Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
افضل عاجز
کچھ سال پہلے ہم نے ایک گھر کراے پہ لیا گھر کیا تھا ایک چھوٹا سا کمرہ آگے کچن، کچن کے ساتھ باتھ روم آگے ایک چارپائی کا صحن اس سے آگے مالک مکان کے گھر کی طرف کھلنے والا دروازہ جو اب انہوں نے بند کردیا تھا
علی اس وقت تین چار سال کا تھا یہ گھر جیل روڈ والے آفس کے قریب تھا کسی بھی سلسلے میں اچانک آفس طلبی کی صورت میں میرے پندرہ منٹ لگتے تھے
ہمارے لیے رہائشی کمرہ ہی سب کچھ تھا کھانا کھاتے تو یہ دستر خوان بن جاتا بیگم کے ساتھ توتو میں کے وقت میدان بن جاتا علی صاحب کا موڈ ہوتا تو ہمیں گھوڑا بنا کے پارک کے جھولے جیسے مزے بھی اسی کمرے میں مل جاتے ٹی وی کا ریموٹ ہمیشہ علی کے ہاتھ میں رہتا کبھی یہ کارٹون تو کبھی وہ کارٹون لگاے رکھتا ہم میاں بیوی دیکھتے تو کتنے کارٹون دیکھتے سو ہم عموماً ایک دوسرے کو دیکھتے رہتے سو کہنے دیجئیے کے ان ہی دنوں میں ہم نے بیگم کو اتنا دیکھا کہ اس کے بعد کسی اور کی طرف دیکھنے کی حاجت ہی نہ رہی…………
یہ گھر دراصل گھر کے ایک حصے میں بنائی جانے والی بیٹھک تھی مگر اب مالک مکان کے حالات کچھ اچھے نہیں تھے سو انہوں نے یہ بیٹھک کراے پہ لگادی پہلے پہل ہمارا خیال تھا کہ جہاں مالک مکان یعنی پچھلے حصے میں رہتے ہیں کافی لمبی چوڑی جگہ ہوگی مگر دودن بعد بیگم نے کہا:
مالکان کے مقابلے میں ہم تو جنت میں رہتے ہیں………
میرے پوچھنے پر بتایا کہ گھر کے پچھلے حصے کی جگہ ہمارے بیٹھک نما گھر سے بھی کم ہے ایک چارپائی کا کمرہ اسی کمرے کے ایک کونے میں ایک چولہا اور اس کے اردگرد کھانے پینے کی اشیاء رکھی ہوئی ہیں جبکہ ایک کبوتروں کے کھڈے جتنا باتھ روم ہے جس میں رکوع کی حالت میں داخل ہوا جاسکتا ہے ساتھ ہی ان کازمینی بستر لگا ہوا ہے۔یہ دو بزرگ میاں بیوی ہیں تین ان کے بیٹے ہیں جو بیاہ کے بعد کسی اور جگہ شفٹ ہو گئے ہیں یہ جگہ کافی بڑی تھی۔بیٹوں نے اپنا اپنا حصہ وصول کر کے بیچ دیا ایک ان کی بیٹی جو فیصل آباد بیاہی ہوئی ہے کبھی کبھی چکر لگاتی ہے۔
میں نے بیگم کی زبانی تفصیل سنی تو اسے کہا کہ ان کا خیال رکھا کرو ۔ دوسرے دن بیگم نے کچھ سالن انہیں دیا تو انہوں نے شکریہ کے ساتھ قبول تو کر لیا مگر ساتھ ہی کہا:
پ ایسی تکلیف نہ کیا کریں ہمارے پاس وافر ہر شے موجود ہوتی ہے یعنی ہمارے درمیان انا دیوار بن گئی۔
میں نے بیگم کو مشورہ دیا کہ تم ان کے گھر جا کے کہا کرو:
یہ سالن رکھ لو اور اپنا دے دو کیونکہ علی کے ابا کو پسند نہیں آیا تو سوچا آپ سے مانگ لوں یہ مشورہ کام آیا تو ہمارے درمیان. مانگ تانگ. کا سلسلہ شروع ہوگیا…….
