Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
جب فوٹوگرافی شروع ھوئی تو ضابطہ اخلاق آج کی نسبت مختلف تھا، اس وقت بات موضوع پر ھوتی تھی کہ موضوع مناسب ھے یا نہیں ۔ جیسا کہ دسمبر 1972 میں جب ویتنام پر امریکہی نیپام بمبوں سے حملہ آور تھے تو لوگ دھماکوں کی آواز کے ڈر سے گھروں سے نکل کر بھاگ رھے تھے تو اس وقت ایک بچی جو کہ غسل کر رھی تھی اسی حالت میں خوف سےسڑک پر ننگی بھاگ رھی تھی ایک فوٹوجرنلسٹ نے اس تصویر کو بنایا اور اخبار میں شائع کردیا، پہلی دفعہ امریکی عوام کو امریکہ کے مظالم کا پتہ چلا اور بحث شروع ھوئی کہ کوئی تو فوٹوگرافی کا ضابطہ اخلاق ھونا چاھیئے جس کے مطابق تصاویر شائع ھوں۔ اور پھر کچھ لوگوں نے کہا کہ فوٹوگرافی ایک آرٹ ھے اور اسکی کوئی بائیبل نہیں کہ جس کی پیروی کی جاسکے، بلیک اینڈ وائٹ اور کلر تصاویر جب تک نیگیٹوز اور پازیٹوز تک محدود تھیں ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی صرف موضوع تک ھوتی تھی۔ جس میں کچھ بھی شامل یا منہا نہیں کیا جاسکتا تھا پھر ایک تصویر نے جس میں جنوبی سوڈان میں قحط کے دنوں میں ایک بچی مرنے کے قریب ھے اور ایک گدھ اسکے مرنے کا انتظار کررھا ھے، کہ کب مرے اور وہ اس کو نوچے اس تصویر نے فوٹوجرنلزم کو بہت تنقید کا نشانہ بنایا، کیون کارٹر جو کہ اس تصویر کا فوٹوگرافر تھا اس تصویر پر اسکو ایک بڑے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ لیکن اس ایوارڈ کو لینے کے چار ماہ بعد اس نے خودکشی کرلی، وہ اس تصویر کی وجہ سے شدید ذھنی دباو کا شکار تھا،
یوں تو افغان لڑکی شربت گلا کی تصویر نے بھی بین الااقوامی شہرت حاصل کی اور اسٹیو میک کرری کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا، لیکن اس کی دوسری تصویر جو کہ کچھ سال بعد کی تھی جب اس نے ایک اور خاتون کو شربت گلا کے نام سے پرنٹ کیا ۔ تو اس کا کام بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ یہ فوٹوشاپ کی مدد سے تصویروں میں جوڑ توڑ کرتا ھے۔ اور اس کو اپنی اس حرکت کی وجہ سے نیشنل جیوگرافک جیسی نوکری سے ھاتھ دھونا پڑے، ڈیجیٹل فوٹوگرافی کی آمد سے تو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا ایک نیا ناقابل معافی دور شروع ھوگیا، کہیں کوئی مختلف تصاویر کو مکس کرکے فائن آرٹ فوٹوگرافی کانام دے رھا ھے اور کہیں صحرا میں کسی اور کی تصویر سے اونٹ لیکر ان کو چلانے کی کوشش کی جارھی ھے۔کوئی اس کو فائن آرٹ فوٹوگرافی کہتا ھے اور کوئی نئی تجربہ کاری کا نام دیتا ھے۔ حالانکہ ھیں دونوں ھی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی۔
