Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
ارشاد احمد کلیمی
پہلی ملا قات کو کتنے بر س بیت گئے۔ اب تودو دہا ئیاں ہو نے کو آئیں۔ وہی شام۔ جس کے لیے خوب تشبیہ ہے۔ سُرمئی رنگ کی۔ وہی شام کا دُھندَ لکا، مٹّیّ کی وسیع، مو ٹی اور نیچی چاردیواری، وسطِ دیوار سے ڈیوڑھا بلند پُر انی طرزکا، ماہ و سال جھیلی ہو ئی لکڑی کا وفادار دروازہ، برِنجی کیلوں سے مُرصّع، فراخ اور کُشادہ۔ اپنی چو کھٹ میں مضبوطی سے جماہوا۔ ایک پٹ نیم وا تھا۔ کسی کو پا س نہ پا کر میں نے اندرقدم رکھ دیا اور چلتا رہا، پتلی لیکن درمیانی پگڈنڈی، ٹِبیّ نُما پہاڑی کی طرف جارہی تھی۔ میں پہلے کبھی نہیں گیا تھا، لیکن مجھے معلوم تھا کہ مجھے کہاں جانا ہے۔ راستہ بھی کیا، بس کنکر سے بچھے تھے، زرد۔ اور پہاڑی بھی کیا، بس ایک چھوٹا سا ٹیلہ سمجھئے۔ ڈھلان پہ چڑھا۔ وہی ڈھلان جو بلند ہوتی ہوئی ٹیلے کی چوٹی پر، جن سے ملنا تھا ان کے دادا سُسرتک جاتی ہے اور چوٹی سے ذرا پہلے، چچا سُسر۔
ترتیب دیکھیے۔ بیچ میں خود ہیں اور پہاڑی کے پاؤں میں سارا سُسرال۔
بہت دیر کھڑا رہا۔ اتنی دیر کہ سُورج ڈھل گیا۔ دُور۔ پیٹھ پیچھے، آگاہ دروازہ نے اپنے بازو سمیٹ لیے۔ دروازہ کب کا بند بھی ہو چکا۔ میں اندھیری چار دیواری اور اُس کے اندر مکمل تنہائی اور بڑھتے ہوئے اندھیرے میں دو دفعہ پہاڑی سے اُتر کر دروازے تک گیا، جو لبِ محرمِ راز کی طرح سختی سے بند تھا۔
دروازہ بند پا کر پھر پہاڑی پر چڑھ جاتا۔ حتیٰ کہ اندھیرا اتنا دَبیز ہو گیا کہ میں واپسی کے لیے پہاڑی پہ کھڑا یہ دیکھتا رہا کہ کون سی دیوار پھاند کر واپس جاؤں گا۔ آشیاں کی طرف نہ سہی، قیام گاہ تک ہی سہی۔ پھرمجھے ایک ترکیب سوجھ ہی گئی۔ جن کے حضور کھڑا تھا اُن ہی سے کہا، جانے دیجئے اِس وعدے کے ساتھ، کہ اللہ نے مجھے بیٹی دی تو اُس کا نام آپ کے نام پر رکھوں گا۔ خدیجہ۔ ۔ ۔
یہ نذرمان کر، آنسوؤں کی نیاز پیش کر کے تیسری دفعہ پہاڑی سے اُتر کر پھر بند دروازہ کی طرف جانا شروع کیا۔ دُور سے دیکھا تو پھر بند۔ قریب پہنچا ہی تھا کہ یکایک مُحرم دروازے کے دونوں وسیع پٹ ایک بُلند چرچراہٹ کے ساتھ ایک جنا زے کو خوش آمدید کہنے کے لیے کُھلے اور میں مکہ کی وادیِٔ حجُون میں واقع قریش کے قدیم اور خاندانی قبرستان، جنتِ معلی سے باہر آکر وادیِٔ اُمُّ القُریٰ کی وسیع سٹرکوں میں گم ہو کر یہ سوچتا اور شاہراہِ اُمُّ القُریٰ پر حرم جانے کے لیے پیدل چلتا رہا کہ ایسی بیبیاں بھی ہوتی ہیں جو اپنے پریشان اور ہبیت زدہ شوہرؐ کو اُس کی خو بیاں یاد دلاتے ہو ئی اگر لِٹا کر اپنی چادر اُڑھادیں تو وہ شاد و پُرسکون و مطمئن ہو جاتے ہیں اور وہ چادردوسری وحی کا پہلا لفظ بن جاتی ہے۔ اے اوڑھ لپیٹ کر پڑجانے والے۔ یَا اَیُّھَا المُدثِّرO