بڑے میاں کی آواز بہت اچھی تھی وہ کبھی کبھی اونچی آواز میں ہیر پڑھتے تو لطف اجاتا سو مجھے بھی ہارمونیم بجانے کا راستہ مل گیا اب ہم دونوں ایک دوسرے بھی کھل چکے تھے یعنی ایک فنکار کو پرستار مل گیا…………
ہمارا یہ مختصر گھر ایک انتہائی خوبصورت سرخ رنگ کی دس فٹ اونچی اور جوبیس انچ چوڑی دیوار کے عقب میں تھا لمبائی میں یہ دیوار تقریباً پانچ کنال رقبے پر پھیلی ہوئی تھی جیسے ہمارے شاہی قلعہ کی دیوار ہے۔
میں گھر آنے کیلئے درمیان والی گلی استعمال کرتا تھا جب تھوڑا آگے سے ایک اور گلی بھی ادھر کو آتی تھی مگر میں ادھر سے کبھی نہ آیا دیوار کے بارے میرا خیال تھا کہ شاید یہ علاقے کے چوہدری کی قدیم حویلی ہے جس میں وہ رہتے ہیں
ایک دن میں جس گلی سے گزرتا تھا وہ بند پڑی تھی پولیس والوں نے ایک بورڈ پہ لکھا ہوا تھا یہ گلی آگے سے بند بحکم انسپکٹر پولیس تھانہ وغیرہ وغیرہ چونکہ راستہ بھی بیرر لگا کے بند کررکھا تھا تو میں دوسرے راستے کو چل پڑا مگر یہ بات میں نے سن لی کے گلی میں کوئی ڈی ایس پی صاحب نے رہائش رکھی سو انہوں نے گلی بند کردی ہے۔
دوسرے راستے سے مڑا تو پھر وہی سرخ دیوار میرے سامنے تھی تھوڑا آگے ایک بہت بڑا دروازہ شاہی قلعہ کے دروازے جیسا مگر اونچائی تھوڑی کم تھی لکڑی کا خوبصورت کام کہیں کہیں نظر ارہا تھا مگر زیادہ تر ٹھوٹ پھوٹ چکا تھا
جسے دیکھ کر میرے منہ سے نکلا
آثار ڈسیندن چہرے دے کیں وقت دا تاج محل ہا…….
مگر میں نے محسوس کیا جسے میں حویلی سمجھ رہا ہوں اس کے اندر تو چھوٹے چھوٹے گھر ہیں ایک ننگ دھڑ بچے کو ایک مرغی کے پیچھے دوڑتے دیکھا تو اندر کا سارا منظر نامہ سمجھ میں آگیا۔
مالک مکان آج خلاف توقع عصر کے وقت ہیر گا رہا تھا بول تو مجھے یاد نہیں مگر ان کا مفہوم ہیر کے سیدے کھیڑے
کے ساتھ زبردستی نکاح کے حوالے سے تھے وہ ہیر کی بے بسی پہ لکھے ان اشعار کو درد کے ہزار رنگ دے کر پڑھ رہا تھا شاید وہ خود کو ہیر کی طرح بے بس محسوس کر رہا تھا مجھے دیکھا تو ہاتھ سے آنسوں صاف کرتے ہوئے مسکرا دیا میں نے انسووں کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے واپس لانے کی کوشش کرتے ہوئے چند رسمی جملوں کے بعد پوچھا:
چاچا یہ بڑی حویلی کس کی ہے………
اس نے ایک نظر حویلی کی سرخ دیوار پر ڈالی اور کہا یہ حویلی نہیں اس علاقے کا سب سے بڑا مندر تھا میں نے کہا اس میں کون رہتا ہے اس نے بتایا اس میں کم از کم دو سو کے قریب لوگ رہتے ہیں۔ میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں اس نے کہا یہ سب کرایہ دار ہیں میں پھر پوچھا کیا کرایہ سرکار لیتی ہے اس نے کہا نہیں.. فلاں صاحب.. لیتے ہیں میں نے کہا ایک طرح سے تو اچھا ہوا مندر ختم ہوگیا اس ہندو ازم پھیلتا اس نے کہا:
