Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
جسٹس (ر) ارشاد حسن خان کے پہلے جوابی کالم کا آغاز بڑا زوردار تھا، میرے بارے میں فرمایا ’’محترم‘‘ کالم نگار تاریخ لکھ رہے ہیں یہ پروا کیے بغیر کہ تاریخ کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں یا اپنے قارئین کو غلط معلومات دے رہے ہیں۔ میں نے اِن کے دونوں کالم نہایت غور سے ایک سے زیادہ بار پڑھے۔ کاش وہ کسی ایک بھی خلافِ حقیقت بات یا تاریخی غلطی کی نشاندہی کر دیتے۔ میں نے تو صرف ایک دن (20جون 2001) کے چہرے پہ پڑی تھوڑی سی گرد جھاڑی ہے۔ جسٹس صاحب، برادرم سہیل وڑائچ کے لئے کوئی فرمان جاری کر سکیں تو میں بھی کئی قسطوں پر مشتمل ’’پاکستان نامہ‘‘ لکھ سکتا ہوں۔ جج صاحب نے تو اپنی سج دھج اور مورپنکھ جیسی لمبی دم والی عبا کو بھی اپنی پیشہ ورانہ مہارت سے کام لیتے ہوئے ’’نظریہ پروٹوکول‘‘ کا جامہ پہنا دیا۔ میری معلومات شاید ناقص تھیں کہ جج ’’تحفظ پروٹوکول‘‘ کا نہیں ’’تحفظ آئین‘‘ کا حلف اٹھاتا ہے۔ جج صاحب نے بجا طور پر میری ’’لاعلمی‘‘ کا ماتم کیا ہے مجھے واقعی پہلی بار معلوم ہوا کہ ’’سرکاری آداب و روایات‘‘ اور ’’پروٹوکول‘‘ کے ضابطے، آئین کے تقاضوں سے کہیں زیادہ مقدس ہوتے ہیں۔ سو آئین جائے بھاڑ میں، مورپنکھ سلامت رہنے چاہئیں۔
میں اللہ کا شکر بجا لاتا ہوں کہ مجھ سے تاریخ مسخ کرنے کا گناہ سرزد نہیں ہوا۔ یوں بھی ہم جیسوں کے ناتواں قلم کی کیا بساط کہ وہ تاریخ کو مسخ کر سکے۔ یہ وہی عبا پوش کر سکتے ہیں جن کا قلم آئین قانون، اخلاقیات اور تاریخ کو ’’حسبِ ضرورت‘‘ مسخ کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ پھر ارشاد ہوا کہ میں نے خواہ مخواہ کسی ’’عاجز‘‘ کو اس قضیے میں گھسیٹ لیا ہے۔ ایسا نہیں سر۔ وہ عاجز خود بن ٹھن کر، برضا و رغبت اس بارات کا دُلہا نہ سہی، شہہ بالا بنا۔ جسٹس صاحب نے مجھے طعنہ دیا کہ میں نے صدر تارڑ کو کیوں نہیں روکا کہ ارشاد حسن خان کو پی سی او کے تحت حلف نہ دیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ میرا منصبی تقاضا نہ تھا، مجھ سے مشورہ ہوا تو میں نے اپنی دیانت دارانہ رائے دیدی۔ چلیں میں صدرِ مملکت کو نہ روک سکا۔ عزت مآب ارشاد حسن خان کو تو صرف اپنے آپ کو روکنا تھا۔ وہ کیوں اپنے اندر پھلجھڑیاں چھوڑتے کسی کمزور لمحے پر قابو نہ پا سکے؟ آخر جسٹس سعید الزماں صدیقی مرحوم سمیت چھ اور جج صاحبان بھی تو تھے جو خوف، جبر اور لالچ کے بے مہر موسم میں پورے قد سے کھڑے رہے اور ایک بات یہ کہ صدر تارڑ نے کبھی اسے اپنے سر کی کلغی نہیں بنایا۔ افسوس ہی کرتے رہے، کاش میں 26 جنوری 2000 کی طلسم ہوش ربا بھی لکھ سکتا۔
