انگریز سامراج کے خلاف برسر پیکار تحریکوں میں سے ایک منفرد اور مزاحمت سے بھرپور تحریک فرائضی تحریک ہے۔اس تحریک کے روح رواں حاجی شریعت اللہ تھے۔یہ برصغیر کے سب سے بڑے صوبے بنگال میں شروع ہوئی۔اس تحریک نے مقامی کسانوں اور مزارعین کو اتنامتاثر کیا کہ وہ اس تحریک کے گرویدہ ہو گئے۔اس تحریک کو کمال اس وقت پنچا جب اس کی قیادت تیتومیر شہید کے ہاتھ آئی۔
تیتو میر کا اصل نام میر نثار علی تھا۔وہ27جنوری 1782ء کو مغربی بنگال (بھارت) کے ایک گائوں میں پیدا ہوا۔وہ تحریک مجاہدین کے سید احمد بریلوی کے جانثاروں میں سے تھے۔تیتو میر نے ابتدائی تعلیم مدرسہ سے حاصل کی وہ حافظ قرآن اور علم حدیث کے ماہر تھے۔وہ عربی اور فارسی زبانوں سے واقف تھے۔
جب سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ جہادِ آزادی کی تیاری کے سلسلہ میں حجاز مقدس گئے ہوئے تھے تو تیتو میر بھی اسی سال1822 حج کرنے کے لئے مکہ پہنچے تو وہاں ان کی ملاقات اپنے مربی سید احمد بریلوی سے ہوئی جو بعد ازاں بالا کوٹ کے مقام پہ سکھوں کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔اس ملاقات نے ان میں جزبہ جہاد وحریت پیدا کر دیا۔اوروہ سید احمد بریلوی کے ہاتھ پر بیعت ہوگئے۔
تیتو میر نے حج سے واپسی پہ بنگال پہنچتے ہی فرائضی تحریک کو منظم کیا۔مقامی کسانوں اور مزارعین کے ہمراہ جاگیرداروں اور بڑے زمینداروں کو ٹیکس دینا بند کر دیا۔بنگال کے زمیندارکسانوں کا خون چوس رہے تھے۔اور انھیں انگریز سامراج کی مکمل حمایت حاصل تھی۔تیتو میر کے ٹیکس نہ دینے کےاس اقدام کی بدولت بنگالی ساہوکار اور بڑے قطعہ دار ان کے مخالف ہو گئے۔
لیکن تیتو میر نے جدوجہد جاری رکھی ۔انھوں نےبنگالی مسلمان کسانوں کو ہندوجاگیرداروں کے خلاف منظم کیا‘ جو ان کا خون چوسنے میں مصروف تھے۔ یاد رہے کہ انگریزوں نے بنگال میں نواب سراج الدولہ کے بعد مسلمان زمینداروں سے زمینیں چھین کر ہندوؤں کی جاگیرداریاں قائم کی تھیں جبکہ مسلمان اپنی زمینوں سے بے دخل ہوکر زمیندار سے کسان بن کر رہ گئے تھے۔
تیتو میر شہید نے اس مزاحمتی جدو جہد کےساتھ ساتھ بنگال میں شریعت کے نفاذ کی کوششیں بھی کی۔جن میں سر فہرست داڑھی کی پابندی اور خواتین کے لئے پردہ شامل تھا۔یہ ایک طرح سےاصلاحی تحریک تھی۔ اس میں شرعی فرائض کی بجا آوری پر زور دیا جاتا تھا۔ ان کے جانثار زیادہ تر غریب کسانوں اور مزدوروں میں سے تھے۔اس تحریک کے ذریعے انہوں نے ان پس ماندہ مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ غیر اسلامی رسم و رواج ترک کردیں اور فرائض اسلامی کی ادائیگی کو اپنا شعار بنائیں۔
بنگال میں موجود جاگیرداروں کو یوں لگا کہ تیتو میر شہید کے ان اقدامات کی بدولت ان کا اقتدار ڈوب جائے گا۔اس پر انھوں نے تیتو میر اور فرائضی تحریک کے حامیوں پہ داڑھی ٹیکس اورمساجد ٹیکس لگانا شروع کر دیا۔یہ ٹیکس لگانے میں ہندو ساہوکار کرشنا رائے پیش پیش تھا۔اس اقدام سے محاذ آرائی بڑھنے لگی ۔ان امتیازی اقدامات پر انگریز حکومت نے خاموشی برقرار رکھی۔جس پر پورا بنگال مشتعل ہو گیا ۔
تیتو میر شہید نے کلکتہ کے نزدیک نرکل باڑیہ نامی گاؤں کو اپنا مرکز بنایا۔ جب وہاں پر خاصے مرید جمع ہو گئے تو انہوں نے آزادی کا اعلان کر دیا۔اور خاص طور پر اپنی فوج بنانا شروع کر دی تاکہ ان ساہوکاروں اور جاگیرداروں کے خلاف جہاد کیا جاسکے۔تیتو میر اور ان کے ساتھیوں نے زمینداروں پر مسلح حملے شروع کر دئیے، اس پر زمینداروں کی راتوں کی نیند حرام ہو گئی۔ جس پر انہوں نے اپنے انگریز آقاؤں کی مدد طلب کی۔
