Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
شکیل خان
جمعہ 26 جون 2020 وقت دوپہر 30۔12 منٹ پر اطلاع آئی کہ مرشد جنت چلے گئے، میں امام ہاسپٹل چلاگیا، غسل میں شریک ہوگیا،اب میں کیا کروں گا، رات گئے تک سید بادشاہ کی خانقاہ کے سامنے بیٹھا رہا اور سوچتا رہا اب میں کیا کروں گا سنیچر 27 جون ظہر میں نماز جنازہ پڑھی اور آپ کو سخی حسن قبرستان میں مٹی کے حوالے کردیا۔ مرشد میں تو ہفتہ کے پانچ دن سنیچر کا انتظار کرتا تھا، آپ سے کہتا تھا کہ میں ” یوم سبت” منانے آپ کے پاس آتا ہوں۔ بقول صالحین کے میں” بدعتی” مسلمان ہوں اس لئے کہ سید بادشاہ کے لاکھوں عقیدت مندوں میں وہ واحد ہوں جو سید صاحب کے ہاتھ، ریش مبارک کو بوسہ دیتا تھا، بڑے جید وہابی جو بادشاہ کے دربار میں بیٹھے ہوتے مجھے گھورتے رہتے لیکن میں آخر تک اپنی “بدعت” پر قائم رہا۔ مرشد میں تو آپ کے ساتھ ” یوم سبت ” عبادت سمجھ کر مناتا تھا۔ سنیچر کا دن ہو آپ کی طبیعت بشاش ہو آپ کی گفتگو کا جوبن ہو، ہمارے لئے تو وہ عید کا دن ہوجاتا تھا۔ ایسے عالم میں تو آپ کے علاوہ کسی کا بولنا زہر لگتا تھا چاہے وہ کوئی بھی ہو۔ جب آپ بات کرتے تو دل یہ چاہتا کہ سارے عالم میں سکوت طاری ہوجائے۔ 27 جون کے سنیچر سے سوچ رہا ہوں اب میں کیا کروں گا اب ” یوم سبت ” کی عبادت کیسے ہوگی مرشد تو چلے گئے۔
میرے اور سید بادشاہ کے گھر کے درمیان سخی حسن قبرستان واقع ہے۔ اسی قبرستان میں جنت کا ایک ٹکڑا ہے جس میں مرشد آرام کررہے ہیں۔ سنیچر گزر چکا ہے۔ آج اتوار کی صبح قبرستان کی منڈیر پر بیٹھا ہوں اور سوچ اسی جگہ اٹکی ہوئی ہے کہ اب میں کیا کروں گا، مرشد تو چلاگیا۔
سوچتا ہوں کہ شیعہ ہوتا تو سینہ کوبی کرتا، خوب ماتم کرتا اور لوگوں سے کہتا کہ آج زنجیری ماتم کا دن ہے۔ گریہ کرتا،مجلس عزا بپا کرتا اور کہتا کہ آؤ سید منور حسن کا غم مناتے ہیں! ایک دوسرے کو پرسہ دیتے ہیں۔ آپکو کو دفن کرکے شام غریباں مناتا،سوز خوانی کرتا، اور کہتا کہ آئیے سید منور حسن کا گریہ کرتے ہیں۔ اس منور حسن کےلئے گریہ کرتے ہیں جو زندہ شہید تھا، اس سید منور حسن کےلئے گریہ کرتے ہیں جس کے سچ کا بوجھ اس کی اپنی جماعت برداشت نہیں کرسکی لیکن جو ساری زندگی اپنے سچ کے ساتھ زندہ رہا جو بونوں کی دنیا کا باون گزا آدمی تھا۔جو جب تک جیا پورا زندہ آدمی جیا جب مرا تو وقت کی سچائی اس کے ساتھ دفن ہوگئی۔ لوگو! پاکستان کا آخری سرتاپا سچا آدمی دفن ہوگیا۔ کیسا بہادر آدمی کیسی بزدل قوم میں پیدا ہوا تھا۔ زندہ رہا تو پورے سچ کے ساتھ زندہ رہا اور مرا تو حق اس کے ساتھ دفن ہوگیا۔
سید صاحب! یہ جو کچھ بھی میں لکھ رہا ہوں اپنے آپ کو بہلانے کےلئے لکھ رہا ہوں۔ آپ تو جانتے ہیں اور عطا تبسم نے لکھا ہے کہ سید کے دربار میں شکیل خان پھلجڑیاں چھوڑتا تھا اور سید بادشاہ اس پر خوش ہوتے تھے۔ سید بادشاہ آپ تو چلے گئے، آپ تھے جو میرے تیور دیکھ کر کہتے تھے کہ بہت جلال میں ہو، مرشدی! اب کس کے سامنے اپنی کہانیاں سناؤں گا۔
