Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
ن.م.راشد کو اردو شاعری میں باغی کے نام سے جانا جاتا ہے ہر شاعر کا نقطہ نظر مختلف ہوتا ہے راشد کی بغاوت ہمیں انگریز سامراج کے خلاف نظر آتی ہے اور یہی بغاوت انھیں مذہب سے دور کر دیتی ہے اور وہ خدا سے ناراض نظر آتے ہیں حالانکہ اسلام میں تو مایوسی گناہ ہے لیکن ان کی شاعری میں ہمیں امید کی کرن نظر آتی ہے وہ ڈھول بجا بجا کر ہمیں جگا رہے ہیں کہ اٹھو اور اپنے حق کے لیے لڑو لیکن راشد اپنی شاعری میں مایوس نظر آتا ہے لیکن برطانوی سامراج کے خلاف ہمیں امید کی کرنیں طلوع ہوتی نظر آتی ہیں کیونکہ شاعر تو ہے ہی امید کا پیامبر اور انھیں کرنوں سے سورج طلوع ہوتا ہے اور چاروں سمتوں کو روشنیوں سے بھر دیتا ہے راشد کا بنیادی موضوع جنس اور بغاوت ہے بغاوت کے حوالے سے اقبال اور غالب کا نام لیا جاتا ہے لیکن راشد کی بغاوت اور ان شعراء کی بغاوت میں زمین آسمان کا فرق ہے راشد کی شاعری میں ہمیں انگریز سامراج سے شدید نفرت نظر آتی ہے بنیادی طور پر وہ فرد کو آزاد دیکھنا چاہتے ہیں وہ زنجیروں کو توڑ دینا چاہتے ہیں جو انسانیت کے لیے خطرناک ہیں وہ ہر خوف کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور خوف کو ختم کرتے کرتے بغاوت کی حدیں پار کر گئے
یہی بغاوت تو ہمیں ” پہلی کرن ” سے ہی نظر آتی ہے لیکن عملی طور پر” ماورا ” کی اشاعت میں یہ بغاوت اپنے عروج پر نظر آتی ہے” ماورا” کی اشاعت 1941 میں ہوئی اس مجموعے نے عوام وخواص کے حلقوں میں ہل چل مچا دی جیسے کسی نے ٹھہرے ہوئے پانی میں پتھر پھینک دیا ہو اسی مجموعے کی وجہ سے راشد کو باغی کہا جانے لگا اور انھیں تنقید کاسامنا کرنا پڑا لوگوں نے انھیں منکر کہنا شروع کر دیا خدا کے متعلق ان کے تصورات ونظریات ہمیں انھیں باغی کہنے پر مجبور کر دیتے ہیں
ان کا ایک شعر بغاوت کی اولین مثال پیش کر رہا ہے
کون جانے کہ وہ شیطان تھا
بے بسی میرے خداوند کی تھی
نعوذباللہ خدا بے بس کیسے ہو سکتا ہے جس کے ہاتھ میں سب کچھ ہے میرے خیال میں راشد کے تصورات مذہب کے بارے میں پختہ نہیں تھے ورنہ ایک سچا مسلمان خدا کو بے بس کیسے کہہ سکتا ہے جو اس کائنات کا نظام چلا رہا ہے
پھر یہی نہیں اپنی نظم ” پہلی کرن ” میں وہ لکھتے ہیں
خدا کا جنازہ لیے جارہے ہیں فرشتے
جو مشرق کا آقا ہے مغرب کا آقا نہیں ہے
تجھے معلوم ہے مشرق کا کوئی خدا نہیں ہے
اور اگر ہے تو پردہ نسیان میں ہے
یہ کیسی بغاوت ہے کہ وہ خدا کے وجود سے انکاری ہیں نعوذباللہ وہ مشرق کو خدا کے بغیر ہی طلوع ہوتا بیان کر رہے ہیں اس زمانے میں بہت سے شعراء بے بس تھے میر کے ہاں بھی حالات وواقعات کیا تھے برصغیر کے حالات سے تنگ تھے وہ بھی مایوس بھی تھے لیکن بغاوت نظر نہیں آتی
اگر ہم ان کی بغاوت انگریز سامراج کے حوالے سے دیکھیں تو مغربی عورتوں سے بھی تنگ ہیں انھیں بھی اپنے نشانےپر رکھتے ہیں جہاں تک نظم ” زنجیر ” کی بات کی جائے تو کھلم کھلا جگا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں
اے ریشم کے کیڑے تو اس خول سے باہر نکل آ تم مزدوروں اور کسانوں کی محنت اور دن رات مشقت کا صلہ تمھاری عورتیں نہیں بلکہ دورافتادہ برطانوی عورتیں اپنے حسن و جمال کی زینت کے لیے استعمال کرتی ہیں کیونکہ ہر چیز ہر تو انگریز قابض تھے یہاں ہم تو ہم راشد کو باغی نہیں کہہ سکتے ہم انھیں دوسروں کا سہارا سمجھ سکتے ہیں راشد نے اپنی شاعری میں داخلی دنیا سے خارجی دنیا کا رشتہ جوڑا ہے راشد کی بغاوت اپنی جگہ لیکن وہ اپنی نظموں میں خوب صورت استعارے اور تراکیب استعمال کرتے ہیں لیکن ہم لوگ صرف ایک ہی پہلو کیوں یاد رکھتے ہیں وہ اپنی نظم “سباویراں ” میں اسلامی واقعات سے مسلمانوں کو جگانے کی کوشش کر رہے ہیں راشد کو یہ بھی دکھ ہے کہ مسلم قائدین خاموش ہیں سارا ملک جنگل اور صحرا کا منظر پیش کر رہا ہے دوسرے شعراء سے ان کی شاعری بہت مختلف ہے راشد کو ہم باغی تو کہتے ہیں لیکن مذہب میرے خیال میں ان کے اور خدا کا آپس کا معاملہ ہے شاید وہ اللہ کے حضور سچے ہوں شاید وہ اتنی تکلیف میں ہیں کہ دکھ امڈ امڈ کر پڑ رہا ہے ہر انسان کی فطرت ہے وہ گلے شکوے کرتا ہے اور جس سے محبت یو شکوہ اسی سے کیا جاتا ہے میں بھی اکثر سوچتی یوں مغرب ہم سے بہت آگے ہیں اور ہم پیچھے جدید دور میں ایسی ایسی چیزیں ایجاد کر رہے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی اور فٹ سے خیال آتا ہے اللہ ان پر ہم سے زیادہ مہربان ہے شاعروں کا ذکر تو قرآن میں بھی ہے یہ بھی ایک پہلو ہے لیکن یہاں تو خدا کے معاملے میں شاعر نے سچ نہیں بولا ن.م. راشد کی شاعری جب بھی سنائی جاتی ہے یا کوئی پڑھتا ہے تو پہلا یہی خیال ذہن میں آتا ہے وہ خدا کے بارے میں ایسے تصورات کیوں رکھتے ہیں بالکل چھوٹے بچے کی طرح جو ماں سے کہے کہ تم میرے بڑے بھائی کی ماں ہو اس سے زیادہ پیار کرتی ہو ان کی شاعری کی بغاوت بھی ایسی ہی ہے
ترقی پسند شعراء کے چونکہ ایسے ہی فلسفے ہیں ظہیر کاشمیری کو دیکھا جائے تو بھی باغی ہیں جہاں تک کفروالحاد کا تعلق ہے تو تحریک کے ابتدائی دور میں بہت سے شعراء نے بغاوت کا ارتکاب کیا
مثال کے طورپر ظہیر کاشمیری لکھتے ہیں
آسمانوں پر اترتے ہیں نبی اور نہ خدا
آسمانوں پہ اندھیرے کے سواکچھ نہیں
یہ بغاوت ن.م.راشد سے کم تو نہیں سیدھا سیدھا قرآن کی تعلیمات کو رد کیا جارہا ہے جب قرآن اس چیزکی ضمانت ہے تو پھر کاشمیری صاحب نے کیا سوچ کر یہ کہا ظہیر کاشمیری کی بات سے تو ہم بالکل اتفاق نہیں کرتے راشد کی باتوں سے بھی اتفاق نہیں کرتے لیکن ان کی شاعری میں جو انگریز سامراج کے خلاف نفرت اور بغاوت ہے اس سے ہم اتفاق کرتے ہیں ہم ان کے مذہبی رحجانات کے بارے میں کچھ نہین کہہ سکتے کیونکہ مذہب خدا اور انسان سے جڑا ہے
راشد کی نظم ” تیل کے سوداگر ” کتنی لاجواب نظم ہے اور تیل کا مسئلہ آج بھی جوں کا توں ہے وہ ہمیں ان سوداگروں سے بچنے کی تلقین کر رہے ہیں اور ایک شاعر کی حیثیت سے انھوں نے یہ فریضہ خوب نبھایا راشد کی بغاوت اپنی جگہ لیکن ارشو شاعری کو انھوں نے لازوال تحفے دیے ہیں ان کی نظموں میں خوب صورت استعارے ایسے ہی ہیں جیسے آسمان پر چمکتے تارے ن.م.راشد کو جتنا باغی کہا جاتا ہے شاید اتنے باغی وہ نہیں ہے لیکن مرنے کے بعد ان کی لاش کو جلایا گیا شاید یہ بغاوت ترقی پسند شعراء کا فلسفہ ہے جس کا عملی مظاہرہ تمام شعراء کی شاعری میں نظر آتا ہے
لیکن شاعری میں ن.م.راشد نے نئے زاویوں کی داغ بیل ڈالی اور آئندہ آنے والوں کے کیے نئے رستے روشن کیے …………….