کوشش کی تو پھر یہ منظر دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی کیونکہ گزشتہ روز ہی میں نے اس حوالے سے ایک پوسٹ لکھی تھی ممکن ہے اس پوسٹ کو شرف قبولیت بخشا گیا ہو چلو جس وجہ سے بھی گندگی اٹھا کے ماحول کو خوبصورت بنا دیا گیا جس نے بھی بنایا یا بنوایا ہے۔
اللہ اس کا بھلا کرے.
افضل عاجز
کل احتیاطی تدابیر کے ساتھ پارک کا چکر لگانے نکل پڑا۔ یہ کوئی مغرب کے بعد کا وقت ہوگا مگر سفید سفید سی روشنی ابھی چمک رہی تھی پسینے سے کپڑے بھیگے ہوئے تھے میں تین کپڑے پہن کے واک پہ جاتا ہوں یعنی پاجامہ شرٹ اور سرپہ ٹوپی گو کہ ان دنوں واک کا لطف بنیان اور کچھے میں ہی آتا ہے مگر پارک میں فیملیاں بھی آئی ہوئی ہوتیں ہیں تو اچھا نہیں لگتا مگر کبھی کبھی کوئی نوجوان کچھے اور بنیان میں بھی آ دھمکتا ہے تو پھر اس کی ایسی ہوتی ہے جیسی ملک کے حالات کی وجہ سے عمران خان کی ہورہی ہے مگر کبھی کبھی آیا یہ نوجوان اپنے آدھے ننگے جسم کے حوالے سے وہ وہ جواز پیش کرتا ہے کہ اس پر غصہ آنے کے بجائے الٹا ترس آنا شروع ہوجاتا ہے کئی جذباتی قسم کے بزرگ تو جیب سے سو دوسو نکال کے اس کی ہتھیلی پر رکھتے ہوئے کہتے ہیں لو بیٹا رکھ لو تمہارا کوئی قصور نہیں ملک کے حالات ہی ایسے ہیں لوگ تو لوگ خود حکومت بھی الف ننگی ہوچکی ہے۔
پارک کے پودے ابھی تک مرجھائے ہوئے ہیں اور وہ جوبن نظر نہیں آتا جو سال چھ مہینے پہلے نظر آتا تھا۔ یوں سمجھیے پارک اور ملک کے حالات ایک جیسے ہی چل رہے ہیں۔ اگر ملک کا بیڑا غرق نظر آتا ہے تو بیڑا پارک کا بھی غرق.ہی نظر آتا ہے البتہ. جہازوں کی تعداد کم ہوگئی ہے۔ پہلے تو یہ پارک کے ایک کونے میں مجلس لگائے بیٹھے ہوتے تھے۔ ادھر ادھر کے پارکوں سے بھی جہاز آتے جاتے رہتے تھے مگر اب ویرانی سی ویرانی ہے میرا خیال ہے کہ اصلی پائلٹوں کی طرح ان کے بھی لائیسنس جعلی نکل آئے ہیں پائلٹوں کو وفاقی وزیر بھلا سا نام ہے ان کا نام ہے،میں دانستہ لکھنے سے گریز کر رہا ہوں کیونکہ انہوں نے پائلٹوں