کچھ دوست ایک ھی تصویر کو کئی آسمان لگا کر اس کیلئے تعریفی کلمات وصول کر رھے ھیں اور کئی دوست ایک ھی سورج کے ساتھ دنیا گھوم آتے ھیں۔ ھر تصویر میں وھی سورج لگا ھوتا ھے، کچھ دوست دوسروں کی تصاویر کو فخریہ اپنے نام سے استعمال کرتے ھیں اور پھر آسانی سے سوری کر لیتے ھیں، کوئی کسی مذھبی سیاست دان کو دوسرے مذاھب کے پیشواؤں کے آگے جھکے ھوئے دکھا کر اپنے فوٹوشاپ کے آرٹ کی تعریف چاھتے ھیں، سوشل میڈیا کے آنے سے تو سارے کے سارے فوٹوگرافی کے ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اڑا دی گئی ھیں، کوئی تصویر انڈیا کی ھوتی ھے اور پاکستانی بنا کر چھاپ دی جاتی ھے، پچھلے دنوں انڈیا میں سیلاب آیا تو کئی میٹرو بس سٹیشن پانی میں ڈوب گئے لیکن سوشل میڈیا انکو پاکستانی مقام دکھا کر پروپیگنڈہ کرتا رھا، چند ماہ پہلے پاکستانی اینکر حامد میر صاحب اور چیئرپرسن پیپلز پارٹی بلاول زرداری صاحب کی ملاقات میں ایک سفید لفافہ دکھایا گیا کہ پہلے وہ بلاول زرداری صاحب کی جیب میں ھے اور پھر حامد میر صاحب کی جیب میں ھے اور اس کو خوب اچھالا گیا حالانکہ یہ ڈیجیٹل ھیرا پھیری کے علاوہ کچھ بھی تو نہیں تھا،
ضروری نہیں ھے کہ تصویر میں ھی جوڑ توڑ کرکے اس کو غلط استعمال کیا جائے بلکہ اس کے جھوٹے عنوان سے بھی اس کا رخ بدلا جاسکتا ھے، جیسا کہ میئر کراچی وسیم اختر اپنی بیوی کے ہمراہ بیرون ملک دورے پر تھے اور سوشل میڈیا انکی بیوی کو سہیلی بنا کر پیش کر رھا تھا، انھوں نے بہت وضاحت دی کہ یہ میری بیوی ھے پر بات پھیل چکی تھی غلط خبر لگانے والا اپنا مقصد حاصل کر چکا تھا۔
ان سارے معاملات کو دیکھتے ھوئے ھمیں مل بیٹھ کر فوٹوگرافی کا کوئی تو ضابطہ اخلاق واضع کرنا ھوگا،
ورنہ جو چینی کہاوت ھے کہ ایک تصویر ایک ھزار لفظ بیان کرتی ھے، اس پر سے لوگوں کا یقین اٹھ جائے گا اور وہ اس کو جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں جانیں گے، یہ ایک سنجیدہ موضوع ھے اور اس کو سنجیدگی سے ھی لینا ھوگا، برائے مہربانی آپ اس سلسلے میں اپنی قیمتی آراء مجھے ای میل کیجئے تاکہ انکو میں اپنی تحقیق “ضابطہ اخلاق برائے فوٹوگرافی” کا حصہ بنا سکوں. میرا ای میل ایڈریس ھے
photographermah1157@gmail.com
جب فوٹوگرافی شروع ھوئی تو ضابطہ اخلاق آج کی نسبت مختلف تھا، اس وقت بات موضوع پر ھوتی تھی کہ موضوع مناسب ھے یا نہیں ۔ جیسا کہ دسمبر 1972 میں جب ویتنام پر امریکہی نیپام بمبوں سے حملہ آور تھے تو لوگ دھماکوں کی آواز کے ڈر سے گھروں سے نکل کر بھاگ رھے تھے تو اس وقت ایک بچی جو کہ غسل کر رھی تھی اسی حالت میں خوف سےسڑک پر ننگی بھاگ رھی تھی ایک فوٹوجرنلسٹ نے اس تصویر کو بنایا اور اخبار میں شائع کردیا، پہلی دفعہ امریکی عوام کو امریکہ کے مظالم کا پتہ چلا اور بحث شروع ھوئی کہ کوئی تو فوٹوگرافی کا ضابطہ اخلاق ھونا چاھیئے جس کے مطابق تصاویر شائع ھوں۔ اور پھر کچھ لوگوں نے کہا کہ فوٹوگرافی ایک آرٹ ھے اور اسکی کوئی بائیبل نہیں کہ جس کی پیروی کی جاسکے، بلیک اینڈ وائٹ اور کلر تصاویر جب تک نیگیٹوز اور پازیٹوز تک محدود تھیں ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی صرف موضوع تک ھوتی تھی۔ جس میں کچھ بھی شامل یا منہا نہیں کیا جاسکتا تھا پھر ایک تصویر نے جس میں جنوبی سوڈان میں قحط کے دنوں میں ایک بچی مرنے کے قریب ھے اور ایک گدھ اسکے مرنے کا انتظار کررھا ھے، کہ کب مرے اور وہ اس کو نوچے اس تصویر نے فوٹوجرنلزم کو بہت تنقید کا نشانہ بنایا، کیون کارٹر جو کہ اس تصویر کا فوٹوگرافر تھا اس تصویر پر اسکو ایک بڑے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ لیکن اس ایوارڈ کو لینے کے چار ماہ بعد اس نے خودکشی کرلی، وہ اس تصویر کی وجہ سے شدید ذھنی دباو کا شکار تھا،
یوں تو افغان لڑکی شربت گلا کی تصویر نے بھی بین الااقوامی شہرت حاصل کی اور اسٹیو میک کرری کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا، لیکن اس کی دوسری تصویر جو کہ کچھ سال بعد کی تھی جب اس نے ایک اور خاتون کو شربت گلا کے نام سے پرنٹ کیا ۔ تو اس کا کام بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ یہ فوٹوشاپ کی مدد سے تصویروں میں جوڑ توڑ کرتا ھے۔ اور اس کو اپنی اس حرکت کی وجہ سے نیشنل جیوگرافک جیسی نوکری سے ھاتھ دھونا پڑے، ڈیجیٹل فوٹوگرافی کی آمد سے تو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا ایک نیا ناقابل معافی دور شروع ھوگیا، کہیں کوئی مختلف تصاویر کو مکس کرکے فائن آرٹ فوٹوگرافی کانام دے رھا ھے اور کہیں صحرا میں کسی اور کی تصویر سے اونٹ لیکر ان کو چلانے کی کوشش کی جارھی ھے۔کوئی اس کو فائن آرٹ فوٹوگرافی کہتا ھے اور کوئی نئی تجربہ کاری کا نام دیتا ھے۔ حالانکہ ھیں دونوں ھی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی۔
کچھ دوست ایک ھی تصویر کو کئی آسمان لگا کر اس کیلئے تعریفی کلمات وصول کر رھے ھیں اور کئی دوست ایک ھی سورج کے ساتھ دنیا گھوم آتے ھیں۔ ھر تصویر میں وھی سورج لگا ھوتا ھے، کچھ دوست دوسروں کی تصاویر کو فخریہ اپنے نام سے استعمال کرتے ھیں اور پھر آسانی سے سوری کر لیتے ھیں، کوئی کسی مذھبی سیاست دان کو دوسرے مذاھب کے پیشواؤں کے آگے جھکے ھوئے دکھا کر اپنے فوٹوشاپ کے آرٹ کی تعریف چاھتے ھیں، سوشل میڈیا کے آنے سے تو سارے کے سارے فوٹوگرافی کے ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اڑا دی گئی ھیں، کوئی تصویر انڈیا کی ھوتی ھے اور پاکستانی بنا کر چھاپ دی جاتی ھے، پچھلے دنوں انڈیا میں سیلاب آیا تو کئی میٹرو بس سٹیشن پانی میں ڈوب