مرشدی! ایک درخواست ہے جب اللہ کا دربار سجا ہو اور میرے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتے ہوں تو یقینا آپ میرے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم کی ذریت میں ہونگے اس وقت مجھے پہچان لیجئے گا اس وقت میرے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم سے میری سفارش کردیجئے گا فرمادیجئے گا کہ یہ غلام ابن غلام شکیل خان ہے،بس مرشد میرا تو کام بن جائے گا ۔
رانجھا رانجھا کردی نی میں تے آپی رانجھا ہوئی
آکھو نی مینوں رانجھن ماہی، ہیر نہ آکھو کوئی
شکیل خان
جمعہ 26 جون 2020 وقت دوپہر 30۔12 منٹ پر اطلاع آئی کہ مرشد جنت چلے گئے، میں امام ہاسپٹل چلاگیا، غسل میں شریک ہوگیا،اب میں کیا کروں گا، رات گئے تک سید بادشاہ کی خانقاہ کے سامنے بیٹھا رہا اور سوچتا رہا اب میں کیا کروں گا سنیچر 27 جون ظہر میں نماز جنازہ پڑھی اور آپ کو سخی حسن قبرستان میں مٹی کے حوالے کردیا۔ مرشد میں تو ہفتہ کے پانچ دن سنیچر کا انتظار کرتا تھا، آپ سے کہتا تھا کہ میں ” یوم سبت” منانے آپ کے پاس آتا ہوں۔ بقول صالحین کے میں” بدعتی” مسلمان ہوں اس لئے کہ سید بادشاہ کے لاکھوں عقیدت مندوں میں وہ واحد ہوں جو سید صاحب کے ہاتھ، ریش مبارک کو بوسہ دیتا تھا، بڑے جید وہابی جو بادشاہ کے دربار میں بیٹھے ہوتے مجھے گھورتے رہتے لیکن میں آخر تک اپنی “بدعت” پر قائم رہا۔ مرشد میں تو آپ کے ساتھ ” یوم سبت ” عبادت سمجھ کر مناتا تھا۔ سنیچر کا دن ہو آپ کی طبیعت بشاش ہو آپ کی گفتگو کا جوبن ہو، ہمارے لئے تو وہ عید کا دن ہوجاتا تھا۔ ایسے عالم میں تو آپ کے علاوہ کسی کا بولنا زہر لگتا تھا چاہے وہ کوئی بھی ہو۔ جب آپ بات کرتے تو دل یہ چاہتا کہ سارے عالم میں سکوت طاری ہوجائے۔ 27 جون کے سنیچر سے سوچ رہا ہوں اب میں کیا کروں گا اب ” یوم سبت ” کی عبادت کیسے ہوگی مرشد تو چلے گئے۔
میرے اور سید بادشاہ کے گھر کے درمیان سخی حسن قبرستان واقع ہے۔ اسی قبرستان میں جنت کا ایک ٹکڑا ہے جس میں مرشد آرام کررہے ہیں۔ سنیچر گزر چکا ہے۔ آج اتوار کی صبح قبرستان کی منڈیر پر بیٹھا ہوں اور سوچ اسی جگہ اٹکی ہوئی ہے کہ اب میں کیا کروں گا، مرشد تو چلاگیا۔
سوچتا ہوں کہ شیعہ ہوتا تو سینہ کوبی کرتا، خوب ماتم کرتا اور لوگوں سے کہتا کہ آج زنجیری ماتم کا دن ہے۔ گریہ کرتا،مجلس عزا بپا کرتا اور کہتا کہ آؤ سید منور حسن کا غم مناتے ہیں! ایک دوسرے کو پرسہ دیتے ہیں۔ آپکو کو دفن کرکے شام غریباں مناتا،سوز خوانی کرتا، اور کہتا کہ آئیے سید منور حسن کا گریہ کرتے ہیں۔ اس منور حسن کےلئے گریہ کرتے ہیں جو زندہ شہید تھا، اس سید منور حسن کےلئے گریہ کرتے ہیں جس کے سچ کا بوجھ اس کی اپنی جماعت برداشت نہیں کرسکی لیکن جو ساری زندگی اپنے سچ کے ساتھ زندہ رہا جو بونوں کی دنیا کا باون گزا آدمی تھا۔جو جب تک جیا پورا زندہ آدمی جیا جب مرا تو وقت کی سچائی اس کے ساتھ دفن ہوگئی۔ لوگو! پاکستان کا آخری سرتاپا سچا آدمی دفن ہوگیا۔ کیسا بہادر آدمی کیسی بزدل قوم میں پیدا ہوا تھا۔ زندہ رہا تو پورے سچ کے ساتھ زندہ رہا اور مرا تو حق اس کے ساتھ دفن ہوگیا۔
سید صاحب! یہ جو کچھ بھی میں لکھ رہا ہوں اپنے آپ کو بہلانے کےلئے لکھ رہا ہوں۔ آپ تو جانتے ہیں اور عطا تبسم نے لکھا ہے کہ سید کے دربار میں شکیل خان پھلجڑیاں چھوڑتا تھا اور سید بادشاہ اس پر خوش ہوتے تھے۔ سید بادشاہ آپ تو چلے گئے، آپ تھے جو میرے تیور دیکھ کر کہتے تھے کہ بہت جلال میں ہو، مرشدی! اب کس کے سامنے اپنی کہانیاں سناؤں گا۔
مرشدی! ایک درخواست ہے جب اللہ کا دربار سجا ہو اور میرے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتے ہوں تو یقینا آپ میرے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم کی ذریت میں ہونگے اس وقت مجھے پہچان لیجئے گا اس وقت میرے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم سے میری سفارش کردیجئے گا فرمادیجئے گا کہ یہ غلام ابن غلام شکیل خان ہے،بس مرشد میرا تو کام بن جائے گا ۔
رانجھا رانجھا کردی نی میں تے آپی رانجھا ہوئی
آکھو نی مینوں رانجھن ماہی، ہیر نہ آکھو کوئی
شکیل خان
جمعہ 26 جون 2020 وقت دوپہر 30۔12 منٹ پر اطلاع آئی کہ مرشد جنت چلے گئے، میں امام ہاسپٹل چلاگیا، غسل میں شریک ہوگیا،اب میں کیا کروں گا، رات گئے تک سید بادشاہ کی خانقاہ کے سامنے بیٹھا رہا اور سوچتا رہا اب میں کیا کروں گا سنیچر 27 جون ظہر میں نماز جنازہ پڑھی اور آپ کو سخی حسن قبرستان میں مٹی کے حوالے کردیا۔ مرشد میں تو ہفتہ کے پانچ دن سنیچر کا انتظار کرتا تھا، آپ سے کہتا تھا کہ میں ” یوم سبت” منانے آپ کے پاس آتا ہوں۔ بقول صالحین کے میں” بدعتی” مسلمان ہوں اس لئے کہ سید بادشاہ کے لاکھوں عقیدت مندوں میں وہ واحد ہوں جو سید صاحب کے ہاتھ، ریش مبارک کو بوسہ دیتا تھا، بڑے جید وہابی جو بادشاہ کے دربار میں بیٹھے ہوتے مجھے گھورتے رہتے لیکن میں آخر تک اپنی “بدعت” پر قائم رہا۔ مرشد میں تو آپ کے ساتھ ” یوم سبت ” عبادت سمجھ کر مناتا تھا۔ سنیچر کا دن ہو آپ کی طبیعت بشاش ہو آپ کی گفتگو کا جوبن ہو، ہمارے لئے تو وہ عید کا دن ہوجاتا تھا۔ ایسے عالم میں تو آپ کے علاوہ کسی کا بولنا زہر لگتا تھا چاہے وہ کوئی بھی ہو۔ جب آپ بات کرتے تو دل یہ چاہتا کہ سارے عالم میں سکوت طاری ہوجائے۔ 27 جون کے سنیچر سے سوچ رہا ہوں اب میں کیا کروں گا اب ” یوم سبت ” کی عبادت کیسے ہوگی مرشد تو چلے گئے۔