تیتو میر شہید نے اپنے مجاھدین کی مدد سے ایک فوج منظم کی ۔اس فوج میں شامل ہونے والے کو لاٹھی چلانے کی تربیت دی جاتی تھی۔یہ لاٹھی بانس کی بنی ہوتی تھی۔بنگال میں بانس کی فصل کثرت سے ہونے کی وجہ سے یہ لاٹھی بنانا آسان اور بغیر سرمائے کے تھا۔ان مجاھدین نے بنگال میں ایک بانس کا قلعہ (Fort of Bamboos )بھی تعمیر کیا یہ قلعہ بنگالی قصبے ناری کیلیبیریا میں تعمیر کیا گیا۔جو اپنی نوعیت کی ایک انوکھی مثال تھی۔قلعہ کی دیوار دو رویہ تھی اور بانس کی لکڑی سے تعمیر کردہ تھی۔ایک طرح سے یہ لاٹھی بردار فورس کی چھاؤنی تھی۔جہاں مجاھدین کو لاٹھی کے ساتھ لڑنے کی تربیت دی جاتی تھی۔
وسائل کی کمی کی وجہ سے ان کے پاس گھوڑے،اونٹ اور دوسرے جانوروں کی قلت تھی۔نیز سامان حرب سوائے لاٹھیوں کے کچھ نہ تھا۔تیتو میر کے جانثاروں نے بڑے بڑے جاگیرداروں کے اصطبل خانوں پہ حملے کیے اور گھوڑوں کو اپنی فوج کا حصہ بنایا۔ بلکہ بعض دفعہ تھانوں پہ بھی حملہ کیا اور سرکاری گھوڑے قبضے میں لے لئے۔
۔ جب اس تحریک نے زیادہ زور پکڑناشروع کر دیا تو برطانوی حکومت نے 7000سپاہیوں پر مشتمل فوج بھیجی۔ اس وقت تیتو میر کے پیروکاروں کی تعداد 15000ہو چکی تھی۔برطانوی فوج کو پے درپے شکستوں کا سامنا کرنا پڑا۔برطانوی فوج کو تیتو میر اور ان کی ساتھیوں نےشکست دینے کے لیے ایک خصوصی حکمت عملی اختیار کی۔جسے “حملہ کرو اور پسپائی اختیار کرو “strike and retreat کا نام دیا گیا۔اس سے تیتو میر کی جنگی حکمت عملی اور نظم کا پتہ چلتا ہے۔یہ حکمت عملی بے حد کارگر ثابت ہوئی اور برطانوی فوج کو پے درپے شکستوں کا سامنا کرنا پڑا۔
اب مقامی جاگیرداروں نے انگریز سامراج کی مدد کے لئے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیا۔اب انگریز فوج جدید اسلحے سے لیس ہو کر تیتو میر کے مجاھدین کا مقابلہ کرنے آن پڑی۔
14نومبر 1831ء کو برطانوی فوج اور تیتو میر کے ساتھیوں کے درمیان گھمسان کی لڑائی ہوئی ۔شروع میں تیتو میر کے مجاھدین کا پلڑا بھاری رہا مگر بعد میں انگریزوں نےتوپوں اور بندوقوں کی مدد سے مسلسل حملے کئے، ادھر تیتو میر اور ان کے ساتھیوں کے پاس چند لاٹھیوں،تلواروں اور نیزوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔نتیجہ صاف ظاہر تھا تیتو میر اور ان کے ساتھی جدید اسلحے کا مقابلہ نہ کر سکے ۔برطانوی فوجوں نے بانسوں سے بنا ہوا قلعہ بھی تباہ کر دیا اور تیتو میر اپنے کئی ساتھیوں سمیت شہید ہو گئے۔
بعد میں انگریزوں نے بھی تیتو میر کی بہادری کا اعتراف کیا اور ساتھ میں یہ بھی کہا کہ اگر تیتو میر اور ان کے ساتھیوں کے پاس جدید اسلحہ ہوتا تو ان کو شکست دینا آسان نہیں تھا۔تیتو میر اور ان کے ساتھیوں نے محدود وسائل کے باوجود طاقتور برطانوی فوج کا مقابلہ کیا اور شہادت کا رتبہ حاصل کر کے تاریخ میں ہمیشہ کے لیے اپنا نام لکھوا لیا۔
آج بھی تیتو میر شہید کا نام پورے بنگال میں عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔ بنگال کی فوجی بندرگاہ آج بھی ان کے نام سے منسوب ہے۔تیتو میر شہید کی اس انگریز سامراج مزاحمت نے انھیں آج بھی تاریخ میں زندہ رکھا ہوا ہے۔