سنو! ارگرد پچاس مسجدیں ہیں ان مسجدوں کی وجہ سے اگر ہم اچھے مسلمان نہیں بن سکے تو ایک مندر کی وجہ سے ہمارے ایمان کیسے بگڑ سکتے تھے…………… ؟
افضل عاجز
کچھ سال پہلے ہم نے ایک گھر کراے پہ لیا گھر کیا تھا ایک چھوٹا سا کمرہ آگے کچن، کچن کے ساتھ باتھ روم آگے ایک چارپائی کا صحن اس سے آگے مالک مکان کے گھر کی طرف کھلنے والا دروازہ جو اب انہوں نے بند کردیا تھا
علی اس وقت تین چار سال کا تھا یہ گھر جیل روڈ والے آفس کے قریب تھا کسی بھی سلسلے میں اچانک آفس طلبی کی صورت میں میرے پندرہ منٹ لگتے تھے
ہمارے لیے رہائشی کمرہ ہی سب کچھ تھا کھانا کھاتے تو یہ دستر خوان بن جاتا بیگم کے ساتھ توتو میں کے وقت میدان بن جاتا علی صاحب کا موڈ ہوتا تو ہمیں گھوڑا بنا کے پارک کے جھولے جیسے مزے بھی اسی کمرے میں مل جاتے ٹی وی کا ریموٹ ہمیشہ علی کے ہاتھ میں رہتا کبھی یہ کارٹون تو کبھی وہ کارٹون لگاے رکھتا ہم میاں بیوی دیکھتے تو کتنے کارٹون دیکھتے سو ہم عموماً ایک دوسرے کو دیکھتے رہتے سو کہنے دیجئیے کے ان ہی دنوں میں ہم نے بیگم کو اتنا دیکھا کہ اس کے بعد کسی اور کی طرف دیکھنے کی حاجت ہی نہ رہی…………
یہ گھر دراصل گھر کے ایک حصے میں بنائی جانے والی بیٹھک تھی مگر اب مالک مکان کے حالات کچھ اچھے نہیں تھے سو انہوں نے یہ بیٹھک کراے پہ لگادی پہلے پہل ہمارا خیال تھا کہ جہاں مالک مکان یعنی پچھلے حصے میں رہتے ہیں کافی لمبی چوڑی جگہ ہوگی مگر دودن بعد بیگم نے کہا:
مالکان کے مقابلے میں ہم تو جنت میں رہتے ہیں………
میرے پوچھنے پر بتایا کہ گھر کے پچھلے حصے کی جگہ ہمارے بیٹھک نما گھر سے بھی کم ہے ایک چارپائی کا کمرہ اسی کمرے کے ایک کونے میں ایک چولہا اور اس کے اردگرد کھانے پینے کی اشیاء رکھی ہوئی ہیں جبکہ ایک کبوتروں کے کھڈے جتنا باتھ روم ہے جس میں رکوع کی حالت میں داخل ہوا جاسکتا ہے ساتھ ہی ان کازمینی بستر لگا ہوا ہے۔یہ دو بزرگ میاں بیوی ہیں تین ان کے بیٹے ہیں جو بیاہ کے بعد کسی اور جگہ شفٹ ہو گئے ہیں یہ جگہ کافی بڑی تھی۔بیٹوں نے اپنا اپنا حصہ وصول کر کے بیچ دیا ایک ان کی بیٹی جو فیصل آباد بیاہی ہوئی ہے کبھی کبھی چکر لگاتی ہے۔
میں نے بیگم کی زبانی تفصیل سنی تو اسے کہا کہ ان کا خیال رکھا کرو ۔ دوسرے دن بیگم نے کچھ سالن انہیں دیا تو انہوں نے شکریہ کے ساتھ قبول تو کر لیا مگر ساتھ ہی کہا:
پ ایسی تکلیف نہ کیا کریں ہمارے پاس وافر ہر شے موجود ہوتی ہے یعنی ہمارے درمیان انا دیوار بن گئی۔
میں نے بیگم کو مشورہ دیا کہ تم ان کے گھر جا کے کہا کرو:
یہ سالن رکھ لو اور اپنا دے دو کیونکہ علی کے ابا کو پسند نہیں آیا تو سوچا آپ سے مانگ لوں یہ مشورہ کام آیا تو ہمارے درمیان. مانگ تانگ. کا سلسلہ شروع ہوگیا…….