میرے اور سید بادشاہ کے گھر کے درمیان سخی حسن قبرستان واقع ہے۔ اسی قبرستان میں جنت کا ایک ٹکڑا ہے جس میں مرشد آرام کررہے ہیں۔ سنیچر گزر چکا ہے۔ آج اتوار کی صبح قبرستان کی منڈیر پر بیٹھا ہوں اور سوچ اسی جگہ اٹکی ہوئی ہے کہ اب میں کیا کروں گا، مرشد تو چلاگیا۔
سوچتا ہوں کہ شیعہ ہوتا تو سینہ کوبی کرتا، خوب ماتم کرتا اور لوگوں سے کہتا کہ آج زنجیری ماتم کا دن ہے۔ گریہ کرتا،مجلس عزا بپا کرتا اور کہتا کہ آؤ سید منور حسن کا غم مناتے ہیں! ایک دوسرے کو پرسہ دیتے ہیں۔ آپکو کو دفن کرکے شام غریباں مناتا،سوز خوانی کرتا، اور کہتا کہ آئیے سید منور حسن کا گریہ کرتے ہیں۔ اس منور حسن کےلئے گریہ کرتے ہیں جو زندہ شہید تھا، اس سید منور حسن کےلئے گریہ کرتے ہیں جس کے سچ کا بوجھ اس کی اپنی جماعت برداشت نہیں کرسکی لیکن جو ساری زندگی اپنے سچ کے ساتھ زندہ رہا جو بونوں کی دنیا کا باون گزا آدمی تھا۔جو جب تک جیا پورا زندہ آدمی جیا جب مرا تو وقت کی سچائی اس کے ساتھ دفن ہوگئی۔ لوگو! پاکستان کا آخری سرتاپا سچا آدمی دفن ہوگیا۔ کیسا بہادر آدمی کیسی بزدل قوم میں پیدا ہوا تھا۔ زندہ رہا تو پورے سچ کے ساتھ زندہ رہا اور مرا تو حق اس کے ساتھ دفن ہوگیا۔
سید صاحب! یہ جو کچھ بھی میں لکھ رہا ہوں اپنے آپ کو بہلانے کےلئے لکھ رہا ہوں۔ آپ تو جانتے ہیں اور عطا تبسم نے لکھا ہے کہ سید کے دربار میں شکیل خان پھلجڑیاں چھوڑتا تھا اور سید بادشاہ اس پر خوش ہوتے تھے۔ سید بادشاہ آپ تو چلے گئے، آپ تھے جو میرے تیور دیکھ کر کہتے تھے کہ بہت جلال میں ہو، مرشدی! اب کس کے سامنے اپنی کہانیاں سناؤں گا۔
مرشدی! ایک درخواست ہے جب اللہ کا دربار سجا ہو اور میرے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتے ہوں تو یقینا آپ میرے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم کی ذریت میں ہونگے اس وقت مجھے پہچان لیجئے گا اس وقت میرے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم سے میری سفارش کردیجئے گا فرمادیجئے گا کہ یہ غلام ابن غلام شکیل خان ہے،بس مرشد میرا تو کام بن جائے گا ۔
رانجھا رانجھا کردی نی میں تے آپی رانجھا ہوئی
آکھو نی مینوں رانجھن ماہی، ہیر نہ آکھو کوئی
شکیل خان
جمعہ 26 جون 2020 وقت دوپہر 30۔12 منٹ پر اطلاع آئی کہ مرشد جنت چلے گئے، میں امام ہاسپٹل چلاگیا، غسل میں شریک ہوگیا،اب میں کیا کروں گا، رات گئے تک سید بادشاہ کی خانقاہ کے سامنے بیٹھا رہا اور سوچتا رہا اب میں کیا کروں گا سنیچر 27 جون ظہر میں نماز جنازہ پڑھی اور آپ کو سخی حسن قبرستان میں مٹی کے حوالے کردیا۔ مرشد میں تو ہفتہ کے پانچ دن سنیچر کا انتظار کرتا تھا، آپ سے کہتا تھا کہ میں ” یوم سبت” منانے آپ کے پاس آتا ہوں۔ بقول صالحین کے میں” بدعتی” مسلمان ہوں اس لئے کہ سید بادشاہ کے لاکھوں عقیدت مندوں میں وہ واحد ہوں جو سید صاحب کے ہاتھ، ریش مبارک کو بوسہ دیتا تھا، بڑے جید وہابی جو بادشاہ کے دربار میں بیٹھے ہوتے مجھے گھورتے رہتے لیکن میں آخر تک اپنی “بدعت” پر قائم رہا۔ مرشد میں تو آپ کے ساتھ ” یوم سبت ” عبادت سمجھ کر مناتا تھا۔ سنیچر کا دن ہو آپ کی طبیعت بشاش ہو آپ کی گفتگو کا جوبن ہو، ہمارے لئے تو وہ عید کا دن ہوجاتا تھا۔ ایسے عالم میں تو آپ کے علاوہ کسی کا بولنا زہر لگتا تھا چاہے وہ کوئی بھی ہو۔ جب آپ بات کرتے تو دل یہ چاہتا کہ سارے عالم میں سکوت طاری ہوجائے۔ 27 جون کے سنیچر سے سوچ رہا ہوں اب میں کیا کروں گا اب ” یوم سبت ” کی عبادت کیسے ہوگی مرشد تو چلے گئے۔
میرے اور سید بادشاہ کے گھر کے درمیان سخی حسن قبرستان واقع ہے۔ اسی قبرستان میں جنت کا ایک ٹکڑا ہے جس میں مرشد آرام کررہے ہیں۔ سنیچر گزر چکا ہے۔ آج اتوار کی صبح قبرستان کی منڈیر پر بیٹھا ہوں اور سوچ اسی جگہ اٹکی ہوئی ہے کہ اب میں کیا کروں گا، مرشد تو چلاگیا۔
سوچتا ہوں کہ شیعہ ہوتا تو سینہ کوبی کرتا، خوب ماتم کرتا اور لوگوں سے کہتا کہ آج زنجیری ماتم کا دن ہے۔ گریہ کرتا،مجلس عزا بپا کرتا اور کہتا کہ آؤ سید منور حسن کا غم مناتے ہیں! ایک دوسرے کو پرسہ دیتے ہیں۔ آپکو کو دفن کرکے شام غریباں مناتا،سوز خوانی کرتا، اور کہتا کہ آئیے سید منور حسن کا گریہ کرتے ہیں۔ اس منور حسن کےلئے گریہ کرتے ہیں جو زندہ شہید تھا، اس سید منور حسن کےلئے گریہ کرتے ہیں جس کے سچ کا بوجھ اس کی اپنی جماعت برداشت نہیں کرسکی لیکن جو ساری زندگی اپنے سچ کے ساتھ زندہ رہا جو بونوں کی دنیا کا باون گزا آدمی تھا۔جو جب تک جیا پورا زندہ آدمی جیا جب مرا تو وقت کی سچائی اس کے ساتھ دفن ہوگئی۔ لوگو! پاکستان کا آخری سرتاپا سچا آدمی دفن ہوگیا۔ کیسا بہادر آدمی کیسی بزدل قوم میں پیدا ہوا تھا۔ زندہ رہا تو پورے سچ کے ساتھ زندہ رہا اور مرا تو حق اس کے ساتھ دفن ہوگیا۔
سید صاحب! یہ جو کچھ بھی میں لکھ رہا ہوں اپنے آپ کو بہلانے کےلئے لکھ رہا ہوں۔ آپ تو جانتے ہیں اور عطا تبسم نے لکھا ہے کہ سید کے دربار میں شکیل خان پھلجڑیاں چھوڑتا تھا اور سید بادشاہ اس پر خوش ہوتے تھے۔ سید بادشاہ آپ تو چلے گئے، آپ تھے جو میرے تیور دیکھ کر کہتے تھے کہ بہت جلال میں ہو، مرشدی! اب کس کے سامنے اپنی کہانیاں سناؤں گا۔
مرشدی! ایک درخواست ہے جب اللہ کا دربار سجا ہو اور میرے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتے ہوں تو یقینا آپ میرے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم کی ذریت میں ہونگے اس وقت مجھے پہچان لیجئے گا اس وقت میرے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم سے میری سفارش کردیجئے گا فرمادیجئے گا کہ یہ غلام ابن غلام شکیل خان ہے،بس مرشد میرا تو کام بن جائے گا ۔
رانجھا رانجھا کردی نی میں تے آپی رانجھا ہوئی
آکھو نی مینوں رانجھن ماہی، ہیر نہ آکھو کوئی