ارشاد ہوا کہ میں نے خوبصورت فریم میں مزین تصویر جج صاحب کی خدمت میں پیش کی۔ میں اقرارِ ’’جرم‘‘ کرتا ہوں لیکن تاریخ کے ریکارڈ کے لئے سیاق وسباق کا تذکرہ ضروری ہے۔ 26 جنوری 2000 کو جب خان صاحب چیف جسٹس کا حلف اٹھا چکے تو چائے کے دوران میرے قریب آئے۔ میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہنے لگے ’’صدیقی صاحب! تقریب کی کچھ تصاویر چاہئیں‘‘ میں نے کہا ’’جی ضرور۔ کیوں نہیں‘‘ اگلے ایک ہفتے کے دوران دو دفعہ جج صاحب کے پی ایس نے فون کیا کہ چیف صاحب بار بار پوچھ رہے ہیں۔ میں نے صدر سے بات کر کے ایک بڑی تصویر فریم کرائی۔ کچھ تصاویر لفافے میں ڈالیں۔ انہیں پیش کرنے ججز کالونی، ان کی رہائش گاہ چلا گیا۔ یہ ملاقات محض تصاویر دینے تک محدود نہ تھی۔ ایک گھنٹے کے دوران 12 اکتوبر 1999 کے اقدام سمیت جو گفتگو ہوئی میری ڈائری میں درج ہے۔
میں نے اپنے کسی کالم میں ظفر علی شاہ کیس کا تذکرہ نہیں کیا تھا۔ نجانے کس اندرونی خلش کے باعث انہوں نے سارا زور قلم اپنے فیصلے کے محاسن بیان کرنے پر صرف کر دیا۔ ان کے دلائل کیا ہیں یہ کہ ’’مخالفانہ فیصلہ دیتے تو کیا مشرف اور فوج سرتسلیم خم کر دیتے ؟‘‘ بجا فرمایا، آج اپنے کالم میں یہ سب سے بڑی دلیل دینے سے کہیں بہتر ہوتا کہ آپ ظفر علی شاہ کیس کے فیصلے میں لکھ دیتے کہ ’’12اکتوبر کا اقدام غیر آئینی، غیر قانونی اور ناجائز تھا۔ مشرف غاصب ہے، اس کی حکمرانی کا کوئی جواز نہیں لیکن وہ طاقتور ہے ہم نے یہ فیصلہ دیا تو وہ اور فوج سر تسلیم خم نہ کریں گے اس لئے درخواست مسترد، مشرف نے جو کیا ٹھیک کیا‘‘۔ دلائل کی مینا کاری اور سینکڑوں صفحات کی سیاہ کاری کی ضرورت ہی کیا تھی؟ کیا فیصلے اسی بنیاد پر ہوتے ہیں؟ دوسری دلیل یہ کہ ’’مخالف فیصلہ دینے سے ملک و قوم مصیبت اور عدم استحکام کا شکار ہو جاتے‘‘ یہ دلیل اس وقت موثر ہوتی ہے جب ملک میں جمہوری آئینی نظام چل رہا ہو۔ عدالت سوچتی ہے کہ اس کے کسی سخت فیصلے سے جمہوریت پٹڑی سے نہ اتر جائے، جب پہلے ہی جرنیلی بندوبست نافذ ہو آئین مفلوج پڑا ہو، پارلیمنٹ معطل ہو، عدلیہ آئینی حلف سے دستکش ہو کر آمر وقت کی وفاداری کا حلف اٹھا چکی ہو تو پھر اور کس قیامت نے آنا ہے! پھر تو وہی قیامت بپا ہو سکتی ہے جو 3 نومبر 2007 کو ہوئی۔
قوم پر احسان نہ دھریں، یہ صرف خود حفاظتی کا حربہ تھا۔ انگریز جج نے کوئی سوا دو ہزار سال پہلے لاطینی زبان کے ایک اصول کو اپنے فیصلے میں سموتے ہوئے تاریخ رقم کی تھی کہ
’’Let Justice be done though the heavens fall‘‘
(انصاف ہر حال میں ہونا چاہئے چاہے آسمان ہی کیوں نہ ٹوٹ گریں) پھر ارشاد فرمایا ’’آئین میں ترمیم کا جو اختیار دیا گیا وہ محض نمائشی تھا۔ صاف لفظوں میں کسی ترمیم کی اجازت نہیں دی گئی‘‘ قبلہ کیا آپ کو علم نہیں کہ مشرف نے آپ کے عطا کردہ اس ’’نمائشی اختیار‘‘ کے تحت آئین میں ساٹھ ترامیم کر ڈالیں؟ انہیں سترہویں ترمیم کے ذریعے دستور میں ڈال کر پارلیمانی نظام کو صدارتی میں ڈھال لیا، کیا آپ کو یاد نہیں کہ آپ کی بوئی ہوئی یہ فصل کاٹنے کے لئے کیا کیا پاپڑ بیلنا پڑے؟ خود ہی فیصلہ کریں، تاریخ کون مسخ کر رہا ہے؟
جج صاحب نے فرمایا ’’مجھے قائداعظم کی پیروی کے جذبے نے وکالت تک پہنچایا‘‘ میری قائداعظمؒ کی روح تک رسائی نہیں کہ ایک ’’عہد ساز‘‘ چیف جسٹس کے خراجِ تحسین پر ان کا ردِعمل لوں۔ سو پی سی او سے پاک اس یوم عدل کا انتظار کرنا پڑے گا جس کا وعدہ ہے۔ اس موضوع کو میں اپنی طرف سے ختم کر رہا ہوں۔
