Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
آپ ھمیشہ چھوٹے بچے ھی ھوتے ھیں خواہ عمر کے جس حصے میں بھی ھوں ماں کا اللہ پاس چلے جانا ایسے محسوس ھوتا ھے کہ ماں بہت چھوٹی عمر میں ھی آپکو چھوڑ کر چلی گئیں ۔ اور اگر آپ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ھیں تو یہ دکھ مزید بڑھ جاتا ھے۔ آج 12 جون 2020 نو سال ھوگئے ھماری امی جی کو ھم سے بچھڑے ھوئے، سنا اور دیکھا ھے موت ایک حقیقت ھے ۔ پر دل مانے تو نہ۔ اکثر کپڑے کی دوکانوں پر امی جی کیلئے کپڑے دیکھتا رھتا ھوں، جوتے کی دوکانوں پر نرم جوتے تلاش کرتا رھتا ھوں۔ کئی دفعہ لمبی گفتگو چلتی ھے، کبھی محسوس نہیں ھوا کہ امی جی چلی گئیں ھیں، امی جی کی زندگی تک دیر سے گھر آنا معمول تھا اور بغیر ھارن اور دروازے کی گھنٹی بجائے تسبیح ھاتھ میں لئے گیٹ کھولنا امی جی کا بھی معمول تھا۔ کبھی کبھی جب گھر کے باھر گاڑی پہنچتی ھے تو دھیان گیٹ کی طرف جاتا ھے بند گیٹ دیکھ کر دل اور آنکھ نم ھوجاتی ھے۔ اب اکثر گھر آنے سے پہلے فون کرنا، گاڑی کا ھارن اور گھنٹی بجانا معمول ھے پر پھر بھی انتظار کرنا پڑتا ھے، میری بیوی بہت ھی اچھی خاتون ھیں الحمدللہ سب بچوں کے گھر آنے کے وقت گیٹ پر کھڑی ھوتیں ھیں سکول کی گاڑی رکتی ھے اور گیٹ کھول دیتیں ھیں، پر فرق ھوتا ھے بچوں کی ماں اور اپنی ماں میں۔ ھونا بھی چاھیئے۔
اکثر احساس ھوتا ھے امی جی جلد چلیں گئیں انھیں رکنا چاھیئے تھا ھماری کامیابیاں اور خوشیاں دیکھنے کیلئے۔ اب احساس ھوتا ھے یہ کامیابی ملنے پر اکثر لوگ رو کیوں دیتے ھیں۔ پھر خیال آتا ھے شاید کامیابی دیکھ کر خوش ھونے والی اب اس دنیا میں نہیں ھے۔ یہ اسی کی یاد ھے اور تنہائی ھے۔ میرے خالہ زاد بھائی میاں نواز احمد اکثر کہتے ھیں یار اس دکھ سے باھر نکل۔ خود بہت چھوٹے تھے جب ماں باپ چلے گئے۔ مجھے ایسے محسوس ھوتا ھے جیسے وہ یہ کہہ کر خود کو اس دکھ سے نکالنے کی کوشش کرتے ھیں، ماشاء اللہ کامیاب بیورکریٹ ھیں، پر امی جی نے جب بھی نواز بھائی کو یاد کیا رونے لگ جاتیں تھیں۔ کہتیں تھیں نواز تے بہت ھی چھوٹا سی ۔ پھر اور کچھ نہ بول پاتیں اپنا دوپٹے سے منہ کو چھپا لیتیں تھیں۔ مجھے اس دکھ کی سمجھ نہیں تھی۔ پر امی جی کو روتا دیکھ کر انکے گلے لگ کر خود بھی رونے لگ جاتا تھا۔ پھر ھم دونوں ھی ایک دوسرے کو چپ کراتے تھے۔ میری دو خالہ جی ابھی حیات ھیں ماشاء اللہ ۔ جب بھی ملنے جاوں بغیر بات کئے حال چال پوچھے گلے لگا کر رونے لگ جاتیں ھیں اور میں بھی۔ شہناز بیگم میری والدہ محترمہ کا نام ھے۔ خالہ تھوڑی دیر بعد شہناز بڑی جلدی چلی گئی۔ ھم بھی بہت چھوٹی چھوٹی ھوتیں تھیں جب ھماری ماں چلیں گئیں تھیں۔ پر خالہ میں تو اکتالیس سال کا تھا جب امی جی گئیں، اظہر تینوں نہیں پتہ اولاد ھمیشہ چھوٹی ھی ھوتی ھے کسی ماں کولوں پوچھ۔ میری بدقسمتی ھے کہ دنیاوی مصروفیات کی وجہ سے اپنی خالاوں سے ملنے میں اکثر دیر سویر ھوجاتی ھے۔ اکثر خالہ کا پیغام ملتا ھے ۔ اظہر نوں کہنا کدی خالہ نوں وی یاد کرلیا کرے، اسلام علیکم خالہ وے اظہر تینوں اپنی خالہ یاد نہیں آندی، میں تینوں ھر نماز وچ، دعا وچ یاد کردی آں۔ جی خالہ جی تسی کدی بھلے ھی نہیں ھمیشہ یاد رھندے آو، پھر ھنستے ھوئے تیریاں گلاں نہیں بدلنیاں۔ ماں باپ نوں کجھ پڑھ کے بخشیا کر۔ انناں دا بڑھا حق اے ۔ جی خالہ جی کوشش کرتا ھوں۔پھر وے اظہر ھجے توں بہت چھوٹا ایں تیرے سارے بال سفید ھوگئے نے۔ خالہ جی پچاس سال کا ھوگیا ھوں الحمدللہ، لے ھجے کل دی گل اے جدوں تو پیدا ھویا سی ستر دی جنگ لگی ھوئی سی، جی خالہ جی۔
میری زندگی کے اردگرد میرے والدین اور انکی دعائیں ھروقت موجود رھتی ھیں۔ الحمدللہ
پچھلے نو سال میں امی جی اور ابو جی دونوں چلے گئے اور میں بدل گیا، مجھے کم ھی کسی کی بات بری لگتی ھے، برداشت کر جاتا ھوں۔ پہلے ایسے نہیں تھا۔ سبزیاں کم ھی کھاتا ھوں گوشت اور چکن پسند ھے ھمیشہ بناتی تھیں. ایک دن کہنے لگیں محمداظہر حفیظ! یہ مناسب عادت نہیں ھے جو ھر کھانے میں گوشت کھانا، اگلے دو سال میں دھی سے روٹی کھاتا رھا، مجھے پیار کرتے ھوئے۔کہنے لگیں ناراض ھو گئے ھو۔ نہیں امی جی آپ کا بیٹا پانی کی طرح ھے جس برتن میں ڈالو ویسی شکل۔ چل ضد چھڈ دے ایسے نہیں کرتے ۔ جی بہتر پھر زندگی پہلے کی طرح ھوگئی۔
سبزیاں کچھ ھی کھاتا ھوں، کدو میرے علاوہ گھر میں سب کھاتے تھے۔ امی جی بہت سمجھاتیں اس کے بہت فائدے ھیں کدوکھانا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ھے۔ جی امی جی۔ اور وہ بھی مسکرا دیتیں۔ دو ماہ سے تقریبا تین وقت کدو گوشت ھی کھاتا ھوں پر اس دفعہ ڈاکٹر نے کہا ھے۔ امی جی بھی کیا سوچتی ھونگی۔ پچاس سال لگادیئے، اس سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پورا کرنے میں۔
کمپیوٹر جنریشن سمجھتی ھے کہ ھر کام کا undo اور redo ھوتا ھے ، بہت دفعہ اپنی بیٹیوں کو سمجھاتا ھوں پتر ماں باپ چلے جائیں تو واپس نہیں آتے، نہ ھی undoکی کمانڈ اس پر کام کرتی ھے، اچھا بابا جی پر اس میں رونے والے کیا بات ھے۔ میں سمجھانے سے قاصر ھوں اگر ممکن ھو تو آپ سمجھا دیں،
سب والدین کیلئے دعا کی درخواست ھے، جو اللہ تعالی پاس چلے گئے ھیں اللہ تعالی انکو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کریں آمین، جو حیات ھیں اللہ انکو کو صحت کے ساتھ ایمان والی زندگی دیں آمین ۔
