ADVERTISEMENT
عقیل عباس جعفری
ممتاز شاعر، محقق اور کالم نگار ناصر زیدی آج اسلام آباد میں انتقال کرگئے ۔إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعون ۔ سید ناصر زیدی 8اپریل 1943ء کو مظفر نگر (یوپی) میں پیدا ہوئے تھے۔ لاہور میں تعلیم وتربیت پائی۔ بی اے لاہورسے کیا۔ لاہور ہی میں ان کا ذوق شعری پروان چڑھا۔ ہفت روزہ ’’حمایت اسلام‘‘ سے کالم نویسی کا آغاز کیا۔ کچھ عرصہ روزنامہ ’’امروز‘‘ میں سامع بصری، کے قلمی نام سے لکھتے رہے۔ پندرہ روزہ ’’آہنگ‘‘ کراچی میں لاہور کی ادبی ڈائری بھی لکھتے رہے۔ ماہ نامہ ’’ادب لطیف‘‘ کے علاوہ متعدد ادبی و نیم ادبی رسائل کے ایڈیٹر رہے۔ کئی وزرائے اعظم کے اسپیچ رائٹر رہے۔
چند برس سے لاہور میں مقیم تھے اور مختلف اخبارات میں کالم لکھ رہے تھے ۔ ا ن کی تصانیف کے نام یہ ہیں: ’’ڈوبتے چاند کا منظر‘‘، ’’وصال‘‘، ’’التفات‘‘(شعری مجموعے) ۔ ان کے علاوہ وہ لگ بھگ ڈیڑھ درجن مختلف کتب کے مؤلف اور مرتب رہے جن میں حضرت قائد اعظم سے متعلق ’’وہ رہبر ہمارا وہ قائد ہمارا‘‘ اور علامہ اقبال کے بارے میں ’’بیاد شاعر مشرق‘‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
جبار مرزا
ناصر زیدی بظاہر ہم میں نہیں رہے مگر وہ کہیں جا بھی نہیں سکتے کیونکہ ہمارا پچاس برسوں کا ساتھ تھا 1970ء سے 2020ء پچاس برس پلک جھپکنے میں گزر گئے ناصر زیدی سید نہ بھی ہوتا تو وہ صاحب عزت تھا عزت دیتا تھا کتاب دوست، انسان دوست، پاکستان دوست ، کشمیر دوست وہ سر تا پا دوست تھا، بے بدل مدیر ثابت قدم نقاد ،پختہ گو شاعر مورخ ،محقق ، مصنف کالم نگار سیرت نگار ،روز نامچہ نویس ، نعت نگار، خطیب مدبر دانشور جانے کون کون سے حوالے تھے ناصر زیدی کے جن سے ہم فیض یاب ہوتے رہے اللہ پاک اسے مبرور فرمائیں، امین۔
ڈاکٹر یونس خیال نے لکھا ہے:
آہ ۔۔۔۔۔ ناصر زیدی بھی رخصت ہوئے ۔
آنکھیں بھیگ گئیں ۔۔۔۔۔ دس بارہ سال پہلے کاایک ہنستا مسکراتا (لیکن اب غم کی کالی چادر اوڑھے)لمحہ میرے سامنے آگر ٹھہر گیا۔
لاہور کی ایک ویگن میں فیصل ٹاون کے قریب سوار ہوئے ، مجھے دیکھ کرمیرے ساتھ بیٹھ گئے ۔ہم دونوں نے ایک دوسرے کی خیریت دریافت کی اور باتیں کرنے لگے۔ میراسٹاپ آگیا توانھیں گھر آنے کی دعوت دیتے ہوئے ساتھ اترنے کاکہا ۔کہنے لگے جلدی میں ہوں یار ۔۔۔۔۔
اپناوزٹننگ کارڈ نکالا اور اس کے پیچھے یہ شعرلکھ کر مجھے تھمادیا ۔۔۔۔
میکدہ ہے نہ کوئی ساقی ہے
ایک یونس خیال باقی ہے
اللہ پاک اس خوب صورت شخص اور شاعرکے درجات بلند فرمائے آمین ۔
معروف شاعرہ مسرت کلانچوی نے لکھا ہے:
ناصر زیدی کے ساتھ آخری ملاقات ۔پروفیسر حسن عسکری کاظمی کے گھر میں۔ کاظمی صاحب اور تسنیم کوثر ہمراہ ہیں ۔ پہلی ملاقات چالیس برس پہلے ریڈیو پاکستان بھاول پور میں ہوئ تھی جب میں ریڈیو کے پروگراموں کی کمپرنگ کرتی تھی اور ڈرامے لکھتی تھی زیدی صاحب وہاں مشاعرہ میں آئے تھے اور میں نے ان سے آٹوگراف لیا تھا ۔شادی کے بعد لاہور آئ تو اکثر ان سے ملاقات رہتی اور وہ بہت شفقت سے ملتے تھے۔اللہ انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے ۔