کے حوالے سے جو انکشاف کیا ہے جعلی لایننسوں کا اور پھر اس کے بعد دنیا بھر میں پی آئی اے کے بارے میں جو ردعمل آیا ہے اور ہماری ہوابازی کی صنعت کو جو نقصان پہنچا ہے اس کے بعد تو جہاں بھی ان کا نام آتا ہے، لوک بلغم بھرا تھوک پھینک دیتے ہیں سو خطرہ ہے کہ یہاں ان کا نام لکھا تو ساری پوست بلغم سے بھر جائے گی اور اخ تھو اخ تھو کے نعرے لگنے شروع ہو جائیں گے۔
اچھی بات یہ ہے کہ لوگ اب کورونا کے حوالے سے احتیاطی تدابیر اختیار کر رہے ہیں۔ پارک میں اپنے اپنے حساب سے
ہر ایک نے منہ لپیٹا ہوا ہوتا ہے خواتین نے تو ڈبل منہ لپیٹا ہوا ہوتا ہے یعنی دوپٹے سے نقاب اور پھر اس اس کے اوپر ماسک زیادہ تر گفتگو آنکھوں ہی آنکھوں میں ہوتی ہے۔
ہمیں آنکھوں کی زبان نہیں آتی سو سمجھ نہیں آتی کہ
لوگ ایک دوسرے کو لبھانے والی نظر سے دیکھ رہے ہیں یا
پھنسانے والی نظر سے مگر جب کوئی اچانک الٹے چکر لگانے
شروع کردے تو پھر سمجھ آجاتی ہے، انہوں نے کسی کو پھنسانے کی نظر سے دیکھا ہوگا جوابا اس نے غرانے کی نظر سے دیکھا تو یہ الٹے چکر پہ آ گئے
ہوتا رہتا ہے یہ دنیا ابھی نیک لوگوں سے خالی نہیں ہوئی
عمر کی قید سے ماوراء اکثر لوگ نظر بازی کا فیض بانٹنتے رہتے ہیں اور پھر جواباً فیض پاتے بھی ہیں ایسے لوگوں کا نام پارک میں.. فیض یافتہ. پڑ جاتا ہے شکر ہے ہمارا نام ابھی تک افضل عاجز ہی چل رہا ہے
پارک سے واپسی پر میں الٹے ہاتھ ہوگیا یہ دیکھنے کے لیے پارک کے ساتھ بچوں کے سکول کے سامنے گندگی کے ڈھیر کی کیا صورتحال ہے مزید کتنی ترقی ہوئی ہے کیا منہ پر کپڑا ڈالے گزرا جاسکتا ہے یا معاملہ آگے بڑھ چکا ہے؟
مگر یہ دیکھ کے مجھے خوشی ہوئی کہ سکول کے سامنے سے گندگی کے ڈھیر کو اٹھا لیا گیا ہے۔ دیواروں کو سفیدی پھیر کے چمکا دیا گیا۔ ہر دیوار پر خوبصورت اقوال زریں لکھ دیے گئے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے پودے بھی لگا دیے گیے ہیں۔ایک دیوار پر موٹا سا لکھ دیا گیا ہے۔ یہاں کسی نے گندگی پھیلانے کی کوشش کی تو پھر یہ منظر دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی کیونکہ گزشتہ روز ہی میں نے اس حوالے سے ایک پوسٹ لکھی تھی ممکن ہے اس پوسٹ کو شرف قبولیت بخشا گیا ہو چلو جس وجہ سے بھی گندگی اٹھا کے ماحول کو خوبصورت بنا دیا گیا جس نے بھی بنایا یا بنوایا ہے۔
اللہ اس کا بھلا کرے.