جسٹس (ر) ارشاد حسن خان کے پہلے جوابی کالم کا آغاز بڑا زوردار تھا، میرے بارے میں فرمایا ’’محترم‘‘ کالم نگار تاریخ لکھ رہے ہیں یہ پروا کیے بغیر کہ تاریخ کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں یا اپنے قارئین کو غلط معلومات دے رہے ہیں۔ میں نے اِن کے دونوں کالم نہایت غور سے ایک سے زیادہ بار پڑھے۔ کاش وہ کسی ایک بھی خلافِ حقیقت بات یا تاریخی غلطی کی نشاندہی کر دیتے۔ میں نے تو صرف ایک دن (20جون 2001) کے چہرے پہ پڑی تھوڑی سی گرد جھاڑی ہے۔ جسٹس صاحب، برادرم سہیل وڑائچ کے لئے کوئی فرمان جاری کر سکیں تو میں بھی کئی قسطوں پر مشتمل ’’پاکستان نامہ‘‘ لکھ سکتا ہوں۔ جج صاحب نے تو اپنی سج دھج اور مورپنکھ جیسی لمبی دم والی عبا کو بھی اپنی پیشہ ورانہ مہارت سے کام لیتے ہوئے ’’نظریہ پروٹوکول‘‘ کا جامہ پہنا دیا۔ میری معلومات شاید ناقص تھیں کہ جج ’’تحفظ پروٹوکول‘‘ کا نہیں ’’تحفظ آئین‘‘ کا حلف اٹھاتا ہے۔ جج صاحب نے بجا طور پر میری ’’لاعلمی‘‘ کا ماتم کیا ہے مجھے واقعی پہلی بار معلوم ہوا کہ ’’سرکاری آداب و روایات‘‘ اور ’’پروٹوکول‘‘ کے ضابطے، آئین کے تقاضوں سے کہیں زیادہ مقدس ہوتے ہیں۔ سو آئین جائے بھاڑ میں، مورپنکھ سلامت رہنے چاہئیں۔
میں اللہ کا شکر بجا لاتا ہوں کہ مجھ سے تاریخ مسخ کرنے کا گناہ سرزد نہیں ہوا۔ یوں بھی ہم جیسوں کے ناتواں قلم کی کیا بساط کہ وہ تاریخ کو مسخ کر سکے۔ یہ وہی عبا پوش کر سکتے ہیں جن کا قلم آئین قانون، اخلاقیات اور تاریخ کو ’’حسبِ ضرورت‘‘ مسخ کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ پھر ارشاد ہوا کہ میں نے خواہ مخواہ کسی ’’عاجز‘‘ کو اس قضیے میں گھسیٹ لیا ہے۔ ایسا نہیں سر۔ وہ عاجز خود بن ٹھن کر، برضا و رغبت اس بارات کا دُلہا نہ سہی، شہہ بالا بنا۔ جسٹس صاحب نے مجھے طعنہ دیا کہ میں نے صدر تارڑ کو کیوں نہیں روکا کہ ارشاد حسن خان کو پی سی او کے تحت حلف نہ دیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ میرا منصبی تقاضا نہ تھا، مجھ سے مشورہ ہوا تو میں نے اپنی دیانت دارانہ رائے دیدی۔ چلیں میں صدرِ مملکت کو نہ روک سکا۔ عزت مآب ارشاد حسن خان کو تو صرف اپنے آپ کو روکنا تھا۔ وہ کیوں اپنے اندر پھلجھڑیاں چھوڑتے کسی کمزور لمحے پر قابو نہ پا سکے؟ آخر جسٹس سعید الزماں صدیقی مرحوم سمیت چھ اور جج صاحبان بھی تو تھے جو خوف، جبر اور لالچ کے بے مہر موسم میں پورے قد سے کھڑے رہے اور ایک بات یہ کہ صدر تارڑ نے کبھی اسے اپنے سر کی کلغی نہیں بنایا۔ افسوس ہی کرتے رہے، کاش میں 26 جنوری 2000 کی طلسم ہوش ربا بھی لکھ سکتا۔
