احمد آفتاب
صحافی حساس لوگ ہوتے ہیں۔ جب معاشرے میں تلاطم ہو، بے چینی ہو اور ٹوٹ پھوٹ کا عمل تیز ہورہا ہو تو حقیقی صحافی کبھی اپنے آپ کو معاملات سے لاتعلق نہیں رکھ سکتا۔ ایسا ہی خالد گردیزی کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ آزاد کشمیر میں گزشتہ چار برس کے دوران، ڈیجیٹل صحافت کی نئی جہت کی بنیاد رکھ کر اسے منظم خطوط پر استوار کرنے والے معروف صحافی سے گفتگو کرکے مجھے یہی احساس ہوا۔ ایک سنجیدہ مزاج کے خالصتاً خبری ادارے کو، جو معاصر سے قطعاً مختلف اقدار پر کاربند ہے، جب کورونا بحران جیسی غیر متوقع صورت حال کا سامنا ہوا تو اس ادارے میں کیا کچھ بدل گیا۔ کیسے نئی ذمے داریوں کا اضافی بوجھ اٹھانے کے لیے ادارہ تیار ہوا اور محض چند دن میں ایک کُل وقتی، پیشہ ور صحافی، کون کون سے نئے کردار ادا کرنے لگا۔ کیونکر اسے سوچنا پڑا کہ زندگی کا دھارا یکسر بدلنے کی ضرورت ہے اور سفر کہاں سے شروع ہوگا؟۔
کوئی وقت تھا کہ خطے میں ڈھونڈے سے بھی مقامی اخبار نہیں ملتا تھا کیونکہ ڈیکلریشن لینا ہمالیہ سر کرنے کے مترادف تھا۔ صحافی کئی تھے مگر بیشتر نامہ نگاری کرتے تھے۔ جامعات میں صحافت کی تعلیم کا تصور ناپید تھا اور ریڈیو یا ٹی وی پر نظر آنے والے اکثر صحافی اسٹیشن کی حدود میں جانے سے پہلے، قلم کی آزادی اور شخصی اظہار کی سوچ کو باہر ہی چھوڑ کر اندر جاتے تھے۔
پھر آہستہ آہستہ کچھ دیوانوں کی کاوشوں اور جدوجہد کے نتیجے میں مقامی اخبارات اور صحافت کے حق میں آوازیں اٹھنی شروع ہوئیں جنہوں نے تھوڑی ہی مدت میں اتنا زور پکڑا کہ گویا آزاد کشمیر میں اخبارات اور رسائل و جرائد سمیت پرائیویٹ ریڈیو اسٹیشنز اور اس کے بعد یو ٹیوب چینلز کا سیلاب سا آگیا۔
اب آزاد کشمیر سے چالیس سے زیادہ اخبارات شائع ہورہے ہیں جہاں دیدہ ور اور باصلاحیت ایڈیٹرز کی سربراہی میں جونئیر اور سینئیر صحافیوں کی ٹیمیں محنت اور جانفشانی سے قلم کی مزدوری کررہی ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز ہیں اور کئی ویب ٹی وی چینلز اور کیبل چینلز بھی بن گئے ہیں۔
میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے گزشتہ تین سال کے دوران، آزاد کشمیر کے طول و عرض میں تمام سطح کے صحافیوں سے ملاقات کا موقع ملا۔ سچ پوچھیں تو میں ان ملاقاتوں میں متعدد سینئیر اور نوجوان صحافیوں کی استعداد اور کمٹ منٹ سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ ان میں سے کئی بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے ساتھ بھی خدمات انجام دے رہے ہیں اور متعدد کو صحافتی خدمات پر ملکی و غیرملکی اعزازات بھی مل چکے ہیں۔ ادھر کچھ ایسے بھی ہیں، جو قید و بند کی صعوبتیں اور پابندیاں جھیل رہے ہیں مگر مفاہمت کو تیار نہیں اور اپنی راہ پر قائم ہیں۔ آزاد کشمیر کے ہر ضلع میں پریس کلب منظم ہوگئے ہیں اور عباس پور میں قائم پریس کلب کو پاکستان اور آزاد کشمیر کی پہلی خاتون صدر منتخب کرنے کا اعزاز بھی مل چکا ہے۔ باغ میں ایک صحافی پر گزشتہ برسوں کے دوران، دبائو ڈالنے کے لیے بتیس کروڑ روپے کے ہتکِ عزت کے مقدمات قائم ہوچکے ہیں مگر اس کے پائے ثبات میں سرِ مو لغزش نہیں ہے۔ الغرض، اہلِ صحافت کی بوقلمونی پوری طرح قائم ہے اور چمنِ صحافت خوب مہک رہا ہے۔