گئے لیکن سوشل میڈیا انکو پاکستانی مقام دکھا کر پروپیگنڈہ کرتا رھا، چند ماہ پہلے پاکستانی اینکر حامد میر صاحب اور چیئرپرسن پیپلز پارٹی بلاول زرداری صاحب کی ملاقات میں ایک سفید لفافہ دکھایا گیا کہ پہلے وہ بلاول زرداری صاحب کی جیب میں ھے اور پھر حامد میر صاحب کی جیب میں ھے اور اس کو خوب اچھالا گیا حالانکہ یہ ڈیجیٹل ھیرا پھیری کے علاوہ کچھ بھی تو نہیں تھا،
ضروری نہیں ھے کہ تصویر میں ھی جوڑ توڑ کرکے اس کو غلط استعمال کیا جائے بلکہ اس کے جھوٹے عنوان سے بھی اس کا رخ بدلا جاسکتا ھے، جیسا کہ میئر کراچی وسیم اختر اپنی بیوی کے ہمراہ بیرون ملک دورے پر تھے اور سوشل میڈیا انکی بیوی کو سہیلی بنا کر پیش کر رھا تھا، انھوں نے بہت وضاحت دی کہ یہ میری بیوی ھے پر بات پھیل چکی تھی غلط خبر لگانے والا اپنا مقصد حاصل کر چکا تھا۔
ان سارے معاملات کو دیکھتے ھوئے ھمیں مل بیٹھ کر فوٹوگرافی کا کوئی تو ضابطہ اخلاق واضع کرنا ھوگا،
ورنہ جو چینی کہاوت ھے کہ ایک تصویر ایک ھزار لفظ بیان کرتی ھے، اس پر سے لوگوں کا یقین اٹھ جائے گا اور وہ اس کو جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں جانیں گے، یہ ایک سنجیدہ موضوع ھے اور اس کو سنجیدگی سے ھی لینا ھوگا، برائے مہربانی آپ اس سلسلے میں اپنی قیمتی آراء مجھے ای میل کیجئے تاکہ انکو میں اپنی تحقیق “ضابطہ اخلاق برائے فوٹوگرافی” کا حصہ بنا سکوں. میرا ای میل ایڈریس ھے
photographermah1157@gmail.com
جب فوٹوگرافی شروع ھوئی تو ضابطہ اخلاق آج کی نسبت مختلف تھا، اس وقت بات موضوع پر ھوتی تھی کہ موضوع مناسب ھے یا نہیں ۔ جیسا کہ دسمبر 1972 میں جب ویتنام پر امریکہی نیپام بمبوں سے حملہ آور تھے تو لوگ دھماکوں کی آواز کے ڈر سے گھروں سے نکل کر بھاگ رھے تھے تو اس وقت ایک بچی جو کہ غسل کر رھی تھی اسی حالت میں خوف سےسڑک پر ننگی بھاگ رھی تھی ایک فوٹوجرنلسٹ نے اس تصویر کو بنایا اور اخبار میں شائع کردیا، پہلی دفعہ امریکی عوام کو امریکہ کے مظالم کا پتہ چلا اور بحث شروع ھوئی کہ کوئی تو فوٹوگرافی کا ضابطہ اخلاق ھونا چاھیئے جس کے مطابق تصاویر شائع ھوں۔ اور پھر کچھ لوگوں نے کہا کہ فوٹوگرافی ایک آرٹ ھے اور اسکی کوئی بائیبل نہیں کہ جس کی پیروی کی جاسکے، بلیک اینڈ وائٹ اور کلر تصاویر جب تک نیگیٹوز اور پازیٹوز تک محدود تھیں ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی صرف موضوع تک ھوتی تھی۔ جس میں کچھ بھی شامل یا منہا نہیں کیا جاسکتا تھا پھر ایک تصویر نے جس میں جنوبی سوڈان میں قحط کے دنوں میں ایک بچی مرنے کے قریب ھے اور ایک گدھ اسکے مرنے کا انتظار کررھا ھے، کہ کب مرے اور وہ اس کو نوچے اس تصویر نے فوٹوجرنلزم کو بہت تنقید کا نشانہ بنایا، کیون کارٹر جو کہ اس تصویر کا فوٹوگرافر تھا اس تصویر پر اسکو ایک بڑے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ لیکن اس ایوارڈ کو لینے کے چار ماہ بعد اس نے خودکشی کرلی، وہ اس تصویر کی وجہ سے شدید ذھنی دباو کا شکار تھا،
