گوگی نے جس اسٹیشن کا کہا تھا وہ Kogarah سے کافی دور تھا۔اور مجھے ٹرین بھی بدلنا تھی۔ اس اسٹیشن کا نام Lakemba تھا۔ وہ اسٹیشن پر میرا منتظر تھا۔ اسٹیشن سے نکل کر ھم دونوں نے پیدل چلنا شروع کیا۔ اور ھم پندرہ منٹ چلنے کے بعد ایک اپارٹمنٹ کے پاس رک گۓ۔ گوگی نے بتایا کہ یہی ان کا اپارٹمنٹ ھے۔ یہ کافی اچھا اپارٹمنٹ تھا۔ Bell بجانے پر گوگی کا دوست دروازے پر آیا۔ گوگی نے بتایا کہ یہ اس کا کراچی کا دوست ھے اور کراچی میں ان کا تعلق لیاری سے ھے۔ مجھے چاۓ پیش کی گئ۔ اپارٹمنٹ اندر سے بھی کافی صاف تھا۔اور تمام چیزوں کو بڑے سلیقے سے رکھا گیا تھا۔ میں نے مکمل چھان بین کے بعد فیصلہ کر لیا کہ ان کے ساتھ رہا جا سکتا ھے۔ میں نے انھیں اپنے فیصلے سے آگاہ کر دیا۔ دونوں نے کہا کہ جب بھی shift ھونا چاہو ھو جانا۔ لیکن کوشش کرو جلد آ جاؤ کیونکہ اس وقت ہمیں یہ اپارٹمنٹ کافی مہنگا پڑ رہا ھے۔ گھر جا کر سریش اور نرملا کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ کو لڑکے ٹھیک لگتے ہیں اور عیاش قسم کے نہیں ہیں تو آپ shift ھو جاؤ۔ میں نے ارادہ کر لیا کہ ایک دو روز میں shift ھو جاؤں گا۔ میں نےگوگی کو بھی آگاہ کر دیا۔
دوسری طرف میں نے اخبار میں ایک اشتھار دیکھا۔ جس میں Red Roosters کی کسی اور برانچ کے لیے اسسٹنٹ مینیجر کی vacancy موجود تھی۔مجھے اسسٹنٹ مینیجر والے سارے کام تو آتے تھے، سوچا apply کر دوں۔
درخواست دینے کے لیے ھیڈ آفس کا پتہ دیا گیا تھا۔ میں نے ایک سادہ صفحہ پرjob کی درخواست لکھ کر post کر دی۔
کئ دن گزر گۓ لیکن میرے پاس کوئ جواب نہ آیا البتہ میں نے محسوس کیا کہ مینیجر میرے ساتھ کچھ ناراض ناراض سا ھے۔ میں نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ وہ مجھ سے lunch کے بعد بات کرے گا۔ lunch کے بعد اس نے مجھے آفس میں بلایا اور کہا کہ تم نے مجھے بتاۓ بناء assistant manager کی job کے لیے apply کیا ھے۔ ھیڈ آفس سے مجھے call آئ تھی۔اس نے کہا کہ آسٹریلیا میں اس طرح direct درخواست نہیں دے سکتے۔ آپ کو میرے توسط سے درخواست دینی چاہیے تھی۔ میں نے اس سے معذرت چاہی۔اور یوں میرا اسسٹنٹ مینیجر بننے کا خواب ادھورا رہ گیا۔
آج Ben نے پھر وہی حرکت کی۔ وہی چوری چھپے چکن کا piece اٹھایا اور منہ میں۔ اور پھر میری منتیں شروع۔ وہ اپنی عادت سے مجبور تھا۔ میں نے اسے پھر سمجھایا۔ اور ڈانٹ ڈپٹ کی۔ اس نے حسب معمول وعدہ کیا کہ آئندہ وہ ایسا نہیں کرے گا۔
دو روز بعد job سے واپسی پر میں نے سریش فیملی کے لیے کچھ تحائف خریدے۔ گھر پہنچ کر میں نے یہ تحائف سریش اور نرملا کے حوالے کیے اور اپنا بوریا بستر اٹھایا اور سریش فیملی کا شکریہ ادا کرتے ھوۓ ان سے رخصت چاہی۔ اس فیملی کے احسانات بھی میں کبھی نہ بھول پاؤں گا۔
