پاشا بھائی سے ہمارا تعارف بڑے ہی عجیب انداز میں ہوا۔بجلی کی لو ڈ شیڈنگ سے ستائے ہم پارک میں بیٹھے تھے کہ اچانک ہی ایک صاحب آکر پاس بیٹھ گئے۔ کوئی تھرڈ کلاس گانا لبوں پر تھا اور پھر ہم سے بولے:”آپ کے پاس سگریٹ ہے؟
ہم اس بن بلائے انجان مہمان اوراس کی غیر ضروری فرمائش پر تھوڑے تلملائے لیکن فورا انکار میں گردن ہلائی جس پر اس اجنبی نے گانا پھر سے گنگنانا شروع کیا اور مزے سے اپنی جیب سے نکالی سگریٹ اور سلگا کر کش پر کش لگانے لگا۔ہمیں اس کی ’ہوشیاری‘ پرحیرت تو ہوئی لیکن کیا کرتے۔ چپ رہے۔ بعد میں یار دوستوں کے ذریعے ہیلو ہائے ہوئی تو پتا چلاکہ ان کا نام پاشا ہے۔ سوائے ان کی اپنی بہن کو چھوڑ کر باقی محلے کی ہر لڑکی ہماری ہی نہیں سب دوستوں کی بھابھی تھی۔ جی ہاں۔ یہ ہم نہیں پاشا بھائی کا فرمان تھا۔ کیونکہ جو حسینہ گزرتی اور کوئی پوچھ لیتا کہ بھائی یہ کس محلے کی مہ جبین ہے۔کون ہے یہ کافر حسینہ تو پاشا بھائی کا جواب ایک ہی ہوتا: ”آپ کی بھابھی، اور کون۔“
اب یہ اور بات تھی کہ ان آدھی سے زیادہ ’خودساختہ بھابھیوں‘ نے لگائی کسی اور کے نام کی مہندی اور اتری ان کی ڈولی اپنے اپنے سجناؤں کے گھر۔اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ہماری نہ ہونے والی ان ’بھابھیوں‘ کی شادیوں میں بڑ ھ چڑھ کر کام کرنے میں خود پاشا بھائی نمایاں رہتے۔ بھاگ بھاگ کر کام کررہے ہوتے۔دریاں، کولر، ٹنکیاں، کھانا پینا، مہمانوں کو کہاں چھوڑنا ہے کہاں سے اٹھانا ہے یہ سارا کا سارا کام پاشا بھائی کے ذمے ہوتا۔ ایک دفعہ کسی نے دریافت کرہی لیا کہ میاں حضرت یہ کارخیر کیوں کرتے ہو۔۔ تو جواب ملا :
”امید پر تو دنیا قائم ہے۔ مجھے تو ننھی سی ایک آس ہے۔ ایک امید ہے“
اب وہ آس یا امید بھی کسی فلمی سچویشن سے کم نہیں۔ بقول پاشا بھائی کے یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ عین وقت پر کہیں سے کوئی صدا آئے یہ شادی نہیں ہوسکتی یا پھر ہوسکتا ہے کہ دولہا بھاگ جائے اور ایسے میں دولہن کا باپ گڑگڑاتے ہوئے آواز لگائے ’ہے کوئی مسلمان جو ان کی لاج رکھ لے۔ ایسے میں پاشا بھائی آگے بڑھ کر پگڑی ہاتھوں میں تھام لیں گے۔ اور جیون کا نیا سفر شروع ہوگا۔۔یہی وہ ننھی سی آس پاشا بھائی کے دل میں کلبلاتی رہتی۔خیر جی ان کا تو بس ون پوائنٹ ایجنڈا ”آپ کی بھابھی“ہی تھا۔۔۔
پاشا بھائی کا حلیہ تو کہیں سے بھی فلمی ہیرو تو دور کی بات ایکسٹراز سے بھی میل نہیں کھاتا تھا۔ سر پر اتنے کم بال تھے کہ آپ دور سے بآسانی گن سکتے تھے۔ رنگت گورا کرنے کی ساری کریموں کی کمائی پاشا بھائی کے دم سے ہی تھی۔ اتنی کریمیں استعمال کرنے کی وجہ سے دکانداروں کا کاروبار تو چمک اٹھا۔ لیکن نہ چمکے تو پاشا بھائی۔ جینزاور اس پر کھلتے رنگ کی ٹی شرٹ پہنتے۔ خوش قسمتی ہی کہیے کہ کسرت کرکے انہوں نے باڈی اچھی خاصی بنالی تھی۔ البتہ سر کے بال اور گہرا رنگ ان کی’پرکشش خوبصورتی‘ کو زنگ کی طرح کھائے جارہے تھے۔ محلے میں کس کے گھر کون سی حسن کی دیوی رہتی۔کب کون کہاں جاتی ہے۔ کہاں سے آتی ہے۔ کیا کھاتی ہے۔ کب کھڑکی پر آتی ہے۔ کب سودا لیتی ہے۔ اس کا پتا پاشا بھائی سے زیادہ کسی کو نہیں ہوگا۔سارا دن لڑکیوں کے اسی جاسوسی کے کام میں لگے رہتے۔یار دوستوں سے زبردستی دکھا کر سب لڑکیوں کے لیے ’آپ کی بھابھی‘ کے رائٹس منظور کراچکے تھے۔