ایسی تنہا بی بی جو ڈھلتی عمر کا سہارا، اپنے وقت کی سب سے بڑی اور سب سے کامیاب ورکنگ ویمن اور بین الاقوامی تاجرکا سارا سرمایا پرِکاہ کی طرح نچھاور، سارا کا سارا کاروبار تباہ۔ لیکن تباہ کہاں۔ جو لُٹا دراصل وہی تو اصل سرمایا تھا جو بچ رہا ؎ لُٹا کر فقیری میں امیری کر۔
ارے دیکھئے، راہ میں ایک پہاڑی اور آکھڑی ہو ئی، جس کی چوٹی تک سخت اور پھِسلواں اور سخت چڑھائی چڑھ کر، ہلکا سا بہ جا نبِ نشیب اُتر کر ایک چھتی ہوئی غارنُما جگہ، دن و رات کے مختلف اوقات میں اُس پہ چڑھتی اور اُترتی ہو ئی یہی خاتون۔
غارِحرا میں دورِتَحنَث کے اختتام اور آغازِ رسالت کی پہلی نیند سے بیداری پہ شوہرؐ کا اپنے جی میں یہ کہنا کہ میں شاعر ہوں یا مجنون؟ قریش مجھ سے یہ کلام سننا یقینا برداشت نہیں کریںگے، میں ضرور کسی اونچے چٹیل پہاڑ پر چڑھ جا ؤں گا اور وہاں سے اپنے آپ کو گرا کر اپنی جان دے دوں گا اور اس طرح اِس بوجھ سے چُھٹکارا حاصل ہو جا ئے گا۔ غار سے واپسی پر اُنھی بیوی سے پھر یہ کہنا کہ نا معلوم میں شاعر ہوں یا مجنون!
کائنات کی سب سے اچھی بیوی اور کائنا ت کی عورتوں کی سردارکا، کائنات کے سب سے اچھے شوہر اور عالمین کے انسانوں سے افضل انسان کو یوں تسلّی أَئے ابوالقاسم ؐ، آپ کو اللہ کی پناہ میں دیتی ہوں، آپ یقینا ایسے نہیں ہیں، اللہ آپ کے ساتھ ایسا سلوک ہرگز نہیں کریں گے، کیوں کہ میں آپ کو جانتی ہوں کہ آپؐ سچ بولنے والے، انتہائی امانت دار، محاسنِ اخلاق کے حامل اور صلئہ ِرحمی کرنے والے ہیں۔ اَئے میرے چچا کے بیٹے کیا معاملہ ہے؟ کیا آپ نے کوئی چیز دیکھی ہے یا سُنی ہے۔ اَئے میرے چچا کے بیٹے خوش ہو جائیے اور دل جمعی اختیار کیجیے، اُس ذات کی قسم جس کی آپ قسم کھاتے ہیں، مجھے اُمیدّ ِواثقِ کہ آپ اِس اُمت کے نبی ؐہیں
پھر مزید تسلی کے لیے شوہرؐ کو اپنے عالم اور فاضلِ وقت، چچازاد بھا ئی کے پا س لے جا کر اس طرح تسلّی دینا اوردلوانا کہ اُن کا بوجھ اور غم ہلکا ہوجائے۔ پہلی عورت، پہلا فرد، پہلاغم گُسار، پہلا مُشیر، پہلی پناہ گاہ اور ایسی پناہ گاہ کہ ہڈیوں کو پگھلاتا غم دور ہوجائے۔ تردد کی گھٹا چھٹ جا ئے- جب ہر طر ف دُشنام و ایذا کے پتھروں اور جُھٹلائے جانے کا صدمہ ہو تو سکون وراحت، خوشی اور مسّرت کا اکلوتا گو شہ بی بیؓ کا گھر اور بی بیؓ کی خلوت ہو۔ شوہرؐ کو اپنی خلوت میں آئے نامُوس اکبر(جبرائیل) کی پہچان کرانے والی، فدائیت اور فدویئیت کے الفاظ کو مفہوم دینے والی دم ساز کو، صلے میں کیا ملا؟