کورونا وائرس کی وبا کو عوام نامہ کے ذریعے، نئے انداز میں دیکھنے اور دکھانے کے دوران مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ آزاد کشمیر میں صحافت پر اس کے اثرات کا جائزہ لیا جائے۔ لہٰذا نگاہِ انتخاب جناب خالد گردیزی پر ٹہری، جو نہ صرف اس حوالے سے خاطر خواہ روابط رکھتے ہیں، بلکہ متعلقہ امور کے بارے میں باخبر بھی ہیں، اور ٹیکنالوجی سے بھی کماحقہ شناسا ہیں جو ان دنوں گفتگو کو ممکن بنانے کے لیے نہایت ضروری ہے۔
خالد گردیزی، آزاد کشمیر کے نوجوان صحافیوں کی نئی نسل میں ایک توانا اضافہ ہیں جو اپنے پندرہ برس کے صحافتی کیرئیر میں متعدد سنگِ میل عبور کرچکے ہیں۔ انہوں نے بیٹ رپورٹنگ سے لے کر اسپیشل اسائنمنٹس اور ایکس کلیوسو اسٹوریز تک ہر میدان میں معرکے سر کیے ہیں۔ پھر ایک دہائی تک پرنٹ میڈیا میں جوہر دکھانے کے بعد، انہوں نے ازاد کشمیر میں ڈیجیٹل میڈیا کی داغ بیل ڈالی اور چار سال پہلے اپنا ادارہ ‘اسٹیٹ ویوز’ کے نام سے قائم کیا جو آزاد کشمیر کا پہلا منظم ڈیجیٹل نیوز پلیٹ فارم تھا۔ سنجیدہ صحافت کو فروغ دینے والی یہ منفرد کاوش، جلد ہی مستحکم ہوئی اور اسے عوامی اور سرکاری حلقوں میں یکساں پسندیدگی ملی۔ صرف یہی نہیں، بلکہ اب اسٹیٹ ویوز کو، سرحد کی دوسری جانب، مقبوضہ کشمیر میں بھی پاکستان سے متعلق خبروں اور آزاد کشمیر سے متعلق اطلاعات کا مقبول ذریعہ ہونے کا اعزاز مل گیا ہے۔ حالیہ دنوں میں، جب بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈائون کیا اور اخبارات سمیت مقامی ذرائع ابلاغ کو معطل کردیا تو اسٹیٹ ویوز کی ویب سائٹ اور سوشل میڈیا چینلز دونوں اطراف کے کشمیریوں کے لیے رابطے کا پُل بن گئی جس کے ذریعے وہ دوطرفہ رابطہ رکھ سکتے تھے۔ اب اس کی روزانہ ویورشپ لاکھوں میں ہے جس میں امریکا، یورپ، کینیڈا اور خلیجی ممالک میں بسے کشمیری بھی شامل ہیں۔
اسٹیٹ ویوز کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس کی کاوشوں کی بدولت، اب ریاستِ آزاد کشمیر کی حکومت اس خطے کی پہلی سرکاری طور پر منظور شدہ، ڈیجیٹل میڈیا پالیسی منظور کرچکی ہے اور اس معاملے میں اسے حکومتِ پاکستان پر ایک قدم کی سبقت حاصل ہے۔ یہ سبقت خالد گردیزی اور ان کی ٹیم کی بدولت ہے جو ڈیجیٹل میڈیا کو مستقبل کا میڈیا مان کر، یہاں نئی روایات اور اقدار کو مستحکم کررہے ہیں اور اس قافلے کی قیادت کررہے ہیں۔
تو دیکھیے کہ انٹرنیٹ پر ہونے والی یہ گفتگو آپ کو کورونا وبا کے دوران ایک صحافی کی زندگی کے کیا کیا رنگ اور روپ دکھاتی ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ کس طرح ایک صحافتی ادارہ، وقت پڑنے پر، چشمِ زدن میں اپنی ماہئیت تبدیل کرتا ہے اور عوام کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہوجاتا ہے۔ کیسے ضرورتیں اپنا راستا خودبخود بناتی ہوئی صحافی تک پہنچتی ہیں اور وہ منٹوں میں ان کے منفرد حل تلاش کرکے، آگے بڑھ جاتا ہے، نئی خبروں اور تجزیوں کی تلاش میں۔
جب ہم نے یہ گفتگو کی تب خالد گردیزی اپنے گائوں میں آبائی گھر میں تھے۔ سگنل کی خرابی کے باعث کئی بار آواز ٹوٹ گئی اور رابطہ منقطع ہوگیا۔ پھر بھی ہم نے وہ وہ سب باتیں کر ہی لیں، جو پوچھنی ضروری تھیں، جو کہنی ضروری تھیں۔
عوام نامہ کی اس حوصلہ بڑھانے والی گفتگو کے بارے میں آپ کی رائے کا میں منتظر ہوں۔ اب آپ کورونا بحران میں جب ہم سب بدل گئے،
کورونا بحران میں جب ہم سب بدل گئے، اوپر وڈیو میں تبدیلی کی یہی انوکھی داستان بیان کی گئی ہے، دیکھئے اور فیصلہ لیجئے۔