ہماری پاشا بھائی سے پہلی ’تلخ ملاقات‘کے بعد شاید ہم انہیں گھاس بھی نہ ڈالتے۔ لیکن قسمت یا تو ہماری خراب تھی یا ان کی۔ یار دوستوں کی بیٹھک میں پاشا بھائی بیٹھنے لگے اور بحالت مجبوری ہمیں بھی ان سے دوستی کرنی پڑی۔ انہی دنوں ابا جان نے ہمارے نیچے کا گھر کرائے پر اٹھا دیا۔ کرائے دار انکل جی تھے جن کی آدھا درجن خوبصورت اور حسین صاحبزادیاں تھیں۔ وہ بھی ہر سائز کی۔۔ان کا ہمارا کرایہ دار بننا یہ سمجھیں کہ ہماری قدر و منزلت میں اچانک اضافہ کرگیا۔ وہ یار دوست جو منہ لگانا بھی ہمیں گوارہ نہیں کرتے تھے وہ ہمارے اچھے رفیق بن گئے۔ ڈھونڈ ڈھانڈ کر آس پڑوس کے دوست ہمارے گھر کے چکر لگانے لگے۔ کم بخت جانتے بوجھتے ہوئے بھی کہ ہم نچلی منزل میں نہیں رہتے۔ نیچے کی ہی کال بیل بجاتے۔ جہاں سے کوئی نازنین ہنستی مسکراتی ادائیں دکھاتی گیٹ پر آتی اور ترنم زدہ آواز میں ان سے کہتی کہ آپ اوپر والی بیل بجائیں۔ پھر سوری کا ایک لفظ بولا جاتا۔ وہ بھی ٹھنڈی آہوں کے ساتھ۔ اور تب تک اوپر کی بیل نہیں بجتی جب تک پریاں کھنکتی ہوئی واپس نہ چلی جاتی۔ غضب تو یہ تھا کہ یہ ’کال بیل سروس‘ عموماً اس وقت زیادہ ہوتی جب ہم گھر پر نہیں ہوتے۔
پاشا بھائی کو بھی ہمارے یہاں کی ’جل پریوں‘ کا پتا چل گیا۔ بس جی وہ تو ہر جگہ ہمارے کم ہماری کرائے دارنیوں کے گن زیادہ گانے لگے۔کرکٹ کھیلنے کے بعد ہمیں گھر تک چھوڑنے آتے۔ اور پیاس نہ بھی لگے تب بھی پانی منگوا کر پیتے۔ بات کرتے تو ہم پر کم ہمارے گیٹ پر زیادہ نگاہیں ٹکی ہوتیں۔ اور ایسے میں کوئی دل کی رانی آٹپکتی تو پاشا بھائی کی سیاہ رنگت جیسے اور نکھر جاتی۔کُن انکھیوں سے گیٹ پر کھڑی حسینہ کو تاڑتے رہتے۔ ہماری ’کرائے دارنیوں‘ کے آنے کے بعد پاشا بھائی کی ’انقلابی سوچ‘ میں ایک تبدیلی ضرور آئی تھی۔ اب ’آپ کی بھابھی‘ کا نعرہ بدل کر ’آپ کی بھابھیاں‘ ہوگیا تھا۔ اوروہ بھی اب ہمارے ہی ’گھر‘ میں تھیں۔
ہماری ’بھابھیاں‘ بھی بڑی عجیب تھیں۔ دروازے پر کوئی بھی آئے۔ کسی چھلاوے کی طرح آکھڑی ہوتیں۔ اور گھنٹوں مٹک مٹک کر اس سے باتوں کی کچھڑی بنانا لگتیں۔ شام ہوتی تو میک اپ تھونپ کر نکل جاتیں۔ اور کون سا ایسا دکاندار نہیں تھا۔ جس سے ادائیں دکھا کر باتیں کرتیں۔ بھڑکیلے لباس اس پر خوشبوؤں کی برسات۔ کبھی دو کی ٹولیاں بنا کر تو کبھی اکیلی۔ بس گلی میں گھومتی رہتیں۔ اور جناب ہمارے گلی میں تو لڑکوں کا ایسا رش ہوتا جیسے کسی بازار کا منظر ہو۔ چہل پہل خوب ہوتی۔
