Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
میرے بھائی۔ ہمت نہیں ہارنا، یہ کوئی بیماری نہیں، تم جلد صحت یاب ہوجاو گے، بس، حوصلے سے کام لینا یہ چند دنوں کی بات ہے اور پھر سب ٹھیک ہوجائے گا۔
ایسے کچھ اور الفاظ جنہوں نے اس موذی وباء کے دام میں آنے کے بعد اپنے پیاروں نےپہنچائے۔ بلاشبہ کسی مرض میں مبتلا ہونے پر عموماً عیادت کے دوران ایسے تاثرات پر مبنی جملوں کا تبادلہ ہوتا ہے۔ جن کا بنیادی مقصد صرف اس بیمار کی ڈھارس بندھانا، اسے فوری طور پر پریشانی کی کیفیت سے باہر نکالنا ہوتا ہے۔
میں ان دنوں چونکہ کورونا کی نگرانی میں تھا اس لئے قریبی رشتہ دار اور دوستوں کو معمول سے ہٹ کر فکر لاحق تھی، یہ بات بڑی باعث تقویت تھی کہ سب کا مطمع نظر میری صحت کی بحالی اور زندگی کی بقاء تھا۔ کورونا جیسے روگ کا شکار فرد کسی حد تک ذہنی دباو میں ہوتا ہے، اگر اندر سے نہیں تو مشورے دینے کے بہانے مختلف واقعات سنانے والے اسے کمزور کردیتے ہیں۔ ہاں یہ تجربہ ضرور ہوا کہ بندہ مضبوط اعصاب کا ہو یا پھر اپنی قوت ارادی کا اچھے سے مظاہرہ کرے تو بہت زیادہ تنگ نہیں ہوتا۔
کورونا ہے ،نہیں ہے، علامات موجود ہیں مگر اکثریت خود کو اس مرض سے سماجی فاصلے جتنی دوری پر رکھ رہی ہے۔ بخار، کھانسی، سانس اکھڑنے تک کی علامتوں والے مریض اصرار کررہے ہیں ، “انہں کچھ نہیں وہ ٹھیک ہیں”، “ڈاکٹر نے دوا دی ہے، شاید ٹائیفائیڈ ہوگا، اس لئے بخار نہیں اتررہا”، “کورونا ٹیسٹ کرانے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اس کا علاج ویسی ہی نہیں ہے”۔” ایسے ہی پازیٹو بن کر ہسپتالوں میں یا گھر کے کسی ایک کمرے میں بند ہوجائیں”۔
اس طرح کے تاثرات والے افراد اب بہت زیادہ تعداد میں کم ازکم لاہور میں پائے جارہے ہیں، پہلے کہتے تھے “کسی نے کوئی کورونا والا یا اس کی علامات والا بندہ دیکھا ہے، نہیں ہمیں نظر نہیں آیا”۔ اب کوئی نہیں کہتا کہ “علامات تو وہی ہیں مگر ماننے کو تیار نہیں “۔
ایک اور نظریہ پڑھے لکھے افراد میں پایا جارہا ہے کہ “مجھے معلوم ہے یہ علامات مجھ میں کورونا کی ہیں ، لیکن میں نے خود کو آئیسولیٹ کرلیا ہے”۔
اس عمل میں کوئی حرج نہیں لیکن کیا باقی گھروالے بھی اسی کیفیت میں ہیں، یا وہ بالکل بھلے چنگے ہیں، اس کا کوئی واضح جواب بھی نہیں۔
کراچی کے ایک سنیئر ڈاکٹر نے سماجی طور پر شرمندگی سے بچنے کے لئے خود کو گھر میں الگ تھلگ کرکے بند کرلیا تھا، طبیعت خراب ہونے پر بھی ہسپتال جانے سے گریز کیا، آخر نازک حالت میں جب اہلیہ نے ہسپتالوں کا رُخ کیا تو پھر نوبت وینٹی لیٹر نہ ملنے کی صورت میں موت کے منہ میں جانے تک کی آگئی۔
جب ہم کسی مرض یا تکلیف کو اردگر والوں ، ڈاکٹرز سے چھپائیں گے، وہ روگ باعث ندامت کیوں بن جاتا ہے؟ ایک وباء ہے وہ کسی کو بھی لگ رہی ہے، اسے ایک بیماری کے طور پر قبول کیوں نہیں کرپارہے؟ اسے شک کے مختلف رنگ کیوں دیئے جارہے ہیں؟ کوئی سیاست، کوئی مذہب، کوئی سماج کے حوالے دیتا نظر آرہا ہے۔ یہ کوئی جرم نہیں ، کسی غلط فعل کے نتیجے میں نہیں ہورہا، اس کا کسی اخلاقی برائی سے تعلق نہیں، پھر سماج میں پائے جانے والے زیادہ تر طبقات اس معاملے میں قدامت پسندی، تنگ نطری جیسے رویئے کیوں دکھا رہے ہیں۔
ایک دوسرے کی مدد کے لئے آگے آنے کی ضرورت ہے، جو بھی اس کا شکار ہوتا ہے، اس کی ہمت بڑھائیں، اسے ذہنی طور پر وباء کے مقابلے کے لیے تیار کریں۔ اکثریت دو سے ڈھائی ہفتے میں صحت یاب ہورہی ہے، جب طبی ماہرین نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ ہمیں اس وباء کے ساتھ زندگی گزارنا ہے، اس کی عادت بنالیں پھر مزید سوچنا یا فرار فضول ہے۔
جسے بھی اس حالت میں دیکھیں، بتائی گئی درست اور مناسب ہدایت کی روشنی میں اس کی رہنمائی کریں، اُسے طبی مشورے ضرور دیں، لیکن کسی ایسے علاج کی طرف ہرگز مائل نہ کریں، جس کے نتیجے میں جان کا خطرہ ہو۔
مجھے ڈاکٹرز کی رہنمائی کے ساتھ دوست احباب نے جس طرح بیماری کے ان ایام کو گزارنے کی ہدایات دیں، اگرچہ ابتداء میں تھوڑا گھبرا گیا، لیکن مشترکہ باتیں میں نے تسلیم کیں اور ان پر عمل بھی کیا، لیکن اس سب میں ایک بات ہی سامنے آئی کہ یہ لوگ مجھ سے کس قدر محبت کرتے ہیں، انہیں میری صحت اور زندگی کتنی عزیز ہے، میرے اس وباء میں گھرجانے پر انہیں اچھا نہیں لگا۔ ان کا ردعمل بہت مضبوط تھا، وہ میرے لئے کسی دوا یا آکسیجن سے بڑھ کر تھا۔ میں اکثر دوستوں کو فون پر جواب میں یہ کہہ بھی دیتا کہ آپ کی باتیں میرے لئے آکسیجن سے کم نہیں۔ طب کے شعبے سے وابسطہ تمام دوستوں نے بھرپور احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور مجھے کہیں بھی اکیلے نہیں پڑنے دیا۔
سب مل کر ایک ایندھن کی صورت اختیار کر گئے اور میری کسی بھی کیفیت کو گرنے نہیں دیا بلکہ میں پہلے کورونا کو بڑا آسان لیتا تھا مگر ایک لمحہ ایسا بھی آیا کہ اس نے اپنا آپ دکھایا ، تھوڑی سے پریشانی ہوئی، وہاں سب نے میری ڈھارس کا سامان ایسا باندھا کہ میں اس مختصر وقت میں دوبارہ معمول کی زندگی میں قدم رکھنے میں کامیاب ہوگیا، اور میں جان گیا کہ یہی اپنے درحقیقت میری طاقت ہیں۔