پرو فیسر احتشام خان
اکیسویں صدی کے ڈیجیٹل دور نے جہاں انسان کا طرز زندگی اچھے اور مثبت پہلو میں بدلا ہے وہیں اسکے منفی اثرات نے بھی انسان کو بے حد متاثر کیا ہے۔ ٹیکنالوجی کے منفی اثرات سب سے زیادہ بچوں پر مرتب ہوئے ہیں۔ اور سوشل میڈیا ایپس کے ساتھ سب سے زیادہ بچوں کو متاثر کرنے والی ایپس میں ٹک ٹاک، اور پب جی گیم ہیں۔
پب جی ایک ورچوئل گیم ہے جو ایپل سٹور اور اینڈروائڈ پلے سٹور میں موجود ہے۔ اس گیم کی ہر لابی میں کل 100 آن لائن بندے ہوتے ہیں۔ جو ایک جہاز میں بیٹھ کر گیم میں موجود نقشوں پہ اترتے ہیں۔ یہ نقشے زمین کے نقشے جیسے ہیں جن میں جنگل، پہاڑ، سمندر، سڑکیں اور گھر دیکھائے گئے ہیں۔ ان نقشوں میں برف باری اور صحرا کے نقشے بھی موجود ہیں جو انسان کو اپنے گرافکس کی وجہ سے لبھاتے اور دلفریب معلوم ہوتے ہیں۔ ان نقشوں کو فرضی نام بھی دیئے گئے ہیں جیسے ارینگل میں برطانوی طرز کے گھر اور پختہ سڑکیں دیکھائی گئی ہیں۔ مِرامار میں صحرا کی منظر کشی کی گئی ہے، وکینڈی میں برف باری جب کہ سنحوک میں جنگل کی منظر کشی کی گئی ہے۔ نقشوں کی ترتیب انسانی نفسیات کو اسقدر سمجھ کہ بنائی گئی ہے کہ ہر کھیلنے والے کے لیے دل لبھانے والے مناظر موجود ہیں۔ جبکہ پے لوڈ نامی میپ میں راکٹ لانچر اور ہیلی کاپٹر کے فیچرز جنگجو نفسیات کے مالک صارفین کے لیے بے حد متاثر کن ہیں۔
میپ میں جہاز سے بذریعہ پیراشوٹ اترنے کے بعد ہر پلئیر کے ورچوئل کریکٹر کا سب سے پہلا کام مختلف اقسام کی گنز اور دیگر سامان ڈھونڈنا ہوتا ہے۔ جن میں ہیلمٹ، ویسٹ، میڈیسنز جوسز، اور گولیاں (ایمو) شامل ہوتی ہیں۔ تاکہ کسی بھی دوسرے کردار سے مٹھ بھیڑ ہونے سے پہلے ہی بندوق ہاتھ لگ جائے اور خود کو پب جی کے میپ کی صفحہ ہستی سے مٹانے سے پہلے دوسرے کو ہی پب جی کے نقشے سے ہٹا کر دوبارہ لابی میں بھیج دیا جائے۔ مختصر یہ کہ لابی سے آئے تمام پلئریز کی آپس میں لڑائی ہوتی ہے۔ اور آخر تک بچ جانے والا جیت جاتا ہے۔ اور بڑے فخر سے کہتا ہے کہ میں نے آج چکن ڈنر کیا ہے۔ پب جی جیتنے والے کو ونر ونر چکن ڈنر کا عارضی ٹائٹل دیتی ہے۔
پب جی کھیلنے والے مختلف قسم کے لوگ ہوتے ہیں کچھ اپنے دوستوں کے ساتھ گپ شپ کرنے کی اور ٹائم پاس کرنے کی غرض سے کھیلتے ہیں۔ جب کہ اکثریت کھیلنے والوں کا مقصد گیم میں اپنی رینک بڑھانا اور گیم کی طرف سے دیئے گئے مختلف ٹائٹل پانا ہے۔ ان میں اکثریت بچوں کی ہے جو اپنے سکول میں اپنے کلاس فیلوز کو اپنی پب جی رینک اور زیادہ بندے مارنے کے اعدادوشمار سے متاثر کرتے ہیں۔ اور اپنی سوشل میڈیا پوسٹس پر گیم میں اچھی کارکردگی کے سکرین شارٹس شئیر کرتے نظر آتے ہیں۔ خود کو پرو پلئیر کھلوانے کا بادشاہی نشئہ اسقدر ہوتا ہے کہ یہ پرو پلئیرز والے ٹائٹل حاصل کرنے کے لیے دن رات ایک کر دیتے ہیں۔