میں نےKogarah اسٹیشن سے lakemba کے لیے ٹرین پکڑی۔ Lakemba اسٹیشن پر گوگی میرا منتظر تھا۔ میرا ایک Bag ہی میرا کل اثاثہ تھا۔ جس میں تین چار پینٹیں اور اتنی ہی shirts تھیں۔ اس کے علاوہ tooth brush اور ایسا ہی کچھ اور سامان تھا۔اس کے علاوہ میرا پاسپورٹ اور یونیورسٹی کے documents تھے۔
گوگی نے مجھے بتایا کہ lakemba میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد آباد ھے جن میں زیادہ تر لبنانی مسلمان ہیں۔آج وہ مجھے دوسرے راستے سے اپارٹمنٹ لے کر گیا۔ راستے میں لبنانی مٹھائیوں کی کئ دکانیں اور حلال گوشت کی کئ دکانیں دیکھیں۔ راستے میں ایک مسجد بھی دیکھی۔ یہ علاقہ Kogarah سے بالکل مختلف تھا۔
گوگی اور اس کے دوست کو آسٹریلیا آۓ ایک سال کا عرصہ ھو چکا تھا۔ اس لیے انھیں ہر چیز کے بارے میں کافی معلومات تھیں۔ یہ دونوں visit visa پر آسٹریلیا آۓ تھے اور اب مستقل طور پر یہیں رہنا چاہتے تھے۔
آسٹریلیا میں ہر غیر ملکی فرد چاہتا کہ اسے کسی بھی طریقے سے PR یعنی آسٹریلیا کی شھریت مل جاۓ۔ کوئ کسی بھی قسم کے ویزا پر آیا ھو اس کی خواہش ھوتی کہ جب وہ واپس جاۓ تو اس کے پاس آسٹریلیا کا پاسپورٹ ھو۔ کئ ایسے پاکستانی بھی دیکھے جو چار پانچ سال سے آسٹریلیا میں مقیم تھے اور وہ شھریت کے منتظر تھے۔ کئ ایسے پاکستانی بھی دیکھے جنھوں نے محض شھریت کی خاطر بوڑھی انگریز عورتوں سے شادی رچا رکھی تھی۔
اپارٹمنٹ پہنچ کر گوگی نے مجھے میرا کمرہ دکھایا۔ یہ کافی بڑا کمرہ تھا۔میں نے ایک کونے میں اپنا bag رکھا۔ دونوں دوستوں نے بریانی پکا رکھی تھی۔ بریانی کھانے سے پتہ چلا کہ یہ لوگ کھانا پکانے میں کافی ماہر ھو گۓ ہیں۔
کھانے کے دوران ھم کافی دیر تک پاکستان کی یادوں کو تازہ کرتے رہے۔چونکہ میں نے لیاری میں بھی ایک طویل عرصہ گزارہ تھا اس لیے لیاری بھی ھماری گفتگو کا حصہ رہا۔ گوگی لوگوں نے اپنے اپارٹمنٹ میں بسوں اور ٹرینوں کا شیڈول آویزاں کر رکھا تھا۔ چونکہ میں نے اگلے دن Lakemba سے Carlton جانا تھا۔ دونوں اسٹیشنز کے درمیان کافی فاصلہ تھا اس لیے مجھے صبح جلدی نکلنا تھا۔
یہاں شفٹ ھونے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ھوا کہ اب میں lunch بھی ساتھ لے کر جانے لگا۔ روزانہ اضافی سالن پکایا جاتا تھا تاکہ اگلے دن بھی چل سکے۔ وہ دونوں کھانا پکانے میں expert تھے اس لیے صبح کے ناشتے کی زمہ داری میں نے لے لی۔ مجھے پراٹھے بنانے کا خاصا تجربہ تھا۔ اور انہوں نے بھی میرے بناۓ ھوۓ پراٹھوں کو خوب پسند کیا۔
اللہ تعالی نے روزگار اور رہائش دونوں مسائل حل کر دیے تھے۔ اب میں کافی پر سکون تھا اور مجھے کالج کا visit کرنا تھا تاکہ اپنی تعلیم کے بارے میں مکمل تفصیلات لے سکتا۔اور میں نے یہ سوچ لیا کہ آئندہ آنے والے ہفتہ کالج کا visit کروں گا۔( جاری ھے)