سالِ انتقال۔ سالِ غم، عام الحُزن ٹھہرا۔ بعد میں دس شادیاں مزید۔ خدیجہؓ کی زندگی میں ایک بھی نہیں۔ گویا مرکزِ نگاہ صرف ایک رہا۔ خدیجہؓ۔
بیٹے قاسمؓ کے انتقال پر سورہ کوثر کا تحفہ ملے، ناموسِ اکبر سلام دے، تمام جدید عورتوں سے افضلیت اور اُن کی سرداری کا مُثردہ سنائے-جنت میں جوف دار موتی کے محل کی ملکیت کی خوشخبری دے، جہاں نہ شورہوگا نہ شغب اور نہ ہی رنج و افسردگی۔ خدیجہؓ، شوہرؐ کے کھانے کے لیے برتن لا ئیں تو نامُوسِ اکبر (جبرائیل) اُنھیں اپنا اور خدا کا سلام پہنچائے۔
سالِ غم کے بعد دوسری بیویوں کے ہوتے ہوئے یہ حال ور مرحومہ کی ایسی یاد کہ دروازے پر ملتی جلتی آوازبھی سنائی دے جائے تو کائنات کا سب سے مہذب انسانؐ یوں لپکتا ہوا دروازے پر جائے کہ رِدائے مُبارک زمیں پر گھسٹ رہی ہو۔ صرف اس لیے کہ آواز، چلی جانے والی سے ملتی ہے۔ مرحومہؓ کی بڑی بیٹی زینبؓ اپنے شوہر کو چُھڑانے کے لیے فدیہ میں اماّں کا ہار بھیجے، تو مجمع میں بیٹھا ہوا شوہرؐ، مرحومہ کا ہار دیکھ کر یوں بے قرار کہ اپنے آنسو نہ روک سکے۔
وقت کا کتنا بڑا حکمران، ابو بکرؓ، بڑے نواسے کو گلی میں کھیلتا پاکر اپنے کاندھے پر بٹھاتے ہو ئے یہ کہے” قسم ہے یہ حسنؓ اپنے ناناؐ کے مشابہ ہے۔ ” بڑے نواسے حسنؓ کو “ریحانتہُ النبی” کا خطاب ملے اور منجھلے نواسے حسینؓ کو” ریحانتی فی الجنتہ” کا۔ ایک بیٹی کا شوہر” مرتضیٰؓ” کہلائے تو دوسری کا ” ذُولنُو رِینؓ”۔ چھوٹی بیٹی فاطمہؓ کی بڑی بیٹی اُمِّ کلثوم سے اپنے وقت کا سب بڑا حکمران عمر بنؓ خطاب صرف اس وجہ سے یہ کہہ کر شادی کرے کہ ” قیامت کے دن جملہ تعلقات اور دوستیاں ما سوائے رسولؐ اللہ کی قرابت کے منقطع ہو جائیں گی۔ اس لیے میں نے ارادہ کیا کہ رسولؐ اللہ کے ساتھ میرا دامادی کا رشتہ استوار ہو جائے۔ ـ”