انسان جو کام مسلسل کرتا یے اسی میں اس کی ایک خاص نفسیات بنتی ہے۔ گیمز بچوں کی نفسیات کو بہت متاثر کرتی ہیں۔ جس عمر میں بچوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے اس عمر میں ایسی ورچوئل گیمز جن میں اصل مقصد زیادہ قتل کرنا ہوتا ہے نفسیات خراب کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ بظاہر موبائل میں گیم کھیلتا بچہ کس طرح کی نفسیاتی کیفیت سے گزر رہا ہوتا ہے اسکا اندازہ والدین نہیں لگا سکتے۔ کیونکہ والدین کو نہیں پتہ ہوتا کہ وہ گیم میں کن مراحل اور مشکلات سے گزر رہا ہے جو اسکی نفسیات پر گہرے اثرات چھوڑ رہے ہیں۔
پوری دنیا میں اس گیم کو کھیلنے سے کئی المناک واقعات پیش آئے ہیں۔ سینکڑوں بچوں نے یا تو خودکشی جیسے اقدامات کیے ہیں یا دوسروں کو نقصان پہنچایا ہے. پچھلے دنوں گیم کی طرف سے دیئے گئے ایک ٹاسک کو وقت پر مکمل نا کرنے پر لاہور میں کم سن لڑکے نے خودکشی کر لی۔ ایسا ہی کچھ کورنگی میں ہوا۔ ایسے درجنوں واقعات پاکستان میں ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ انڈیا میں اس سے کہیں زیادہ ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ جن میں قابل ذکر شملہ میں شوہر کا بیوی کو گیم سے روکنے پر جان سے مار دینا ہے۔ پب جی کی طرز کا واقعہ ہمیں نیوزیلینڈ مسجد حملے میں بھی نظر آتا ہے۔ جہاں ذہنی مریض حملہ آوار نے گیم کی طرز پر مسلمانوں کو عبادت کے دوران شہید کیا۔
حکومت نے پاکستان میں پب جی پر پابندی لگا دی ہے۔ جو حکومت کا احسن اقدام ہے اور اسے ہر انسان کو سپورٹ بھی کرنا چاہیے کیونکہ اس طرح کی ورچوئل گیم ہمارے بچوں کے مستقبل کے ساتھ نا صرف کھیل رہی ہیں بلکہ انکا مستقبل داو پر لگانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ ہمیں اپنے کم سن بچوں کو ایسی چیزوں سے دور رکھ کر انکی صلاحیتیں پیداواری کاموں میں لگانے کی ضرورت ہے۔ اور یہ صرف ایسی گیمز اور ایپس پر پابندی لگا کر ہی ممکن ہے۔
صرف پب جی ہی نہیں بلکہ ایسی تمام شوٹنگ اور تشدد پر مبنی گیمز پر پابندی لگائی جانی چاہیے۔ گیمز کھیلنے والوں کے پاس اسکے حق میں بھی کافی دلیلیں ہوں گی۔ جس میں سب سے بڑی ٹائم اچھا گزر جاتا ہے ہوسکتی ہے۔ مگر اسکا خمیازہ بہت بڑا ہے جو نوجوانوں کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ وہ چاہے انکی شخصیت میں تشدد کی صورت میں سامنے آئے یا کریئر بنانے میں ناکامی کی صورت میں۔