بڑے میاں کی آواز بہت اچھی تھی وہ کبھی کبھی اونچی آواز میں ہیر پڑھتے تو لطف اجاتا سو مجھے بھی ہارمونیم بجانے کا راستہ مل گیا اب ہم دونوں ایک دوسرے بھی کھل چکے تھے یعنی ایک فنکار کو پرستار مل گیا…………
ہمارا یہ مختصر گھر ایک انتہائی خوبصورت سرخ رنگ کی دس فٹ اونچی اور جوبیس انچ چوڑی دیوار کے عقب میں تھا لمبائی میں یہ دیوار تقریباً پانچ کنال رقبے پر پھیلی ہوئی تھی جیسے ہمارے شاہی قلعہ کی دیوار ہے۔
میں گھر آنے کیلئے درمیان والی گلی استعمال کرتا تھا جب تھوڑا آگے سے ایک اور گلی بھی ادھر کو آتی تھی مگر میں ادھر سے کبھی نہ آیا دیوار کے بارے میرا خیال تھا کہ شاید یہ علاقے کے چوہدری کی قدیم حویلی ہے جس میں وہ رہتے ہیں
ایک دن میں جس گلی سے گزرتا تھا وہ بند پڑی تھی پولیس والوں نے ایک بورڈ پہ لکھا ہوا تھا یہ گلی آگے سے بند بحکم انسپکٹر پولیس تھانہ وغیرہ وغیرہ چونکہ راستہ بھی بیرر لگا کے بند کررکھا تھا تو میں دوسرے راستے کو چل پڑا مگر یہ بات میں نے سن لی کے گلی میں کوئی ڈی ایس پی صاحب نے رہائش رکھی سو انہوں نے گلی بند کردی ہے۔
دوسرے راستے سے مڑا تو پھر وہی سرخ دیوار میرے سامنے تھی تھوڑا آگے ایک بہت بڑا دروازہ شاہی قلعہ کے دروازے جیسا مگر اونچائی تھوڑی کم تھی لکڑی کا خوبصورت کام کہیں کہیں نظر ارہا تھا مگر زیادہ تر ٹھوٹ پھوٹ چکا تھا
جسے دیکھ کر میرے منہ سے نکلا
آثار ڈسیندن چہرے دے کیں وقت دا تاج محل ہا…….
مگر میں نے محسوس کیا جسے میں حویلی سمجھ رہا ہوں اس کے اندر تو چھوٹے چھوٹے گھر ہیں ایک ننگ دھڑ بچے کو ایک مرغی کے پیچھے دوڑتے دیکھا تو اندر کا سارا منظر نامہ سمجھ میں آگیا۔
مالک مکان آج خلاف توقع عصر کے وقت ہیر گا رہا تھا بول تو مجھے یاد نہیں مگر ان کا مفہوم ہیر کے سیدے کھیڑے
کے ساتھ زبردستی نکاح کے حوالے سے تھے وہ ہیر کی بے بسی پہ لکھے ان اشعار کو درد کے ہزار رنگ دے کر پڑھ رہا تھا شاید وہ خود کو ہیر کی طرح بے بس محسوس کر رہا تھا مجھے دیکھا تو ہاتھ سے آنسوں صاف کرتے ہوئے مسکرا دیا میں نے انسووں کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے واپس لانے کی کوشش کرتے ہوئے چند رسمی جملوں کے بعد پوچھا:
چاچا یہ بڑی حویلی کس کی ہے………
اس نے ایک نظر حویلی کی سرخ دیوار پر ڈالی اور کہا یہ حویلی نہیں اس علاقے کا سب سے بڑا مندر تھا میں نے کہا اس میں کون رہتا ہے اس نے بتایا اس میں کم از کم دو سو کے قریب لوگ رہتے ہیں۔ میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں اس نے کہا یہ سب کرایہ دار ہیں میں پھر پوچھا کیا کرایہ سرکار لیتی ہے اس نے کہا نہیں.. فلاں صاحب.. لیتے ہیں میں نے کہا ایک طرح سے تو اچھا ہوا مندر ختم ہوگیا اس ہندو ازم پھیلتا اس نے کہا:
سنو! ارگرد پچاس مسجدیں ہیں ان مسجدوں کی وجہ سے اگر ہم اچھے مسلمان نہیں بن سکے تو ایک مندر کی وجہ سے ہمارے ایمان کیسے بگڑ سکتے تھے…………… ؟
افضل عاجز
کچھ سال پہلے ہم نے ایک گھر کراے پہ لیا گھر کیا تھا ایک چھوٹا سا کمرہ آگے کچن، کچن کے ساتھ باتھ روم آگے ایک چارپائی کا صحن اس سے آگے مالک مکان کے گھر کی طرف کھلنے والا دروازہ جو اب انہوں نے بند کردیا تھا
علی اس وقت تین چار سال کا تھا یہ گھر جیل روڈ والے آفس کے قریب تھا کسی بھی سلسلے میں اچانک آفس طلبی کی صورت میں میرے پندرہ منٹ لگتے تھے
ہمارے لیے رہائشی کمرہ ہی سب کچھ تھا کھانا کھاتے تو یہ دستر خوان بن جاتا بیگم کے ساتھ توتو میں کے وقت میدان بن جاتا علی صاحب کا موڈ ہوتا تو ہمیں گھوڑا بنا کے پارک کے جھولے جیسے مزے بھی اسی کمرے میں مل جاتے ٹی وی کا ریموٹ ہمیشہ علی کے ہاتھ میں رہتا کبھی یہ کارٹون تو کبھی وہ کارٹون لگاے رکھتا ہم میاں بیوی دیکھتے تو کتنے کارٹون دیکھتے سو ہم عموماً ایک دوسرے کو دیکھتے رہتے سو کہنے دیجئیے کے ان ہی دنوں میں ہم نے بیگم کو اتنا دیکھا کہ اس کے بعد کسی اور کی طرف دیکھنے کی حاجت ہی نہ رہی…………
یہ گھر دراصل گھر کے ایک حصے میں بنائی جانے والی بیٹھک تھی مگر اب مالک مکان کے حالات کچھ اچھے نہیں تھے سو انہوں نے یہ بیٹھک کراے پہ لگادی پہلے پہل ہمارا خیال تھا کہ جہاں مالک مکان یعنی پچھلے حصے میں رہتے ہیں کافی لمبی چوڑی جگہ ہوگی مگر دودن بعد بیگم نے کہا:
مالکان کے مقابلے میں ہم تو جنت میں رہتے ہیں………
میرے پوچھنے پر بتایا کہ گھر کے پچھلے حصے کی جگہ ہمارے بیٹھک نما گھر سے بھی کم ہے ایک چارپائی کا کمرہ اسی کمرے کے ایک کونے میں ایک چولہا اور اس کے اردگرد کھانے پینے کی اشیاء رکھی ہوئی ہیں جبکہ ایک کبوتروں کے کھڈے جتنا باتھ روم ہے جس میں رکوع کی حالت میں داخل ہوا جاسکتا ہے ساتھ ہی ان کازمینی بستر لگا ہوا ہے۔یہ دو بزرگ میاں بیوی ہیں تین ان کے بیٹے ہیں جو بیاہ کے بعد کسی اور جگہ شفٹ ہو گئے ہیں یہ جگہ کافی بڑی تھی۔بیٹوں نے اپنا اپنا حصہ وصول کر کے بیچ دیا ایک ان کی بیٹی جو فیصل آباد بیاہی ہوئی ہے کبھی کبھی چکر لگاتی ہے۔
میں نے بیگم کی زبانی تفصیل سنی تو اسے کہا کہ ان کا خیال رکھا کرو ۔ دوسرے دن بیگم نے کچھ سالن انہیں دیا تو انہوں نے شکریہ کے ساتھ قبول تو کر لیا مگر ساتھ ہی کہا:
پ ایسی تکلیف نہ کیا کریں ہمارے پاس وافر ہر شے موجود ہوتی ہے یعنی ہمارے درمیان انا دیوار بن گئی۔
میں نے بیگم کو مشورہ دیا کہ تم ان کے گھر جا کے کہا کرو:
یہ سالن رکھ لو اور اپنا دے دو کیونکہ علی کے ابا کو پسند نہیں آیا تو سوچا آپ سے مانگ لوں یہ مشورہ کام آیا تو ہمارے درمیان. مانگ تانگ. کا سلسلہ شروع ہوگیا…….