افضل عاجز
کل احتیاطی تدابیر کے ساتھ پارک کا چکر لگانے نکل پڑا۔ یہ کوئی مغرب کے بعد کا وقت ہوگا مگر سفید سفید سی روشنی ابھی چمک رہی تھی پسینے سے کپڑے بھیگے ہوئے تھے میں تین کپڑے پہن کے واک پہ جاتا ہوں یعنی پاجامہ شرٹ اور سرپہ ٹوپی گو کہ ان دنوں واک کا لطف بنیان اور کچھے میں ہی آتا ہے مگر پارک میں فیملیاں بھی آئی ہوئی ہوتیں ہیں تو اچھا نہیں لگتا مگر کبھی کبھی کوئی نوجوان کچھے اور بنیان میں بھی آ دھمکتا ہے تو پھر اس کی ایسی ہوتی ہے جیسی ملک کے حالات کی وجہ سے عمران خان کی ہورہی ہے مگر کبھی کبھی آیا یہ نوجوان اپنے آدھے ننگے جسم کے حوالے سے وہ وہ جواز پیش کرتا ہے کہ اس پر غصہ آنے کے بجائے الٹا ترس آنا شروع ہوجاتا ہے کئی جذباتی قسم کے بزرگ تو جیب سے سو دوسو نکال کے اس کی ہتھیلی پر رکھتے ہوئے کہتے ہیں لو بیٹا رکھ لو تمہارا کوئی قصور نہیں ملک کے حالات ہی ایسے ہیں لوگ تو لوگ خود حکومت بھی الف ننگی ہوچکی ہے۔
پارک کے پودے ابھی تک مرجھائے ہوئے ہیں اور وہ جوبن نظر نہیں آتا جو سال چھ مہینے پہلے نظر آتا تھا۔ یوں سمجھیے پارک اور ملک کے حالات ایک جیسے ہی چل رہے ہیں۔ اگر ملک کا بیڑا غرق نظر آتا ہے تو بیڑا پارک کا بھی غرق.ہی نظر آتا ہے البتہ. جہازوں کی تعداد کم ہوگئی ہے۔ پہلے تو یہ پارک کے ایک کونے میں مجلس لگائے بیٹھے ہوتے تھے۔ ادھر ادھر کے پارکوں سے بھی جہاز آتے جاتے رہتے تھے مگر اب ویرانی سی ویرانی ہے میرا خیال ہے کہ اصلی پائلٹوں کی طرح ان کے بھی لائیسنس جعلی نکل آئے ہیں پائلٹوں کو وفاقی وزیر بھلا سا نام ہے ان کا نام ہے،میں دانستہ لکھنے سے گریز کر رہا ہوں کیونکہ انہوں نے پائلٹوں
کے حوالے سے جو انکشاف کیا ہے جعلی لایننسوں کا اور پھر اس کے بعد دنیا بھر میں پی آئی اے کے بارے میں جو ردعمل آیا ہے اور ہماری ہوابازی کی صنعت کو جو نقصان پہنچا ہے اس کے بعد تو جہاں بھی ان کا نام آتا ہے، لوک بلغم بھرا تھوک پھینک دیتے ہیں سو خطرہ ہے کہ یہاں ان کا نام لکھا تو ساری پوست بلغم سے بھر جائے گی اور اخ تھو اخ تھو کے نعرے لگنے شروع ہو جائیں گے۔
اچھی بات یہ ہے کہ لوگ اب کورونا کے حوالے سے احتیاطی تدابیر اختیار کر رہے ہیں۔ پارک میں اپنے اپنے حساب سے
ہر ایک نے منہ لپیٹا ہوا ہوتا ہے خواتین نے تو ڈبل منہ لپیٹا ہوا ہوتا ہے یعنی دوپٹے سے نقاب اور پھر اس اس کے اوپر ماسک زیادہ تر گفتگو آنکھوں ہی آنکھوں میں ہوتی ہے۔
ہمیں آنکھوں کی زبان نہیں آتی سو سمجھ نہیں آتی کہ
لوگ ایک دوسرے کو لبھانے والی نظر سے دیکھ رہے ہیں یا
پھنسانے والی نظر سے مگر جب کوئی اچانک الٹے چکر لگانے
شروع کردے تو پھر سمجھ آجاتی ہے، انہوں نے کسی کو پھنسانے کی نظر سے دیکھا ہوگا جوابا اس نے غرانے کی نظر سے دیکھا تو یہ الٹے چکر پہ آ گئے
