Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
دل خون کے آنسو رورہا ہے، طبعیت بوجھل ،،جگرچھلنی ہواجارہا ہے۔یہ سال نہ صرف ہمارے بلکہ پوری دنیا کیلئے ہی سانحات ،حادثات ،المیوں کی علامت کے طور پر ہی ذہنوں میں نقش رہے گا۔ وطن عزیز میں ایک طرف تو مہلک کورونا وائرس تباہی ،بربادی کی داستانیں رقم کررہا ہے وہیں حکومتی غیرسنجیدگی ،لاپرواہی،ابالی پن اور صلاحیت و اہلیت کا فقدان ایک الگ داستان غم ہے جو فی الحال ہمارا موضوع نہیں ہے۔ہمارا موضوع معاشرے میں بڑھتی عدم برداشت، فرقہ ورانہ ہم آہنگی کا نہ ہونا ہے۔ تنگ نظری ،کینہ پروی،کدورت اور منافرت نے معاشرے کو اس قدر پراگندہ کردیا ہے کہ اب ہمارے شر سے زندگی بھر اتحاد بین المسلمین کا درس دینے والی مذہبی شخصیات محفوظ ہیں اور نہ ہی طارق عزیز جیسے عہد ساز اور باکمال لوگ محفوظ ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بار ایک کافر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مہمان بنا ۔حضور تاجدار ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مہمان نوازی کے لئے بکری منگوائی اسکا دودھ دوہا گیا مہمان کو پیش کیا وہ غٹاغٹ پی گیا۔۔دوسری بکری منگوائی گئی اسکا دودھ بھی اسکی بھوک کم نہ کرسکا تو تیسری چوتھی پانچویں یہاں تک سات بکریوں کا دودھ دوہا گیا جس کے بعد مہمان صاحب کی طبیعت سیر ہوئی اور وہ سو گیا لیکن یقیناًاسکے اندر میزبان کی فراخ دلی گھر کر چکی تھی اس کے کفر پر حضور شافع محشر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اخلاق ضرب لگا چکا تھا دراڑ پڑ چکی تھی صبح تک اس پر چڑھا کفر کا ملمع اتر گیا اور اس نے اسلام قبول کرلیا۔یہ تو خیر آقائے دو جہاں،حضور سرور کونین،رحمتہ للعالمین کا کردار اور اخلاق تھا ۔
آغا شورش کاشمیری کے بقول (یہ واقعہ غالباً ہارون رشید یا ارشاد احمد عارف کےکالم میں پڑھا تھا)ایک مرتبہ مجلس احرار اسلام کے لیڈر مظہر علی اظہرنے قائد اعظم کے بارے میں بے ہودہ شعر کہا تو سید عطاء اللہ شاہ بخاری رو دیےکہا کہ اس نے مجلس احرار اسلام کی زندگی بھر کی کمائی لٹا دی مجھے کسی کے سامنے منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔ اختلاف قائد اعظم سے تھا تو اس عفیفہ کا خیال کیا ہوتا جس نے اسلام قبول کیا ۔ مظہر علی اظہر کے اس شعر نے مجلس احرار اسلام کی سیاسی بساط لپیٹ دی۔
تو جناب یہ حال تھا ہمارے اسلاف کا لیکن ہمارا کیا کردار ہے؟وہ بھی ملاحظہ فرمالیں رواں ہفتے معروف کمپیئر اور اداکار طارق عزیز ، مفتی نعیم، اور علامہ طالب جوہری ہم سے رخصت ہوگئے۔لوگوں نے دکھ، غم،رنج،الم،کرب کااظہار بھی کیا لیکن سوشل میڈیائی غازی اور فیس بکی مجاہدین نے جو طوفان بدتمیزی کیا کہ بندہ کانوں کو ہاتھ لگانے پر مجبور ہوجائے۔ اور اس میں کسی ایک مخصوص مسلک،فرقے یا عقیدے کے لوگ ہی نہیں تقریباً سب ہی لوگ اس غلاظت میں لتھڑے نظر آئے۔ مثلاً مفتی نعیم صاحب کے انتقال کی خبر پر انکے مخالفت فرقے کے ایک صاحب نے تبصرہ کیا کہ ”اسپتال میں کسی نے یارسول اللہ ﷺکا نعرہ لگادیاہوگا”۔ طالب جوہری کے انتقال پرملال کی خبر سن بہت سوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھے اور اظہار افسوس کرنے والوں کے پیچھے لٹھ کے کر چڑھ دوڑے۔ یہی نہیں طارق عزیز صاحب سے متعلق فیس بک پر ایک ‘معروف’ شخصیت کی تحریر گزری جس میں حضرت نے طارق عزیز کو آمروں کا درباری،قصیدہ گو ،منافق اور نجانے کن کن القابات سے نوازا تھاجس کی وجہ (جو مجھے وہ تحریر پڑھ کر لگی) کہ شاید طارق عزیز نے کسی نجی محفل میں انکے قائد کی شان میں گستاخی کی جسارت کردی تھی؎