ارشاد ہوا کہ میں نے خوبصورت فریم میں مزین تصویر جج صاحب کی خدمت میں پیش کی۔ میں اقرارِ ’’جرم‘‘ کرتا ہوں لیکن تاریخ کے ریکارڈ کے لئے سیاق وسباق کا تذکرہ ضروری ہے۔ 26 جنوری 2000 کو جب خان صاحب چیف جسٹس کا حلف اٹھا چکے تو چائے کے دوران میرے قریب آئے۔ میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہنے لگے ’’صدیقی صاحب! تقریب کی کچھ تصاویر چاہئیں‘‘ میں نے کہا ’’جی ضرور۔ کیوں نہیں‘‘ اگلے ایک ہفتے کے دوران دو دفعہ جج صاحب کے پی ایس نے فون کیا کہ چیف صاحب بار بار پوچھ رہے ہیں۔ میں نے صدر سے بات کر کے ایک بڑی تصویر فریم کرائی۔ کچھ تصاویر لفافے میں ڈالیں۔ انہیں پیش کرنے ججز کالونی، ان کی رہائش گاہ چلا گیا۔ یہ ملاقات محض تصاویر دینے تک محدود نہ تھی۔ ایک گھنٹے کے دوران 12 اکتوبر 1999 کے اقدام سمیت جو گفتگو ہوئی میری ڈائری میں درج ہے۔
میں نے اپنے کسی کالم میں ظفر علی شاہ کیس کا تذکرہ نہیں کیا تھا۔ نجانے کس اندرونی خلش کے باعث انہوں نے سارا زور قلم اپنے فیصلے کے محاسن بیان کرنے پر صرف کر دیا۔ ان کے دلائل کیا ہیں یہ کہ ’’مخالفانہ فیصلہ دیتے تو کیا مشرف اور فوج سرتسلیم خم کر دیتے ؟‘‘ بجا فرمایا، آج اپنے کالم میں یہ سب سے بڑی دلیل دینے سے کہیں بہتر ہوتا کہ آپ ظفر علی شاہ کیس کے فیصلے میں لکھ دیتے کہ ’’12اکتوبر کا اقدام غیر آئینی، غیر قانونی اور ناجائز تھا۔ مشرف غاصب ہے، اس کی حکمرانی کا کوئی جواز نہیں لیکن وہ طاقتور ہے ہم نے یہ فیصلہ دیا تو وہ اور فوج سر تسلیم خم نہ کریں گے اس لئے درخواست مسترد، مشرف نے جو کیا ٹھیک کیا‘‘۔ دلائل کی مینا کاری اور سینکڑوں صفحات کی سیاہ کاری کی ضرورت ہی کیا تھی؟ کیا فیصلے اسی بنیاد پر ہوتے ہیں؟ دوسری دلیل یہ کہ ’’مخالف فیصلہ دینے سے ملک و قوم مصیبت اور عدم استحکام کا شکار ہو جاتے‘‘ یہ دلیل اس وقت موثر ہوتی ہے جب ملک میں جمہوری آئینی نظام چل رہا ہو۔ عدالت سوچتی ہے کہ اس کے کسی سخت فیصلے سے جمہوریت پٹڑی سے نہ اتر جائے، جب پہلے ہی جرنیلی بندوبست نافذ ہو آئین مفلوج پڑا ہو، پارلیمنٹ معطل ہو، عدلیہ آئینی حلف سے دستکش ہو کر آمر وقت کی وفاداری کا حلف اٹھا چکی ہو تو پھر اور کس قیامت نے آنا ہے! پھر تو وہی قیامت بپا ہو سکتی ہے جو 3 نومبر 2007 کو ہوئی۔
قوم پر احسان نہ دھریں، یہ صرف خود حفاظتی کا حربہ تھا۔ انگریز جج نے کوئی سوا دو ہزار سال پہلے لاطینی زبان کے ایک اصول کو اپنے فیصلے میں سموتے ہوئے تاریخ رقم کی تھی کہ
’’Let Justice be done though the heavens fall‘‘
(انصاف ہر حال میں ہونا چاہئے چاہے آسمان ہی کیوں نہ ٹوٹ گریں) پھر ارشاد فرمایا ’’آئین میں ترمیم کا جو اختیار دیا گیا وہ محض نمائشی تھا۔ صاف لفظوں میں کسی ترمیم کی اجازت نہیں دی گئی‘‘ قبلہ کیا آپ کو علم نہیں کہ مشرف نے آپ کے عطا کردہ اس ’’نمائشی اختیار‘‘ کے تحت آئین میں ساٹھ ترامیم کر ڈالیں؟ انہیں سترہویں ترمیم کے ذریعے دستور میں ڈال کر پارلیمانی نظام کو صدارتی میں ڈھال لیا، کیا آپ کو یاد نہیں کہ آپ کی بوئی ہوئی یہ فصل کاٹنے کے لئے کیا کیا پاپڑ بیلنا پڑے؟ خود ہی فیصلہ کریں، تاریخ کون مسخ کر رہا ہے؟
جج صاحب نے فرمایا ’’مجھے قائداعظم کی پیروی کے جذبے نے وکالت تک پہنچایا‘‘ میری قائداعظمؒ کی روح تک رسائی نہیں کہ ایک ’’عہد ساز‘‘ چیف جسٹس کے خراجِ تحسین پر ان کا ردِعمل لوں۔ سو پی سی او سے پاک اس یوم عدل کا انتظار کرنا پڑے گا جس کا وعدہ ہے۔ اس موضوع کو میں اپنی طرف سے ختم کر رہا ہوں۔