آج بھی برصغیر کے روایتی گھرانوں میں خدیجہؓ کی نواسیاں شہزادیاں کہلاتی ہیں۔ آج بھی سُنّتِ فاروقی کے اِطِبّاع میں اِن شہزادیوں، اِن سیدانیوں سے اس لیے شادیاں کی جاتی ہیں کہ اللہ کے رسولؐ سے دامادی کا رشتہ ہو جائے، یہی تو کوثر کا ایک حصہ ہے جو خدیجہؓ کے بڑے بیٹے قاسمؓ کے انتقال پر ابوالقاسمؐ کو عطا ہوئی۔ اِنّا اعطینک الکوثر۔ عمر بن عاص کے اس جملے کے جواب میں کہ (نعوذبااللہ) حضورؐ کی نسل ختم ہو چکی ہے۔ واہ، سردارنیؓ نے غربت خرید کر ہمیشگی پائی۔ صرف شوہرؐ کی خاطر اوربہ طبیبِ خاطر، بے انتہا امارت سے بے انتہا غُربت تک کا سفر، جس کی رہ گزر میں شعبِ ابی طالب کی فاقہ کشی کے ڈھائی سال بھی یوں شامل ہوں کہ صرف طلح کااُبلے پتوّں کا ماحضرنصیب ہو- نہ دسترخوان، نہ رکابی، نہ سالن نہ روٹی۔ اُبلے پتیّ اور شوہرؐ کی چاہت- خوف کا بستر اور کُھلے آسمان کی چھت تلے جان کے دشمنوں کی چاردیواری میں محبوبؐ کے رُخِ انورؐ کی قندیل، اور بس۔ رہے نام ہمیشہ اسِ جوڑے کی چاہت کا۔
اس سفر کا صلہ تو اللہ کو معلوم، اِس فناکی بقا کا علم، وقت کی طنابوں کے مالک کو معلوم، اَنا کے اِس خون کا رنگ حنا کے خالق کو معلوم، پانچ سوطلائی درہم کے مہر والی اس شادی کی حقیقت مالکِ اَسرار کومعلوم، ابوبکرؓ کو عتیق کہہ کر شوہرؐ کے ساتھ ورقہ بن نوفل کے پاس احوالِ وحی بیان کروانے والی دَمساز کا احوال دَم دینے والے کو معلوم- اللہ کے محبوب ؐ کی محبوبہ ؓ کی محبت اللہ کو معلوم، اس دُوئی کی یکتائی، واحد اُلعالم۔
لیکن کیا یہ سب صرف تَبرُّک ہے۔ یہ ذکر بھی، اور وہ پہاڑی بھی اور تیسری پہاڑی کا غار بھی، وہ چادر بھی، جوف دار موتیوں کا محل بھی اور طلح کے اُبلے پتیّ بھی۔ مالِ تجارت کے اونٹوں کی قطاریں بھی اور چھوٹی بیٹی فاطمہؓ کے ہاتھ کے گٹیّ بھی۔ نہیں، یقینا نہیں۔
نوفل کی بھتیجی، ورقہ کی چچا زاد بہن، زینبؓ، رقیہؓ، اُم کلثومؓ اور فاطمہ ؓ کی والدہ۔ قاسمؓ اور عبداللہؓ کی ماں۔ خدیجہؓ بنتِ خویلد بن اسدبن عبداُلعزّیٰ بِن قُصِّی کے لیے صرف تُّبرک اور 21 محرم کی نیاز اور خدیجہؓ کی کروڑوں بیٹیوں کے گھر بے قندیل، نئیِ پرِپروانہ می سُوزَد۔ نہ محبت کے چراغ، نہ ان میں گُھلتا ہوا چاہت کا تیل اور نہ ہی بھڑکتی ہو ئی لو، نہ چاہت کی گر می، نافدائیت کی سردبرداشت اور نہ ہی ذدوِیت کی خودسوزی، نہ ہی اَنا کی قتل گاہ اور نہ ہی یکتائی کی سان، مال کی طلب میں محبت کے مینڈھے کی قربانی، اتنے کمزور کاندھے کہ چاہ کا بوجھ بھی نہ اُٹھا سکیں۔ کھاجا بھی اور من بھاتا بھی۔ تو کیا اُن کی طلب کے اُبلے پتیّ بن کھا ئے ہی رہ جا ئیں گے اور ازدواج کے شگوفے بن کھلے ہی مر جا ئیں گے، طلائی مُہرپیتل کی مُہروں میں بدل کے اور نکاح نامے پہ ثبت ہو کے خوشیوں کی مقتل گا ہوں میں چراغاں کرے گی۔ میکہ اور سسرال دونوں خدیجہؓ کی زندگی سے خارج۔ جبکہ خدیجہ ؓ کی کر وڑوں بیٹیاں اِن دونوں جمرات کی سنگ باری میں مصروف بھی اور خود شکار بھی۔ تُس پہ مستزاد، جوف دار موتی کے محل کی طلب بھی۔ محمل بغیرِلیلیٰ، لیلیٰ بغیرِناقہ، ناقہ بغیرِبدَرقہ، سفر بغیر ِبدرقہ: بد انجام۔