کھلی زبان تو ظرف ان کا ہوگیا ظاہر
ہزار بھید چھپارکھے تھے خموشی میں
علامہ طالب جوہری ہوں،،یا مفتی نعیم، یا پھر طارق عزیز ہوسکتا ہے کسی کو ان کی شکل پسند نہ ہو،،کسی کو انکے نظریات سے اختلاف ہو اور کوئی انکے عقیدے یا مسلک کے بار ے میں شکوک وشبہات میں مبتلا ہو لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک شخص کی موت جو کہ عالم بھی ہو جس سے متعلق کہا جاتا ہے کہ “موت العالِم۔۔موت العالم”ان شخصیات سے متعلق ہرزہ سرائی کی جائے ۔مجھ ناقص العقل کی رائے میں اس سب کی سب سے بڑی وجہ سیاسی جماعتوں کے پڑھے لکھے اور نام نہاد سویلائزڈ ‘جہلا’ کا وہ جمعہ بازار ہے جو ظاہراً تو دیس بدیس کے صف اول کے تعلیمی اداروں سے پڑھے لکھے تو نہیں البتہ ڈگری یافتہ ضرور ہیں لیکن ساتھ ہی اول درجے کے بدتمیز،بدتہذیب ہونے کے ساتھ ساتھ ذہنی مریض بھی معلوم ہوتے ہیں۔ سب کو مادر پدر آزادی ہے ، جسے چاہیں گالی دیں،جس پر چاہیں الزام دھریں، جس پر دل ہو کفر کا فتوی لگادیں۔چچا غالب یاد آتے ہیں ؎
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمہی کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے
رہی سہی کسر عصر حاضر کے “لفافہ” اور “یوٹیوبر”مولویوں نے پوری کردی۔ کیونکہ جناب اب اگر اختلافی موضوع نہیں ہوگا،ویڈیو کا سلگتا،بھڑکتا،آگ اگلتا Thumbnail نہیں ہوگا تو ویوز کیسے بڑھیں گے؟تو بس گرو گڑے مردے اکھاڑنے کے مصداق جس پر چاہے تبرا کرو،جسے چاہیں گالیاں نکالو،،اگر کوئی اختلاف کی جرات کرے چاہے اپنے ہی مسلک کا کیوں نہ ہو تو سارے چٹے بٹوں کے سمیت ٹوٹ پڑو اور اس قدر زہر اگلو کہ سامنے والے کی اگلی پچھلی سات پشتیں یاد کریں ۔یہی سب تماشا ہم نے مرحوم جنید جمشید کے معاملے پر ایک مفتی صاحب کے ساتھ ہوتادیکھا۔ خیر جناب ویسے بھی جو مولوی ،خطیب،یا ذاکر 50ہزار اور 1 لاکھ روپے لیکر گھنٹےڈیڑھ گھنٹے کی محفل میلاد،، یا مجلس حسین پڑھتا ہو اسے قوم کی ذہنی ،فکری،اخلاقی آبیاری سے زیادہ اپنے پیسوں کی فکر ہوتی ہے اور پھر اگر ان صاحبان نے اتحاد بین المسلمین یا فرقہ ورانہ ہم آہنگی کی جانب لوگوں کو لگادیا تو انکا چورن کون خریدے گا بھیا ؟ان لوگوں کی دکانداری اسی صورت چلتی ہے جب تک وہ اختلافی موضوعات کو ہوا دیتے رہیں ؎
ہم طالب شہر ت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
بدنام اگر ہونگے تو کیا نام نہ ہوگا
آخر میں چلتے چلتے محض اتنا ہی عرض کرونگا کہ عالم کسی بھی فرقے یا عقیدے کا ہو اس کا احترام کریں کیونکہ جب حضور سیدعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں بھی لشکر روانہ ہوتے تھے تو تاکید کی جاتی تھی کہ خواتین اور بچوں کےساتھ علماء کو بھی کچھ نہ کہا جائے۔آپ کسی بھی مسلک،عقیدے،فرقے،مذہب ،قومیت سے تعلق رکھتے ہوں خدارا اختلاف کی آگ بھڑکانے والوں کا بائیکاٹ کریں۔۔اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ طارق عزیز،،مفتی نعیم،، اور علامہ طالب جوہر کی بخشش و مغفرت فرمائے اور انکے درجات بلند فرمائے۔۔ فیس بکی مجاہدین کی خدمت میں خواجہ حیدر علی آتش کا یہ شعر پیش کر کے اجازت چاہتا ہوں ؎
لگے منہ بھی چڑھانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجئے دہن بگڑا