جسٹس (ر) ارشاد حسن خان کے پہلے جوابی کالم کا آغاز بڑا زوردار تھا، میرے بارے میں فرمایا ’’محترم‘‘ کالم نگار تاریخ لکھ رہے ہیں یہ پروا کیے بغیر کہ تاریخ کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں یا اپنے قارئین کو غلط معلومات دے رہے ہیں۔ میں نے اِن کے دونوں کالم نہایت غور سے ایک سے زیادہ بار پڑھے۔ کاش وہ کسی ایک بھی خلافِ حقیقت بات یا تاریخی غلطی کی نشاندہی کر دیتے۔ میں نے تو صرف ایک دن (20جون 2001) کے چہرے پہ پڑی تھوڑی سی گرد جھاڑی ہے۔ جسٹس صاحب، برادرم سہیل وڑائچ کے لئے کوئی فرمان جاری کر سکیں تو میں بھی کئی قسطوں پر مشتمل ’’پاکستان نامہ‘‘ لکھ سکتا ہوں۔ جج صاحب نے تو اپنی سج دھج اور مورپنکھ جیسی لمبی دم والی عبا کو بھی اپنی پیشہ ورانہ مہارت سے کام لیتے ہوئے ’’نظریہ پروٹوکول‘‘ کا جامہ پہنا دیا۔ میری معلومات شاید ناقص تھیں کہ جج ’’تحفظ پروٹوکول‘‘ کا نہیں ’’تحفظ آئین‘‘ کا حلف اٹھاتا ہے۔ جج صاحب نے بجا طور پر میری ’’لاعلمی‘‘ کا ماتم کیا ہے مجھے واقعی پہلی بار معلوم ہوا کہ ’’سرکاری آداب و روایات‘‘ اور ’’پروٹوکول‘‘ کے ضابطے، آئین کے تقاضوں سے کہیں زیادہ مقدس ہوتے ہیں۔ سو آئین جائے بھاڑ میں، مورپنکھ سلامت رہنے چاہئیں۔
میں اللہ کا شکر بجا لاتا ہوں کہ مجھ سے تاریخ مسخ کرنے کا گناہ سرزد نہیں ہوا۔ یوں بھی ہم جیسوں کے ناتواں قلم کی کیا بساط کہ وہ تاریخ کو مسخ کر سکے۔ یہ وہی عبا پوش کر سکتے ہیں جن کا قلم آئین قانون، اخلاقیات اور تاریخ کو ’’حسبِ ضرورت‘‘ مسخ کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ پھر ارشاد ہوا کہ میں نے خواہ مخواہ کسی ’’عاجز‘‘ کو اس قضیے میں گھسیٹ لیا ہے۔ ایسا نہیں سر۔ وہ عاجز خود بن ٹھن کر، برضا و رغبت اس بارات کا دُلہا نہ سہی، شہہ بالا بنا۔ جسٹس صاحب نے مجھے طعنہ دیا کہ میں نے صدر تارڑ کو کیوں نہیں روکا کہ ارشاد حسن خان کو پی سی او کے تحت حلف نہ دیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ میرا منصبی تقاضا نہ تھا، مجھ سے مشورہ ہوا تو میں نے اپنی دیانت دارانہ رائے دیدی۔ چلیں میں صدرِ مملکت کو نہ روک سکا۔ عزت مآب ارشاد حسن خان کو تو صرف اپنے آپ کو روکنا تھا۔ وہ کیوں اپنے اندر پھلجھڑیاں چھوڑتے کسی کمزور لمحے پر قابو نہ پا سکے؟ آخر جسٹس سعید الزماں صدیقی مرحوم سمیت چھ اور جج صاحبان بھی تو تھے جو خوف، جبر اور لالچ کے بے مہر موسم میں پورے قد سے کھڑے رہے اور ایک بات یہ کہ صدر تارڑ نے کبھی اسے اپنے سر کی کلغی نہیں بنایا۔ افسوس ہی کرتے رہے، کاش میں 26 جنوری 2000 کی طلسم ہوش ربا بھی لکھ سکتا۔