بڑے میاں کی آواز بہت اچھی تھی وہ کبھی کبھی اونچی آواز میں ہیر پڑھتے تو لطف اجاتا سو مجھے بھی ہارمونیم بجانے کا راستہ مل گیا اب ہم دونوں ایک دوسرے بھی کھل چکے تھے یعنی ایک فنکار کو پرستار مل گیا…………
ہمارا یہ مختصر گھر ایک انتہائی خوبصورت سرخ رنگ کی دس فٹ اونچی اور جوبیس انچ چوڑی دیوار کے عقب میں تھا لمبائی میں یہ دیوار تقریباً پانچ کنال رقبے پر پھیلی ہوئی تھی جیسے ہمارے شاہی قلعہ کی دیوار ہے۔
میں گھر آنے کیلئے درمیان والی گلی استعمال کرتا تھا جب تھوڑا آگے سے ایک اور گلی بھی ادھر کو آتی تھی مگر میں ادھر سے کبھی نہ آیا دیوار کے بارے میرا خیال تھا کہ شاید یہ علاقے کے چوہدری کی قدیم حویلی ہے جس میں وہ رہتے ہیں
ایک دن میں جس گلی سے گزرتا تھا وہ بند پڑی تھی پولیس والوں نے ایک بورڈ پہ لکھا ہوا تھا یہ گلی آگے سے بند بحکم انسپکٹر پولیس تھانہ وغیرہ وغیرہ چونکہ راستہ بھی بیرر لگا کے بند کررکھا تھا تو میں دوسرے راستے کو چل پڑا مگر یہ بات میں نے سن لی کے گلی میں کوئی ڈی ایس پی صاحب نے رہائش رکھی سو انہوں نے گلی بند کردی ہے۔
دوسرے راستے سے مڑا تو پھر وہی سرخ دیوار میرے سامنے تھی تھوڑا آگے ایک بہت بڑا دروازہ شاہی قلعہ کے دروازے جیسا مگر اونچائی تھوڑی کم تھی لکڑی کا خوبصورت کام کہیں کہیں نظر ارہا تھا مگر زیادہ تر ٹھوٹ پھوٹ چکا تھا
جسے دیکھ کر میرے منہ سے نکلا
آثار ڈسیندن چہرے دے کیں وقت دا تاج محل ہا…….
مگر میں نے محسوس کیا جسے میں حویلی سمجھ رہا ہوں اس کے اندر تو چھوٹے چھوٹے گھر ہیں ایک ننگ دھڑ بچے کو ایک مرغی کے پیچھے دوڑتے دیکھا تو اندر کا سارا منظر نامہ سمجھ میں آگیا۔
مالک مکان آج خلاف توقع عصر کے وقت ہیر گا رہا تھا بول تو مجھے یاد نہیں مگر ان کا مفہوم ہیر کے سیدے کھیڑے
کے ساتھ زبردستی نکاح کے حوالے سے تھے وہ ہیر کی بے بسی پہ لکھے ان اشعار کو درد کے ہزار رنگ دے کر پڑھ رہا تھا شاید وہ خود کو ہیر کی طرح بے بس محسوس کر رہا تھا مجھے دیکھا تو ہاتھ سے آنسوں صاف کرتے ہوئے مسکرا دیا میں نے انسووں کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے واپس لانے کی کوشش کرتے ہوئے چند رسمی جملوں کے بعد پوچھا:
چاچا یہ بڑی حویلی کس کی ہے………
اس نے ایک نظر حویلی کی سرخ دیوار پر ڈالی اور کہا یہ حویلی نہیں اس علاقے کا سب سے بڑا مندر تھا میں نے کہا اس میں کون رہتا ہے اس نے بتایا اس میں کم از کم دو سو کے قریب لوگ رہتے ہیں۔ میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں اس نے کہا یہ سب کرایہ دار ہیں میں پھر پوچھا کیا کرایہ سرکار لیتی ہے اس نے کہا نہیں.. فلاں صاحب.. لیتے ہیں میں نے کہا ایک طرح سے تو اچھا ہوا مندر ختم ہوگیا اس ہندو ازم پھیلتا اس نے کہا:
سنو! ارگرد پچاس مسجدیں ہیں ان مسجدوں کی وجہ سے اگر ہم اچھے مسلمان نہیں بن سکے تو ایک مندر کی وجہ سے ہمارے ایمان کیسے بگڑ سکتے تھے…………… ؟
افضل عاجز
کچھ سال پہلے ہم نے ایک گھر کراے پہ لیا گھر کیا تھا ایک چھوٹا سا کمرہ آگے کچن، کچن کے ساتھ باتھ روم آگے ایک چارپائی کا صحن اس سے آگے مالک مکان کے گھر کی طرف کھلنے والا دروازہ جو اب انہوں نے بند کردیا تھا
علی اس وقت تین چار سال کا تھا یہ گھر جیل روڈ والے آفس کے قریب تھا کسی بھی سلسلے میں اچانک آفس طلبی کی صورت میں میرے پندرہ منٹ لگتے تھے
ہمارے لیے رہائشی کمرہ ہی سب کچھ تھا کھانا کھاتے تو یہ دستر خوان بن جاتا بیگم کے ساتھ توتو میں کے وقت میدان بن جاتا علی صاحب کا موڈ ہوتا تو ہمیں گھوڑا بنا کے پارک کے جھولے جیسے مزے بھی اسی کمرے میں مل جاتے ٹی وی کا ریموٹ ہمیشہ علی کے ہاتھ میں رہتا کبھی یہ کارٹون تو کبھی وہ کارٹون لگاے رکھتا ہم میاں بیوی دیکھتے تو کتنے کارٹون دیکھتے سو ہم عموماً ایک دوسرے کو دیکھتے رہتے سو کہنے دیجئیے کے ان ہی دنوں میں ہم نے بیگم کو اتنا دیکھا کہ اس کے بعد کسی اور کی طرف دیکھنے کی حاجت ہی نہ رہی…………
یہ گھر دراصل گھر کے ایک حصے میں بنائی جانے والی بیٹھک تھی مگر اب مالک مکان کے حالات کچھ اچھے نہیں تھے سو انہوں نے یہ بیٹھک کراے پہ لگادی پہلے پہل ہمارا خیال تھا کہ جہاں مالک مکان یعنی پچھلے حصے میں رہتے ہیں کافی لمبی چوڑی جگہ ہوگی مگر دودن بعد بیگم نے کہا:
مالکان کے مقابلے میں ہم تو جنت میں رہتے ہیں………
میرے پوچھنے پر بتایا کہ گھر کے پچھلے حصے کی جگہ ہمارے بیٹھک نما گھر سے بھی کم ہے ایک چارپائی کا کمرہ اسی کمرے کے ایک کونے میں ایک چولہا اور اس کے اردگرد کھانے پینے کی اشیاء رکھی ہوئی ہیں جبکہ ایک کبوتروں کے کھڈے جتنا باتھ روم ہے جس میں رکوع کی حالت میں داخل ہوا جاسکتا ہے ساتھ ہی ان کازمینی بستر لگا ہوا ہے۔یہ دو بزرگ میاں بیوی ہیں تین ان کے بیٹے ہیں جو بیاہ کے بعد کسی اور جگہ شفٹ ہو گئے ہیں یہ جگہ کافی بڑی تھی۔بیٹوں نے اپنا اپنا حصہ وصول کر کے بیچ دیا ایک ان کی بیٹی جو فیصل آباد بیاہی ہوئی ہے کبھی کبھی چکر لگاتی ہے۔
میں نے بیگم کی زبانی تفصیل سنی تو اسے کہا کہ ان کا خیال رکھا کرو ۔ دوسرے دن بیگم نے کچھ سالن انہیں دیا تو انہوں نے شکریہ کے ساتھ قبول تو کر لیا مگر ساتھ ہی کہا:
پ ایسی تکلیف نہ کیا کریں ہمارے پاس وافر ہر شے موجود ہوتی ہے یعنی ہمارے درمیان انا دیوار بن گئی۔
میں نے بیگم کو مشورہ دیا کہ تم ان کے گھر جا کے کہا کرو:
یہ سالن رکھ لو اور اپنا دے دو کیونکہ علی کے ابا کو پسند نہیں آیا تو سوچا آپ سے مانگ لوں یہ مشورہ کام آیا تو ہمارے درمیان. مانگ تانگ. کا سلسلہ شروع ہوگیا…….