دل خون کے آنسو رورہا ہے، طبعیت بوجھل ،،جگرچھلنی ہواجارہا ہے۔یہ سال نہ صرف ہمارے بلکہ پوری دنیا کیلئے ہی سانحات ،حادثات ،المیوں کی علامت کے طور پر ہی ذہنوں میں نقش رہے گا۔ وطن عزیز میں ایک طرف تو مہلک کورونا وائرس تباہی ،بربادی کی داستانیں رقم کررہا ہے وہیں حکومتی غیرسنجیدگی ،لاپرواہی،ابالی پن اور صلاحیت و اہلیت کا فقدان ایک الگ داستان غم ہے جو فی الحال ہمارا موضوع نہیں ہے۔ہمارا موضوع معاشرے میں بڑھتی عدم برداشت، فرقہ ورانہ ہم آہنگی کا نہ ہونا ہے۔ تنگ نظری ،کینہ پروی،کدورت اور منافرت نے معاشرے کو اس قدر پراگندہ کردیا ہے کہ اب ہمارے شر سے زندگی بھر اتحاد بین المسلمین کا درس دینے والی مذہبی شخصیات محفوظ ہیں اور نہ ہی طارق عزیز جیسے عہد ساز اور باکمال لوگ محفوظ ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بار ایک کافر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مہمان بنا ۔حضور تاجدار ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مہمان نوازی کے لئے بکری منگوائی اسکا دودھ دوہا گیا مہمان کو پیش کیا وہ غٹاغٹ پی گیا۔۔دوسری بکری منگوائی گئی اسکا دودھ بھی اسکی بھوک کم نہ کرسکا تو تیسری چوتھی پانچویں یہاں تک سات بکریوں کا دودھ دوہا گیا جس کے بعد مہمان صاحب کی طبیعت سیر ہوئی اور وہ سو گیا لیکن یقیناًاسکے اندر میزبان کی فراخ دلی گھر کر چکی تھی اس کے کفر پر حضور شافع محشر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اخلاق ضرب لگا چکا تھا دراڑ پڑ چکی تھی صبح تک اس پر چڑھا کفر کا ملمع اتر گیا اور اس نے اسلام قبول کرلیا۔یہ تو خیر آقائے دو جہاں،حضور سرور کونین،رحمتہ للعالمین کا کردار اور اخلاق تھا ۔
آغا شورش کاشمیری کے بقول (یہ واقعہ غالباً ہارون رشید یا ارشاد احمد عارف کےکالم میں پڑھا تھا)ایک مرتبہ مجلس احرار اسلام کے لیڈر مظہر علی اظہرنے قائد اعظم کے بارے میں بے ہودہ شعر کہا تو سید عطاء اللہ شاہ بخاری رو دیےکہا کہ اس نے مجلس احرار اسلام کی زندگی بھر کی کمائی لٹا دی مجھے کسی کے سامنے منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔ اختلاف قائد اعظم سے تھا تو اس عفیفہ کا خیال کیا ہوتا جس نے اسلام قبول کیا ۔ مظہر علی اظہر کے اس شعر نے مجلس احرار اسلام کی سیاسی بساط لپیٹ دی۔
تو جناب یہ حال تھا ہمارے اسلاف کا لیکن ہمارا کیا کردار ہے؟وہ بھی ملاحظہ فرمالیں رواں ہفتے معروف کمپیئر اور اداکار طارق عزیز ، مفتی نعیم، اور علامہ طالب جوہری ہم سے رخصت ہوگئے۔لوگوں نے دکھ، غم،رنج،الم،کرب کااظہار بھی کیا لیکن سوشل میڈیائی غازی اور فیس بکی مجاہدین نے جو طوفان بدتمیزی کیا کہ بندہ کانوں کو ہاتھ لگانے پر مجبور ہوجائے۔ اور اس میں کسی ایک مخصوص مسلک،فرقے یا عقیدے کے لوگ ہی نہیں تقریباً سب ہی لوگ اس غلاظت میں لتھڑے نظر آئے۔ مثلاً مفتی نعیم صاحب کے انتقال کی خبر پر انکے مخالفت فرقے کے ایک صاحب نے تبصرہ کیا کہ ”اسپتال میں کسی نے یارسول اللہ ﷺکا نعرہ لگادیاہوگا”۔ طالب جوہری کے انتقال پرملال کی خبر سن بہت سوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھے اور اظہار افسوس کرنے والوں کے پیچھے لٹھ کے کر چڑھ دوڑے۔ یہی نہیں طارق عزیز صاحب سے متعلق فیس بک پر ایک ‘معروف’ شخصیت کی تحریر گزری جس میں حضرت نے طارق عزیز کو آمروں کا درباری،قصیدہ گو ،منافق اور نجانے کن کن القابات سے نوازا تھاجس کی وجہ (جو مجھے وہ تحریر پڑھ کر لگی) کہ شاید طارق عزیز نے کسی نجی محفل میں انکے قائد کی شان میں گستاخی کی جسارت کردی تھی؎