اَب توجنتِّ معلی کی اُس پہاڑی پرجنگلا بھی لگ گیا ہے لیکن قبر اَب بھی وضاحت سے نظر آتی ہے اور اُسے نظربھی آنا چاہیے- صدیاں گُزرگئیں، اِس پہاڑی کی پگڈنڈیوں میں مزید صدیاں بھی اِسی طر ح گم ہوتی رہیں گی۔ چاہت کا چراغ یوں ہی جلتارہے گا۔ بقولِ موسیٰؑ، حواری ہوتے بھی پہاڑی کا چراغ ہیں۔ عیسیٰؑ کے کف ِدست پہ رکھا ہوا مینارئہ نور- راہ دکھاتا، جھلملاتا ہوا اَبدی ستارہٗ سمت۔ یہ چراغ بھی عجیب اور یہ پگڈنڈیاں عجیب تر۔
عجیب تر ہیں یہ پہاڑیاں بھی کہ زمین کامان اِنھی کے دم سے قائم ہے۔ یہی سُورۃجبال بھی کہتی ہے اور یہی علمِ جدید بھی۔
سالہا سال بعد ایک شام پھر سُرمئی ہوئی اور دَماّم، سعودی عرب میں اُتری – پھر میں نے سعودی عرب کی نقشوں اور قامُوسوں کی سب سے بڑی دکان سے چند نقشے خرید کیے۔ جیپ کے عقب میں گدّا ڈالا، نُقُل کا انبار، پانی اورشربتوں کا طومار باندھا اورصحرا کے سفر پہ روانہ ہوا۔ تقریباً دوہزار کلومیٹر، عشق کی شاہراہ پہ لمحوں کی صورت منجمد ومؤدَّب ہو گئے اور میں کھجور والے اورکالے گھر والے دو قدیم شہروں کے قدیم ترین راستے پہ بدر کے مقتل سے کُچھ پہلے، پھر ایک پہاڑی کے پاؤں میں سرجُھکائے کھڑا تھا۔ اس دفعہ تازیانے اِس قدر شدید تھے، کہ میری ٹانگوں نے سیاہیوں کی اِس پوٹ کا بوجھ اُٹھانے سے انکار ہی کردیا اور میں اُس خستہ حال اور منکسرِالمزاج گاؤں کے اکلوتے درزی کی خستہ تر دکان کے کچے فرش پہ ڈَھے پڑا- اِک بخیہ اُدھیڑا، ایک سیا- دِل ڈھونڈتا رہا، وہ بھی خاموش۔ آنکھوں کی جھیلوں میں بے پتوار سفینے، بے سمت رواں۔ لامتناہی سوچیں اور بے سکت جسم، اپنے پہ نفرین بھیجتا ہوا، بے خواہش وخشک زبان اپنے مالک کی جُراّت پہ حیران، بالآخر آمنہ کے لالؐ پہ دُرود سے ترہو ہی گئی۔ کہ یہ ویسا ہی ایک ٹیلہ، ویسی ہی ایک پہاڑی ہے، جس پہ خدیجہؓ کی ساس آرام فرما ہیں، جہاں خدیجہ ؓ کے شوہرِ مکرمؐ کی والدہ ماجدہ بی بی آمنہؓ سو رہی ہیں۔ کیا واقعی سو رہی ہیں، یا اپنی بہو کی بیٹیوں پہ نظردار ہیں۔ عجیب ہیں یہ پہاڑیاں۔ صرف زمین کا نہیں۔ عالمین کا۔ رحمت اُلِّلعالمینؐ کا وقار، نورٌ علیٰ نُور۔