بڑے میاں کی آواز بہت اچھی تھی وہ کبھی کبھی اونچی آواز میں ہیر پڑھتے تو لطف اجاتا سو مجھے بھی ہارمونیم بجانے کا راستہ مل گیا اب ہم دونوں ایک دوسرے بھی کھل چکے تھے یعنی ایک فنکار کو پرستار مل گیا…………
ہمارا یہ مختصر گھر ایک انتہائی خوبصورت سرخ رنگ کی دس فٹ اونچی اور جوبیس انچ چوڑی دیوار کے عقب میں تھا لمبائی میں یہ دیوار تقریباً پانچ کنال رقبے پر پھیلی ہوئی تھی جیسے ہمارے شاہی قلعہ کی دیوار ہے۔
میں گھر آنے کیلئے درمیان والی گلی استعمال کرتا تھا جب تھوڑا آگے سے ایک اور گلی بھی ادھر کو آتی تھی مگر میں ادھر سے کبھی نہ آیا دیوار کے بارے میرا خیال تھا کہ شاید یہ علاقے کے چوہدری کی قدیم حویلی ہے جس میں وہ رہتے ہیں
ایک دن میں جس گلی سے گزرتا تھا وہ بند پڑی تھی پولیس والوں نے ایک بورڈ پہ لکھا ہوا تھا یہ گلی آگے سے بند بحکم انسپکٹر پولیس تھانہ وغیرہ وغیرہ چونکہ راستہ بھی بیرر لگا کے بند کررکھا تھا تو میں دوسرے راستے کو چل پڑا مگر یہ بات میں نے سن لی کے گلی میں کوئی ڈی ایس پی صاحب نے رہائش رکھی سو انہوں نے گلی بند کردی ہے۔
دوسرے راستے سے مڑا تو پھر وہی سرخ دیوار میرے سامنے تھی تھوڑا آگے ایک بہت بڑا دروازہ شاہی قلعہ کے دروازے جیسا مگر اونچائی تھوڑی کم تھی لکڑی کا خوبصورت کام کہیں کہیں نظر ارہا تھا مگر زیادہ تر ٹھوٹ پھوٹ چکا تھا
جسے دیکھ کر میرے منہ سے نکلا
آثار ڈسیندن چہرے دے کیں وقت دا تاج محل ہا…….
مگر میں نے محسوس کیا جسے میں حویلی سمجھ رہا ہوں اس کے اندر تو چھوٹے چھوٹے گھر ہیں ایک ننگ دھڑ بچے کو ایک مرغی کے پیچھے دوڑتے دیکھا تو اندر کا سارا منظر نامہ سمجھ میں آگیا۔
مالک مکان آج خلاف توقع عصر کے وقت ہیر گا رہا تھا بول تو مجھے یاد نہیں مگر ان کا مفہوم ہیر کے سیدے کھیڑے
کے ساتھ زبردستی نکاح کے حوالے سے تھے وہ ہیر کی بے بسی پہ لکھے ان اشعار کو درد کے ہزار رنگ دے کر پڑھ رہا تھا شاید وہ خود کو ہیر کی طرح بے بس محسوس کر رہا تھا مجھے دیکھا تو ہاتھ سے آنسوں صاف کرتے ہوئے مسکرا دیا میں نے انسووں کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے واپس لانے کی کوشش کرتے ہوئے چند رسمی جملوں کے بعد پوچھا:
چاچا یہ بڑی حویلی کس کی ہے………
اس نے ایک نظر حویلی کی سرخ دیوار پر ڈالی اور کہا یہ حویلی نہیں اس علاقے کا سب سے بڑا مندر تھا میں نے کہا اس میں کون رہتا ہے اس نے بتایا اس میں کم از کم دو سو کے قریب لوگ رہتے ہیں۔ میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں اس نے کہا یہ سب کرایہ دار ہیں میں پھر پوچھا کیا کرایہ سرکار لیتی ہے اس نے کہا نہیں.. فلاں صاحب.. لیتے ہیں میں نے کہا ایک طرح سے تو اچھا ہوا مندر ختم ہوگیا اس ہندو ازم پھیلتا اس نے کہا:
سنو! ارگرد پچاس مسجدیں ہیں ان مسجدوں کی وجہ سے اگر ہم اچھے مسلمان نہیں بن سکے تو ایک مندر کی وجہ سے ہمارے ایمان کیسے بگڑ سکتے تھے…………… ؟