کھلی زبان تو ظرف ان کا ہوگیا ظاہر
ہزار بھید چھپارکھے تھے خموشی میں
علامہ طالب جوہری ہوں،،یا مفتی نعیم، یا پھر طارق عزیز ہوسکتا ہے کسی کو ان کی شکل پسند نہ ہو،،کسی کو انکے نظریات سے اختلاف ہو اور کوئی انکے عقیدے یا مسلک کے بار ے میں شکوک وشبہات میں مبتلا ہو لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک شخص کی موت جو کہ عالم بھی ہو جس سے متعلق کہا جاتا ہے کہ “موت العالِم۔۔موت العالم”ان شخصیات سے متعلق ہرزہ سرائی کی جائے ۔مجھ ناقص العقل کی رائے میں اس سب کی سب سے بڑی وجہ سیاسی جماعتوں کے پڑھے لکھے اور نام نہاد سویلائزڈ ‘جہلا’ کا وہ جمعہ بازار ہے جو ظاہراً تو دیس بدیس کے صف اول کے تعلیمی اداروں سے پڑھے لکھے تو نہیں البتہ ڈگری یافتہ ضرور ہیں لیکن ساتھ ہی اول درجے کے بدتمیز،بدتہذیب ہونے کے ساتھ ساتھ ذہنی مریض بھی معلوم ہوتے ہیں۔ سب کو مادر پدر آزادی ہے ، جسے چاہیں گالی دیں،جس پر چاہیں الزام دھریں، جس پر دل ہو کفر کا فتوی لگادیں۔چچا غالب یاد آتے ہیں ؎
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمہی کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے
رہی سہی کسر عصر حاضر کے “لفافہ” اور “یوٹیوبر”مولویوں نے پوری کردی۔ کیونکہ جناب اب اگر اختلافی موضوع نہیں ہوگا،ویڈیو کا سلگتا،بھڑکتا،آگ اگلتا Thumbnail نہیں ہوگا تو ویوز کیسے بڑھیں گے؟تو بس گرو گڑے مردے اکھاڑنے کے مصداق جس پر چاہے تبرا کرو،جسے چاہیں گالیاں نکالو،،اگر کوئی اختلاف کی جرات کرے چاہے اپنے ہی مسلک کا کیوں نہ ہو تو سارے چٹے بٹوں کے سمیت ٹوٹ پڑو اور اس قدر زہر اگلو کہ سامنے والے کی اگلی پچھلی سات پشتیں یاد کریں ۔یہی سب تماشا ہم نے مرحوم جنید جمشید کے معاملے پر ایک مفتی صاحب کے ساتھ ہوتادیکھا۔ خیر جناب ویسے بھی جو مولوی ،خطیب،یا ذاکر 50ہزار اور 1 لاکھ روپے لیکر گھنٹےڈیڑھ گھنٹے کی محفل میلاد،، یا مجلس حسین پڑھتا ہو اسے قوم کی ذہنی ،فکری،اخلاقی آبیاری سے زیادہ اپنے پیسوں کی فکر ہوتی ہے اور پھر اگر ان صاحبان نے اتحاد بین المسلمین یا فرقہ ورانہ ہم آہنگی کی جانب لوگوں کو لگادیا تو انکا چورن کون خریدے گا بھیا ؟ان لوگوں کی دکانداری اسی صورت چلتی ہے جب تک وہ اختلافی موضوعات کو ہوا دیتے رہیں ؎
ہم طالب شہر ت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
بدنام اگر ہونگے تو کیا نام نہ ہوگا
آخر میں چلتے چلتے محض اتنا ہی عرض کرونگا کہ عالم کسی بھی فرقے یا عقیدے کا ہو اس کا احترام کریں کیونکہ جب حضور سیدعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں بھی لشکر روانہ ہوتے تھے تو تاکید کی جاتی تھی کہ خواتین اور بچوں کےساتھ علماء کو بھی کچھ نہ کہا جائے۔آپ کسی بھی مسلک،عقیدے،فرقے،مذہب ،قومیت سے تعلق رکھتے ہوں خدارا اختلاف کی آگ بھڑکانے والوں کا بائیکاٹ کریں۔۔اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ طارق عزیز،،مفتی نعیم،، اور علامہ طالب جوہر کی بخشش و مغفرت فرمائے اور انکے درجات بلند فرمائے۔۔ فیس بکی مجاہدین کی خدمت میں خواجہ حیدر علی آتش کا یہ شعر پیش کر کے اجازت چاہتا ہوں ؎
لگے منہ بھی چڑھانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجئے دہن بگڑا