اعظم علی
ہمارے ایک دوست جو ایک مستند لکھاری ہیں کئی میڈیا ہاؤسوں میں کام کرچکے ہیں آج فیس بُک پر ایک پوسٹ لکھی ہے جس میں انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ جب کسی حکومت کو فارغ کرنے کافیصلہ ہو چکا ہوتا ہے تو اس کے خلاف جھوٹی سچّی خبروں کا طوفان اُٹھا کر اسکے فراغت کے لئے ایک اسموک اسکرین تیار کیا جاتا ہے تاکہ عوام بغیر احتجاج کے قبول کرلیں دوسرے اسکے بعد ہونے والے انتخابات میں انہیں حمایت نہ مل سکے۔
اسکے لئے انہوں نے بینظیر کی حکومت کی مثال پیش کی تھی جس کے جانے کے بعد ہونے والے انتخابات میں صرف 18 سیٹیں مل سکیں۔ اس مثال کے بعد ہمارے بھائی کے لیے پاکستان کی تاریخ موجودہ سلطنت عمرانیہ تک خالی ہے۔
وہ اس “عظیم” حکومت کے عظیم کارناموں کے باوجود چھائی ہوئی مایوسی کو اسی تاریخ پر منطبق کرکے قوم کو “ابھی مایوس نہ ہونا” پانچ سال ہونے دو پھر بات مزے کی بات ہے کہ مثبت باتیں صرف دورپورٹوں کے اجراء کی حدتک جن میں چینی اسکینڈل میں تو مہابلی کو اپنے بیرم خان سے جان چھڑانے کا بہانہ تھا۔ دوسری طرف آئی پی کی رپورٹ “قومی مفاد” میں دبادی گئی۔
یہ بات سوفیصد درست ہے، جب کسی حکومت کو گھر بھیجنے کا فیصلہ ہوتا ہے تو اسکے خلاف منفی پروپیگنڈہ شروع ہوجاتا ہے۔ لیکن آپ بھی جانتے ہیں کہ کون کرتا کراتا ہے؟ اور آج وہ کس کے ساتھ “ایک پیچ” پر کھڑے ہیں؟
لیکن بات بھی پوری کرنی چاہیے۔۔محترم نے بینظیر کی حکومت کا ذکر کرتے ہوئے 2018 ء پر چھلانگ لگادی درمیان میں زراداری اور نواز شریف کی حکومت کا ذکر بڑی چابک دستی سے حذف کردیا۔چلیں زراداری کے دور میں بھی ایسا ہی ہوا تھا نجم سیٹھی کا آن آئیر ہاتھ جوڑنا یاد ہے؟؟
نواز شریف کے خلاف تو سارا میڈیا و اینکرز جس طرح سے لگے ہوئے تھے وہ کم تھا؟ بھائی مظلومیت کی بات کریں تو سب ہی کسی نہ کسی درجے میں اس۔ ہتھیار سے شکار کئیے گئے ہیں۔
دوسری طرف کچھ ذمہ داری مقتدر سیاستدانوں کی بھی ہے۔ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ اقتدار کے نشے میں مست اپنے خلاف اُبھرنے والی سچّی یا جھوٹی خبروں کو ذرہ برابر اہمیت نہیں دیتے۔وہ کبھی نہیں سمجھتے کہ انہیں اپنے معاملات میں عوام کے سامنے زیادہ شفّاف بلکہ whiter than white نظر آنا چاہیے۔ بعد میں یہ چھوٹی چھوٹی خبریں و افواہیں انکے خلاف ایف آئی آر بن کر سامنے آتی ہیں۔
بہت اچھا کہ بھائی نے حکومت کی چھٹّی میں “مقتدر” حلقوں کی پروپیگنڈہ مشین کے مبینہ کردار کا ذکر کردیا۔ماشاء اللہ کم از کم 1977ء کے بعد میں نے کوئی حکومت سوائے جنرلوں کی کے، ایسی نہیں دیکھی جو کہ ان سے زیادہ “ایک پیج” پر ہو۔۔ پھر بھی یہ کیسے شروع ہو گیا۔ اسکا جواب انکے اپنے گریبان میں ہے جھانکنے کی ضرورت کے کہ وہ زحمت گوارہ کریں تو۔
وفاقی وزیر ہوابازی کے بیان نے ملک کو جو “فائدہ “ دیا ہے اسکی تشریح مل جائے تو عنایت ہوگی۔ دوسری طرف پیٹرول کی قیمتوں میں کمی کے اعلان کے نفاذ میں شاندار ناکامی کے بعد ایک ماہ کے اندر ہی سجدہ سہو کر کے اس بات کا اعتراف کردیا یہ حکومت کم از کم قوت نافذہ سے محروم ہو چکی ہے۔
اور قوت نافذہ سے محروم حکومت کا رہنا نہ رہنا برابر ہے۔ وہ دوسال میں بھی ملک کو پیش آنے والا ہولناک حادثہ تھی اور، مزید تین سال کے بعد کیا بچّے گا اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ویسے بھی یہ بات یاد رکھیں پارلیمانی جمھوریت میں مدت وزیراعظم کی نہیں پارلیمنٹ کی ہوتی ہے، پارلیمنٹ وزیراعظم متعین کرتی ہے اور تبدیل بھی کرسکتی ہے۔
کبھی کسی اسٹاک ایکسچینج میں کام کرنے والے سے واقفیت ہے؟ انکے ہاں ایک اصطلاح ہوتی ہے کہ جب مارکیٹ مسلسل کساد بازاری کی طرف جارہی ہوتی ہے تو وہ اپنا سرمایہ ڈوبنے کا تماشا دیکھنے کی بجائے ایک مخصوص حدتک گرنے کی صورت میں فوری طور پر سارے حصص بیچ کر جو کچھ بچ گیا اسے محفوظ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسے cut loss کہتے ہیں۔
میرا خیال ہے کہ اس گرتی ہوئی حکومتی مارکیٹ میں اس کے ساتھ ڈوبنے ہی نہیں ملک کے ٹائیٹانک کو ڈبونے کی بجائے، جتنا نقصان ہو گیا اسے قبول کرکے آگے بڑھنے کاوقت ہے۔
It’s time to cut losses.