پاشا بھائی کے لیے یہ حسن کی کلیاں بڑی اہمیت اختیار کرگئی تھیں۔ کام دھندا تو کچھ تھا نہیں۔ بس لگاتے رہتے چکر پر چکر ہماری گلی کے۔ رہ گئیں ہماری ’کرائے داریاں‘ تو وہ تو سب کو ’خوش‘ کرنے کے فارمولے پر عمل کررہی تھیں۔یہ غالباً سردیوں کی رات تھی جب ہم گھوڑے گدھے سب بیچ کر لمبے سو رہے تھے۔ اچانک نیچے والوں کی ’کال بیل‘ مسلسل بجنا شروع ہوئی۔ کسی نے دروازہ بھی پیٹا وہ بھی انتہائی بے دردی سے۔ ہم آندھی نیند میں یہ سوچ رہے تھے کہ کم بخت عاشقوں نے رات کے اس پہر بھی ’عاشقی‘ کی دال گلانے شروع کردی۔ اتنے میں ابا کی آواز آئی:”کون خبیث ہے جو اپنی نیند کا دشمن تو ہے ہماری بھی۔۔‘
ہم ڈر کے مارے کہ کہیں ہمارا ہی دوست گیٹ پر نہ ہو اور ابا اس کی ’شان‘ میں اتنی اچھی اچھی باتیں کریں کہ یار دوست ہمارا ہی مذاق نہ بنادیں۔ ہم بھاگتے ہوئے ٹریس تک آئے۔ اگلا منظر ہماری نیندیں اڑا گیا۔ نیچے چار پانچ پولیس موبائلز تھیں۔۔سنتری بادشاہ ہمارا گیٹ پیٹ رہے تھے۔ ہم الٹے قدموں دوڑتے ہوئے ابا کے پاس آئے جو اس وقت تک مکمل جاگ گئے تھے۔
’کون ناہنجار ہے۔۔؟“ ابا نے دریافت کیا۔ ”پولیس۔۔۔!!!!“ ہمارے حلق سے صرف یہی نکلا۔۔
اتنے میں دو پولیس والے ہماری منزل تک آگئے تھے۔۔ان میں سے ایک تقریباً دہاڑتے ہوئے بولا ”یہ مرزا فصاحت تمہارے کرائے دار ہیں؟۔۔ ”جی۔ جی جی۔۔“ ابا نے اٹکتے ہوئے بولا۔۔”وہ اور ان کی لڑکیاں جانتے ہیں کیا کرتی ہیں؟
’نہیں۔۔۔!!!“ ابا نے پاس کھڑی اماں کے ہاتھ سے پانی کا گلاس لیتے ہوئے کہا۔
”آ پ کو بھی ہمارے ساتھ تھانے چلنا ہوگا۔۔ ساری کی ساری ’دونمبری‘ ہیں یہ۔۔ اور یہ ان کی کوئی بیٹیاں شیٹاں نہیں۔۔ سمجھ تو آ پ گئے ہوں گے۔۔“ سنتری کے یہ الفاظ ابا پر کم ہمارے دماغ میں بم بن کر گر رہے تھے۔۔ابا تو تھکے تھکے انداز میں صوفے پر بیٹھتے ہی چلے گئے۔
اس کے بعد ابا اور ہماری تھانے میں پیشی ہوئی اور وہاں جا کر جو انکشافات ہوئے وہ ہمارے چودہ طبق روشن کرگئے۔ ابا کی تو جان اس لیے چھٹ گئی کیونکہ وہ صرف مالک مکان تھے۔ اور خیر سے ان کی بھی جان پہچان تھی اوپر تک۔۔ہم نے تو وہاں وہ منظر بھی دیکھا جب کافر حسینائیں کے خوبصورت چہروں پر غلاف لا کر کال کوٹھری میں ڈالا گیا۔۔اگلے د و دن پولیس والے نچلی منزل کے مہمان رہے۔ جو ایک ایک چیز اٹھا کر لے بھی گئے۔ابا بس یہی کہتے رہے کہ ”ہائے مجھ سے کتنی بڑی غلطی ہوگئی۔۔ کچھ سمجھ ہی نہیں پایا۔۔۔ کچھ تو پوچھ پوچھل کروالیتا۔۔“ پریاں گلی سے اور پھر محلے سے تھانے گئیں تو ہماری گلی پھر ویران ہوگئی۔۔ ایسے میں ہمیں پاشا بھائی کا سوچ سوچ کر دل دکھ جاتا۔ جن کے سپنوں کا تاج محل نجانے کیسے ریزہ ریزہ ہوگیا۔ ہمارے کانوں میں تو پولیس والے کے بس یہی الفاظ برسوں تک گونجتے رہے۔۔”ساری کی ساری ’دونمبری‘ ہیں یہ۔۔ اور یہ ان کی کوئی بیٹیاں شیٹاں نہیں۔۔ سمجھ تو آ پ گئے ہوں گے۔۔“ سنا ہے پاشا بھائی سے ہر کوئی لڑکابس یہی کہتا ہوا آیا پھر نظر :”پاشا بھائی سنا ہے کہ ہماری بھابھیاں پکڑی گئیں۔۔“۔۔۔