آپ ھمیشہ چھوٹے بچے ھی ھوتے ھیں خواہ عمر کے جس حصے میں بھی ھوں ماں کا اللہ پاس چلے جانا ایسے محسوس ھوتا ھے کہ ماں بہت چھوٹی عمر میں ھی آپکو چھوڑ کر چلی گئیں ۔ اور اگر آپ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ھیں تو یہ دکھ مزید بڑھ جاتا ھے۔ آج 12 جون 2020 نو سال ھوگئے ھماری امی جی کو ھم سے بچھڑے ھوئے، سنا اور دیکھا ھے موت ایک حقیقت ھے ۔ پر دل مانے تو نہ۔ اکثر کپڑے کی دوکانوں پر امی جی کیلئے کپڑے دیکھتا رھتا ھوں، جوتے کی دوکانوں پر نرم جوتے تلاش کرتا رھتا ھوں۔ کئی دفعہ لمبی گفتگو چلتی ھے، کبھی محسوس نہیں ھوا کہ امی جی چلی گئیں ھیں، امی جی کی زندگی تک دیر سے گھر آنا معمول تھا اور بغیر ھارن اور دروازے کی گھنٹی بجائے تسبیح ھاتھ میں لئے گیٹ کھولنا امی جی کا بھی معمول تھا۔ کبھی کبھی جب گھر کے باھر گاڑی پہنچتی ھے تو دھیان گیٹ کی طرف جاتا ھے بند گیٹ دیکھ کر دل اور آنکھ نم ھوجاتی ھے۔ اب اکثر گھر آنے سے پہلے فون کرنا، گاڑی کا ھارن اور گھنٹی بجانا معمول ھے پر پھر بھی انتظار کرنا پڑتا ھے، میری بیوی بہت ھی اچھی خاتون ھیں الحمدللہ سب بچوں کے گھر آنے کے وقت گیٹ پر کھڑی ھوتیں ھیں سکول کی گاڑی رکتی ھے اور گیٹ کھول دیتیں ھیں، پر فرق ھوتا ھے بچوں کی ماں اور اپنی ماں میں۔ ھونا بھی چاھیئے۔
اکثر احساس ھوتا ھے امی جی جلد چلیں گئیں انھیں رکنا چاھیئے تھا ھماری کامیابیاں اور خوشیاں دیکھنے کیلئے۔ اب احساس ھوتا ھے یہ کامیابی ملنے پر اکثر لوگ رو کیوں دیتے ھیں۔ پھر خیال آتا ھے شاید کامیابی دیکھ کر خوش ھونے والی اب اس دنیا میں نہیں ھے۔ یہ اسی کی یاد ھے اور تنہائی ھے۔ میرے خالہ زاد بھائی میاں نواز احمد اکثر کہتے ھیں یار اس دکھ سے باھر نکل۔ خود بہت چھوٹے تھے جب ماں باپ چلے گئے۔ مجھے ایسے محسوس ھوتا ھے جیسے وہ یہ کہہ کر خود کو اس دکھ سے نکالنے کی کوشش کرتے ھیں، ماشاء اللہ کامیاب بیورکریٹ ھیں، پر امی جی نے جب بھی نواز بھائی کو یاد کیا رونے لگ جاتیں تھیں۔ کہتیں تھیں نواز تے بہت ھی چھوٹا سی ۔ پھر اور کچھ نہ بول پاتیں اپنا دوپٹے سے منہ کو چھپا لیتیں تھیں۔ مجھے اس دکھ کی سمجھ نہیں تھی۔ پر امی جی کو روتا دیکھ کر انکے گلے لگ کر خود بھی رونے لگ جاتا تھا۔ پھر ھم دونوں ھی ایک دوسرے کو چپ کراتے تھے۔ میری دو خالہ جی ابھی حیات ھیں ماشاء اللہ ۔ جب بھی ملنے جاوں بغیر بات کئے حال چال پوچھے گلے لگا کر رونے لگ جاتیں ھیں اور میں بھی۔ شہناز بیگم میری والدہ محترمہ کا نام ھے۔ خالہ تھوڑی دیر بعد شہناز بڑی جلدی چلی گئی۔ ھم بھی بہت چھوٹی چھوٹی ھوتیں تھیں جب ھماری ماں چلیں گئیں تھیں۔ پر خالہ میں تو اکتالیس سال کا تھا جب امی جی گئیں، اظہر تینوں نہیں پتہ اولاد ھمیشہ چھوٹی ھی ھوتی ھے کسی ماں کولوں پوچھ۔ میری بدقسمتی ھے کہ دنیاوی مصروفیات کی وجہ سے اپنی خالاوں سے ملنے میں اکثر دیر سویر ھوجاتی ھے۔ اکثر خالہ کا پیغام ملتا ھے ۔ اظہر نوں کہنا کدی خالہ نوں وی یاد کرلیا کرے، اسلام علیکم خالہ وے اظہر تینوں اپنی خالہ یاد نہیں آندی، میں تینوں ھر نماز وچ، دعا وچ یاد کردی آں۔ جی خالہ جی تسی کدی بھلے ھی نہیں ھمیشہ یاد رھندے آو، پھر ھنستے ھوئے تیریاں گلاں نہیں بدلنیاں۔ ماں باپ نوں کجھ پڑھ کے بخشیا کر۔ انناں دا بڑھا حق اے ۔ جی خالہ جی کوشش کرتا ھوں۔پھر وے اظہر ھجے توں بہت چھوٹا ایں تیرے سارے بال سفید ھوگئے نے۔ خالہ جی پچاس سال کا ھوگیا ھوں الحمدللہ، لے ھجے کل دی گل اے جدوں تو پیدا ھویا سی ستر دی جنگ لگی ھوئی سی، جی خالہ جی۔
میری زندگی کے اردگرد میرے والدین اور انکی دعائیں ھروقت موجود رھتی ھیں۔ الحمدللہ
پچھلے نو سال میں امی جی اور ابو جی دونوں چلے گئے اور میں بدل گیا، مجھے کم ھی کسی کی بات بری لگتی ھے، برداشت کر جاتا ھوں۔ پہلے ایسے نہیں تھا۔ سبزیاں کم ھی کھاتا ھوں گوشت اور چکن پسند ھے ھمیشہ بناتی تھیں. ایک دن کہنے لگیں محمداظہر حفیظ! یہ مناسب عادت نہیں ھے جو ھر کھانے میں گوشت کھانا، اگلے دو سال میں دھی سے روٹی کھاتا رھا، مجھے پیار کرتے ھوئے۔کہنے لگیں ناراض ھو گئے ھو۔ نہیں امی جی آپ کا بیٹا پانی کی طرح ھے جس برتن میں ڈالو ویسی شکل۔ چل ضد چھڈ دے ایسے نہیں کرتے ۔ جی بہتر پھر زندگی پہلے کی طرح ھوگئی۔
سبزیاں کچھ ھی کھاتا ھوں، کدو میرے علاوہ گھر میں سب کھاتے تھے۔ امی جی بہت سمجھاتیں اس کے بہت فائدے ھیں کدوکھانا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ھے۔ جی امی جی۔ اور وہ بھی مسکرا دیتیں۔ دو ماہ سے تقریبا تین وقت کدو گوشت ھی کھاتا ھوں پر اس دفعہ ڈاکٹر نے کہا ھے۔ امی جی بھی کیا سوچتی ھونگی۔ پچاس سال لگادیئے، اس سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پورا کرنے میں۔
کمپیوٹر جنریشن سمجھتی ھے کہ ھر کام کا undo اور redo ھوتا ھے ، بہت دفعہ اپنی بیٹیوں کو سمجھاتا ھوں پتر ماں باپ چلے جائیں تو واپس نہیں آتے، نہ ھی undoکی کمانڈ اس پر کام کرتی ھے، اچھا بابا جی پر اس میں رونے والے کیا بات ھے۔ میں سمجھانے سے قاصر ھوں اگر ممکن ھو تو آپ سمجھا دیں،
سب والدین کیلئے دعا کی درخواست ھے، جو اللہ تعالی پاس چلے گئے ھیں اللہ تعالی انکو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کریں آمین، جو حیات ھیں اللہ انکو کو صحت کے ساتھ ایمان والی زندگی دیں آمین ۔