ارشاد ہوا کہ میں نے خوبصورت فریم میں مزین تصویر جج صاحب کی خدمت میں پیش کی۔ میں اقرارِ ’’جرم‘‘ کرتا ہوں لیکن تاریخ کے ریکارڈ کے لئے سیاق وسباق کا تذکرہ ضروری ہے۔ 26 جنوری 2000 کو جب خان صاحب چیف جسٹس کا حلف اٹھا چکے تو چائے کے دوران میرے قریب آئے۔ میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہنے لگے ’’صدیقی صاحب! تقریب کی کچھ تصاویر چاہئیں‘‘ میں نے کہا ’’جی ضرور۔ کیوں نہیں‘‘ اگلے ایک ہفتے کے دوران دو دفعہ جج صاحب کے پی ایس نے فون کیا کہ چیف صاحب بار بار پوچھ رہے ہیں۔ میں نے صدر سے بات کر کے ایک بڑی تصویر فریم کرائی۔ کچھ تصاویر لفافے میں ڈالیں۔ انہیں پیش کرنے ججز کالونی، ان کی رہائش گاہ چلا گیا۔ یہ ملاقات محض تصاویر دینے تک محدود نہ تھی۔ ایک گھنٹے کے دوران 12 اکتوبر 1999 کے اقدام سمیت جو گفتگو ہوئی میری ڈائری میں درج ہے۔
میں نے اپنے کسی کالم میں ظفر علی شاہ کیس کا تذکرہ نہیں کیا تھا۔ نجانے کس اندرونی خلش کے باعث انہوں نے سارا زور قلم اپنے فیصلے کے محاسن بیان کرنے پر صرف کر دیا۔ ان کے دلائل کیا ہیں یہ کہ ’’مخالفانہ فیصلہ دیتے تو کیا مشرف اور فوج سرتسلیم خم کر دیتے ؟‘‘ بجا فرمایا، آج اپنے کالم میں یہ سب سے بڑی دلیل دینے سے کہیں بہتر ہوتا کہ آپ ظفر علی شاہ کیس کے فیصلے میں لکھ دیتے کہ ’’12اکتوبر کا اقدام غیر آئینی، غیر قانونی اور ناجائز تھا۔ مشرف غاصب ہے، اس کی حکمرانی کا کوئی جواز نہیں لیکن وہ طاقتور ہے ہم نے یہ فیصلہ دیا تو وہ اور فوج سر تسلیم خم نہ کریں گے اس لئے درخواست مسترد، مشرف نے جو کیا ٹھیک کیا‘‘۔ دلائل کی مینا کاری اور سینکڑوں صفحات کی سیاہ کاری کی ضرورت ہی کیا تھی؟ کیا فیصلے اسی بنیاد پر ہوتے ہیں؟ دوسری دلیل یہ کہ ’’مخالف فیصلہ دینے سے ملک و قوم مصیبت اور عدم استحکام کا شکار ہو جاتے‘‘ یہ دلیل اس وقت موثر ہوتی ہے جب ملک میں جمہوری آئینی نظام چل رہا ہو۔ عدالت سوچتی ہے کہ اس کے کسی سخت فیصلے سے جمہوریت پٹڑی سے نہ اتر جائے، جب پہلے ہی جرنیلی بندوبست نافذ ہو آئین مفلوج پڑا ہو، پارلیمنٹ معطل ہو، عدلیہ آئینی حلف سے دستکش ہو کر آمر وقت کی وفاداری کا حلف اٹھا چکی ہو تو پھر اور کس قیامت نے آنا ہے! پھر تو وہی قیامت بپا ہو سکتی ہے جو 3 نومبر 2007 کو ہوئی۔
قوم پر احسان نہ دھریں، یہ صرف خود حفاظتی کا حربہ تھا۔ انگریز جج نے کوئی سوا دو ہزار سال پہلے لاطینی زبان کے ایک اصول کو اپنے فیصلے میں سموتے ہوئے تاریخ رقم کی تھی کہ
’’Let Justice be done though the heavens fall‘‘
(انصاف ہر حال میں ہونا چاہئے چاہے آسمان ہی کیوں نہ ٹوٹ گریں) پھر ارشاد فرمایا ’’آئین میں ترمیم کا جو اختیار دیا گیا وہ محض نمائشی تھا۔ صاف لفظوں میں کسی ترمیم کی اجازت نہیں دی گئی‘‘ قبلہ کیا آپ کو علم نہیں کہ مشرف نے آپ کے عطا کردہ اس ’’نمائشی اختیار‘‘ کے تحت آئین میں ساٹھ ترامیم کر ڈالیں؟ انہیں سترہویں ترمیم کے ذریعے دستور میں ڈال کر پارلیمانی نظام کو صدارتی میں ڈھال لیا، کیا آپ کو یاد نہیں کہ آپ کی بوئی ہوئی یہ فصل کاٹنے کے لئے کیا کیا پاپڑ بیلنا پڑے؟ خود ہی فیصلہ کریں، تاریخ کون مسخ کر رہا ہے؟
جج صاحب نے فرمایا ’’مجھے قائداعظم کی پیروی کے جذبے نے وکالت تک پہنچایا‘‘ میری قائداعظمؒ کی روح تک رسائی نہیں کہ ایک ’’عہد ساز‘‘ چیف جسٹس کے خراجِ تحسین پر ان کا ردِعمل لوں۔ سو پی سی او سے پاک اس یوم عدل کا انتظار کرنا پڑے گا جس کا وعدہ ہے۔ اس موضوع کو میں اپنی طرف سے ختم کر رہا ہوں۔