ہوتا رہتا ہے یہ دنیا ابھی نیک لوگوں سے خالی نہیں ہوئی
عمر کی قید سے ماوراء اکثر لوگ نظر بازی کا فیض بانٹنتے رہتے ہیں اور پھر جواباً فیض پاتے بھی ہیں ایسے لوگوں کا نام پارک میں.. فیض یافتہ. پڑ جاتا ہے شکر ہے ہمارا نام ابھی تک افضل عاجز ہی چل رہا ہے
پارک سے واپسی پر میں الٹے ہاتھ ہوگیا یہ دیکھنے کے لیے پارک کے ساتھ بچوں کے سکول کے سامنے گندگی کے ڈھیر کی کیا صورتحال ہے مزید کتنی ترقی ہوئی ہے کیا منہ پر کپڑا ڈالے گزرا جاسکتا ہے یا معاملہ آگے بڑھ چکا ہے؟
مگر یہ دیکھ کے مجھے خوشی ہوئی کہ سکول کے سامنے سے گندگی کے ڈھیر کو اٹھا لیا گیا ہے۔ دیواروں کو سفیدی پھیر کے چمکا دیا گیا۔ ہر دیوار پر خوبصورت اقوال زریں لکھ دیے گئے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے پودے بھی لگا دیے گیے ہیں۔ایک دیوار پر موٹا سا لکھ دیا گیا ہے۔ یہاں کسی نے گندگی پھیلانے کی کوشش کی تو پھر یہ منظر دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی کیونکہ گزشتہ روز ہی میں نے اس حوالے سے ایک پوسٹ لکھی تھی ممکن ہے اس پوسٹ کو شرف قبولیت بخشا گیا ہو چلو جس وجہ سے بھی گندگی اٹھا کے ماحول کو خوبصورت بنا دیا گیا جس نے بھی بنایا یا بنوایا ہے۔
اللہ اس کا بھلا کرے.
افضل عاجز
کل احتیاطی تدابیر کے ساتھ پارک کا چکر لگانے نکل پڑا۔ یہ کوئی مغرب کے بعد کا وقت ہوگا مگر سفید سفید سی روشنی ابھی چمک رہی تھی پسینے سے کپڑے بھیگے ہوئے تھے میں تین کپڑے پہن کے واک پہ جاتا ہوں یعنی پاجامہ شرٹ اور سرپہ ٹوپی گو کہ ان دنوں واک کا لطف بنیان اور کچھے میں ہی آتا ہے مگر پارک میں فیملیاں بھی آئی ہوئی ہوتیں ہیں تو اچھا نہیں لگتا مگر کبھی کبھی کوئی نوجوان کچھے اور بنیان میں بھی آ دھمکتا ہے تو پھر اس کی ایسی ہوتی ہے جیسی ملک کے حالات کی وجہ سے عمران خان کی ہورہی ہے مگر کبھی کبھی آیا یہ نوجوان اپنے آدھے ننگے جسم کے حوالے سے وہ وہ جواز پیش کرتا ہے کہ اس پر غصہ آنے کے بجائے الٹا ترس آنا شروع ہوجاتا ہے کئی جذباتی قسم کے بزرگ تو جیب سے سو دوسو نکال کے اس کی ہتھیلی پر رکھتے ہوئے کہتے ہیں لو بیٹا رکھ لو تمہارا کوئی قصور نہیں ملک کے حالات ہی ایسے ہیں لوگ تو لوگ خود حکومت بھی الف ننگی ہوچکی ہے۔
پارک کے پودے ابھی تک مرجھائے ہوئے ہیں اور وہ جوبن نظر نہیں آتا جو سال چھ مہینے پہلے نظر آتا تھا۔ یوں سمجھیے پارک اور ملک کے حالات ایک جیسے ہی چل رہے ہیں۔ اگر ملک کا بیڑا غرق نظر آتا ہے تو بیڑا پارک کا بھی غرق.ہی نظر آتا ہے البتہ. جہازوں کی تعداد کم ہوگئی ہے۔ پہلے تو یہ پارک کے ایک کونے میں مجلس لگائے بیٹھے ہوتے تھے۔ ادھر ادھر کے پارکوں سے بھی جہاز آتے جاتے رہتے تھے مگر اب ویرانی سی ویرانی ہے میرا خیال ہے کہ اصلی پائلٹوں کی طرح ان کے بھی لائیسنس جعلی نکل آئے ہیں پائلٹوں کو وفاقی وزیر بھلا سا نام ہے ان کا نام ہے،میں دانستہ لکھنے سے گریز کر رہا ہوں کیونکہ انہوں نے پائلٹوں