جسٹس (ر) ارشاد حسن خان کے پہلے جوابی کالم کا آغاز بڑا زوردار تھا، میرے بارے میں فرمایا ’’محترم‘‘ کالم نگار تاریخ لکھ رہے ہیں یہ پروا کیے بغیر کہ تاریخ کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں یا اپنے قارئین کو غلط معلومات دے رہے ہیں۔ میں نے اِن کے دونوں کالم نہایت غور سے ایک سے زیادہ بار پڑھے۔ کاش وہ کسی ایک بھی خلافِ حقیقت بات یا تاریخی غلطی کی نشاندہی کر دیتے۔ میں نے تو صرف ایک دن (20جون 2001) کے چہرے پہ پڑی تھوڑی سی گرد جھاڑی ہے۔ جسٹس صاحب، برادرم سہیل وڑائچ کے لئے کوئی فرمان جاری کر سکیں تو میں بھی کئی قسطوں پر مشتمل ’’پاکستان نامہ‘‘ لکھ سکتا ہوں۔ جج صاحب نے تو اپنی سج دھج اور مورپنکھ جیسی لمبی دم والی عبا کو بھی اپنی پیشہ ورانہ مہارت سے کام لیتے ہوئے ’’نظریہ پروٹوکول‘‘ کا جامہ پہنا دیا۔ میری معلومات شاید ناقص تھیں کہ جج ’’تحفظ پروٹوکول‘‘ کا نہیں ’’تحفظ آئین‘‘ کا حلف اٹھاتا ہے۔ جج صاحب نے بجا طور پر میری ’’لاعلمی‘‘ کا ماتم کیا ہے مجھے واقعی پہلی بار معلوم ہوا کہ ’’سرکاری آداب و روایات‘‘ اور ’’پروٹوکول‘‘ کے ضابطے، آئین کے تقاضوں سے کہیں زیادہ مقدس ہوتے ہیں۔ سو آئین جائے بھاڑ میں، مورپنکھ سلامت رہنے چاہئیں۔
میں اللہ کا شکر بجا لاتا ہوں کہ مجھ سے تاریخ مسخ کرنے کا گناہ سرزد نہیں ہوا۔ یوں بھی ہم جیسوں کے ناتواں قلم کی کیا بساط کہ وہ تاریخ کو مسخ کر سکے۔ یہ وہی عبا پوش کر سکتے ہیں جن کا قلم آئین قانون، اخلاقیات اور تاریخ کو ’’حسبِ ضرورت‘‘ مسخ کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ پھر ارشاد ہوا کہ میں نے خواہ مخواہ کسی ’’عاجز‘‘ کو اس قضیے میں گھسیٹ لیا ہے۔ ایسا نہیں سر۔ وہ عاجز خود بن ٹھن کر، برضا و رغبت اس بارات کا دُلہا نہ سہی، شہہ بالا بنا۔ جسٹس صاحب نے مجھے طعنہ دیا کہ میں نے صدر تارڑ کو کیوں نہیں روکا کہ ارشاد حسن خان کو پی سی او کے تحت حلف نہ دیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ میرا منصبی تقاضا نہ تھا، مجھ سے مشورہ ہوا تو میں نے اپنی دیانت دارانہ رائے دیدی۔ چلیں میں صدرِ مملکت کو نہ روک سکا۔ عزت مآب ارشاد حسن خان کو تو صرف اپنے آپ کو روکنا تھا۔ وہ کیوں اپنے اندر پھلجھڑیاں چھوڑتے کسی کمزور لمحے پر قابو نہ پا سکے؟ آخر جسٹس سعید الزماں صدیقی مرحوم سمیت چھ اور جج صاحبان بھی تو تھے جو خوف، جبر اور لالچ کے بے مہر موسم میں پورے قد سے کھڑے رہے اور ایک بات یہ کہ صدر تارڑ نے کبھی اسے اپنے سر کی کلغی نہیں بنایا۔ افسوس ہی کرتے رہے، کاش میں 26 جنوری 2000 کی طلسم ہوش ربا بھی لکھ سکتا۔