کے حوالے سے جو انکشاف کیا ہے جعلی لایننسوں کا اور پھر اس کے بعد دنیا بھر میں پی آئی اے کے بارے میں جو ردعمل آیا ہے اور ہماری ہوابازی کی صنعت کو جو نقصان پہنچا ہے اس کے بعد تو جہاں بھی ان کا نام آتا ہے، لوک بلغم بھرا تھوک پھینک دیتے ہیں سو خطرہ ہے کہ یہاں ان کا نام لکھا تو ساری پوست بلغم سے بھر جائے گی اور اخ تھو اخ تھو کے نعرے لگنے شروع ہو جائیں گے۔
اچھی بات یہ ہے کہ لوگ اب کورونا کے حوالے سے احتیاطی تدابیر اختیار کر رہے ہیں۔ پارک میں اپنے اپنے حساب سے
ہر ایک نے منہ لپیٹا ہوا ہوتا ہے خواتین نے تو ڈبل منہ لپیٹا ہوا ہوتا ہے یعنی دوپٹے سے نقاب اور پھر اس اس کے اوپر ماسک زیادہ تر گفتگو آنکھوں ہی آنکھوں میں ہوتی ہے۔
ہمیں آنکھوں کی زبان نہیں آتی سو سمجھ نہیں آتی کہ
لوگ ایک دوسرے کو لبھانے والی نظر سے دیکھ رہے ہیں یا
پھنسانے والی نظر سے مگر جب کوئی اچانک الٹے چکر لگانے
شروع کردے تو پھر سمجھ آجاتی ہے، انہوں نے کسی کو پھنسانے کی نظر سے دیکھا ہوگا جوابا اس نے غرانے کی نظر سے دیکھا تو یہ الٹے چکر پہ آ گئے
ہوتا رہتا ہے یہ دنیا ابھی نیک لوگوں سے خالی نہیں ہوئی
عمر کی قید سے ماوراء اکثر لوگ نظر بازی کا فیض بانٹنتے رہتے ہیں اور پھر جواباً فیض پاتے بھی ہیں ایسے لوگوں کا نام پارک میں.. فیض یافتہ. پڑ جاتا ہے شکر ہے ہمارا نام ابھی تک افضل عاجز ہی چل رہا ہے
پارک سے واپسی پر میں الٹے ہاتھ ہوگیا یہ دیکھنے کے لیے پارک کے ساتھ بچوں کے سکول کے سامنے گندگی کے ڈھیر کی کیا صورتحال ہے مزید کتنی ترقی ہوئی ہے کیا منہ پر کپڑا ڈالے گزرا جاسکتا ہے یا معاملہ آگے بڑھ چکا ہے؟
مگر یہ دیکھ کے مجھے خوشی ہوئی کہ سکول کے سامنے سے گندگی کے ڈھیر کو اٹھا لیا گیا ہے۔ دیواروں کو سفیدی پھیر کے چمکا دیا گیا۔ ہر دیوار پر خوبصورت اقوال زریں لکھ دیے گئے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے پودے بھی لگا دیے گیے ہیں۔ایک دیوار پر موٹا سا لکھ دیا گیا ہے۔ یہاں کسی نے گندگی پھیلانے کی کوشش کی تو پھر یہ منظر دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی کیونکہ گزشتہ روز ہی میں نے اس حوالے سے ایک پوسٹ لکھی تھی ممکن ہے اس پوسٹ کو شرف قبولیت بخشا گیا ہو چلو جس وجہ سے بھی گندگی اٹھا کے ماحول کو خوبصورت بنا دیا گیا جس نے بھی بنایا یا بنوایا ہے۔
اللہ اس کا بھلا کرے.