ارشاد ہوا کہ میں نے خوبصورت فریم میں مزین تصویر جج صاحب کی خدمت میں پیش کی۔ میں اقرارِ ’’جرم‘‘ کرتا ہوں لیکن تاریخ کے ریکارڈ کے لئے سیاق وسباق کا تذکرہ ضروری ہے۔ 26 جنوری 2000 کو جب خان صاحب چیف جسٹس کا حلف اٹھا چکے تو چائے کے دوران میرے قریب آئے۔ میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہنے لگے ’’صدیقی صاحب! تقریب کی کچھ تصاویر چاہئیں‘‘ میں نے کہا ’’جی ضرور۔ کیوں نہیں‘‘ اگلے ایک ہفتے کے دوران دو دفعہ جج صاحب کے پی ایس نے فون کیا کہ چیف صاحب بار بار پوچھ رہے ہیں۔ میں نے صدر سے بات کر کے ایک بڑی تصویر فریم کرائی۔ کچھ تصاویر لفافے میں ڈالیں۔ انہیں پیش کرنے ججز کالونی، ان کی رہائش گاہ چلا گیا۔ یہ ملاقات محض تصاویر دینے تک محدود نہ تھی۔ ایک گھنٹے کے دوران 12 اکتوبر 1999 کے اقدام سمیت جو گفتگو ہوئی میری ڈائری میں درج ہے۔
میں نے اپنے کسی کالم میں ظفر علی شاہ کیس کا تذکرہ نہیں کیا تھا۔ نجانے کس اندرونی خلش کے باعث انہوں نے سارا زور قلم اپنے فیصلے کے محاسن بیان کرنے پر صرف کر دیا۔ ان کے دلائل کیا ہیں یہ کہ ’’مخالفانہ فیصلہ دیتے تو کیا مشرف اور فوج سرتسلیم خم کر دیتے ؟‘‘ بجا فرمایا، آج اپنے کالم میں یہ سب سے بڑی دلیل دینے سے کہیں بہتر ہوتا کہ آپ ظفر علی شاہ کیس کے فیصلے میں لکھ دیتے کہ ’’12اکتوبر کا اقدام غیر آئینی، غیر قانونی اور ناجائز تھا۔ مشرف غاصب ہے، اس کی حکمرانی کا کوئی جواز نہیں لیکن وہ طاقتور ہے ہم نے یہ فیصلہ دیا تو وہ اور فوج سر تسلیم خم نہ کریں گے اس لئے درخواست مسترد، مشرف نے جو کیا ٹھیک کیا‘‘۔ دلائل کی مینا کاری اور سینکڑوں صفحات کی سیاہ کاری کی ضرورت ہی کیا تھی؟ کیا فیصلے اسی بنیاد پر ہوتے ہیں؟ دوسری دلیل یہ کہ ’’مخالف فیصلہ دینے سے ملک و قوم مصیبت اور عدم استحکام کا شکار ہو جاتے‘‘ یہ دلیل اس وقت موثر ہوتی ہے جب ملک میں جمہوری آئینی نظام چل رہا ہو۔ عدالت سوچتی ہے کہ اس کے کسی سخت فیصلے سے جمہوریت پٹڑی سے نہ اتر جائے، جب پہلے ہی جرنیلی بندوبست نافذ ہو آئین مفلوج پڑا ہو، پارلیمنٹ معطل ہو، عدلیہ آئینی حلف سے دستکش ہو کر آمر وقت کی وفاداری کا حلف اٹھا چکی ہو تو پھر اور کس قیامت نے آنا ہے! پھر تو وہی قیامت بپا ہو سکتی ہے جو 3 نومبر 2007 کو ہوئی۔
قوم پر احسان نہ دھریں، یہ صرف خود حفاظتی کا حربہ تھا۔ انگریز جج نے کوئی سوا دو ہزار سال پہلے لاطینی زبان کے ایک اصول کو اپنے فیصلے میں سموتے ہوئے تاریخ رقم کی تھی کہ
’’Let Justice be done though the heavens fall‘‘
(انصاف ہر حال میں ہونا چاہئے چاہے آسمان ہی کیوں نہ ٹوٹ گریں) پھر ارشاد فرمایا ’’آئین میں ترمیم کا جو اختیار دیا گیا وہ محض نمائشی تھا۔ صاف لفظوں میں کسی ترمیم کی اجازت نہیں دی گئی‘‘ قبلہ کیا آپ کو علم نہیں کہ مشرف نے آپ کے عطا کردہ اس ’’نمائشی اختیار‘‘ کے تحت آئین میں ساٹھ ترامیم کر ڈالیں؟ انہیں سترہویں ترمیم کے ذریعے دستور میں ڈال کر پارلیمانی نظام کو صدارتی میں ڈھال لیا، کیا آپ کو یاد نہیں کہ آپ کی بوئی ہوئی یہ فصل کاٹنے کے لئے کیا کیا پاپڑ بیلنا پڑے؟ خود ہی فیصلہ کریں، تاریخ کون مسخ کر رہا ہے؟
جج صاحب نے فرمایا ’’مجھے قائداعظم کی پیروی کے جذبے نے وکالت تک پہنچایا‘‘ میری قائداعظمؒ کی روح تک رسائی نہیں کہ ایک ’’عہد ساز‘‘ چیف جسٹس کے خراجِ تحسین پر ان کا ردِعمل لوں۔ سو پی سی او سے پاک اس یوم عدل کا انتظار کرنا پڑے گا جس کا وعدہ ہے۔ اس موضوع کو میں اپنی طرف سے ختم کر رہا ہوں۔