یوں تو افغان لڑکی شربت گلا کی تصویر نے بھی بین الااقوامی شہرت حاصل کی اور اسٹیو میک کرری کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا، لیکن اس کی دوسری تصویر جو کہ کچھ سال بعد کی تھی جب اس نے ایک اور خاتون کو شربت گلا کے نام سے پرنٹ کیا ۔ تو اس کا کام بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ یہ فوٹوشاپ کی مدد سے تصویروں میں جوڑ توڑ کرتا ھے۔ اور اس کو اپنی اس حرکت کی وجہ سے نیشنل جیوگرافک جیسی نوکری سے ھاتھ دھونا پڑے، ڈیجیٹل فوٹوگرافی کی آمد سے تو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا ایک نیا ناقابل معافی دور شروع ھوگیا، کہیں کوئی مختلف تصاویر کو مکس کرکے فائن آرٹ فوٹوگرافی کانام دے رھا ھے اور کہیں صحرا میں کسی اور کی تصویر سے اونٹ لیکر ان کو چلانے کی کوشش کی جارھی ھے۔کوئی اس کو فائن آرٹ فوٹوگرافی کہتا ھے اور کوئی نئی تجربہ کاری کا نام دیتا ھے۔ حالانکہ ھیں دونوں ھی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی۔
کچھ دوست ایک ھی تصویر کو کئی آسمان لگا کر اس کیلئے تعریفی کلمات وصول کر رھے ھیں اور کئی دوست ایک ھی سورج کے ساتھ دنیا گھوم آتے ھیں۔ ھر تصویر میں وھی سورج لگا ھوتا ھے، کچھ دوست دوسروں کی تصاویر کو فخریہ اپنے نام سے استعمال کرتے ھیں اور پھر آسانی سے سوری کر لیتے ھیں، کوئی کسی مذھبی سیاست دان کو دوسرے مذاھب کے پیشواؤں کے آگے جھکے ھوئے دکھا کر اپنے فوٹوشاپ کے آرٹ کی تعریف چاھتے ھیں، سوشل میڈیا کے آنے سے تو سارے کے سارے فوٹوگرافی کے ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اڑا دی گئی ھیں، کوئی تصویر انڈیا کی ھوتی ھے اور پاکستانی بنا کر چھاپ دی جاتی ھے، پچھلے دنوں انڈیا میں سیلاب آیا تو کئی میٹرو بس سٹیشن پانی میں ڈوب گئے لیکن سوشل میڈیا انکو پاکستانی مقام دکھا کر پروپیگنڈہ کرتا رھا، چند ماہ پہلے پاکستانی اینکر حامد میر صاحب اور چیئرپرسن پیپلز پارٹی بلاول زرداری صاحب کی ملاقات میں ایک سفید لفافہ دکھایا گیا کہ پہلے وہ بلاول زرداری صاحب کی جیب میں ھے اور پھر حامد میر صاحب کی جیب میں ھے اور اس کو خوب اچھالا گیا حالانکہ یہ ڈیجیٹل ھیرا پھیری کے علاوہ کچھ بھی تو نہیں تھا،
ضروری نہیں ھے کہ تصویر میں ھی جوڑ توڑ کرکے اس کو غلط استعمال کیا جائے بلکہ اس کے جھوٹے عنوان سے بھی اس کا رخ بدلا جاسکتا ھے، جیسا کہ میئر کراچی وسیم اختر اپنی بیوی کے ہمراہ بیرون ملک دورے پر تھے اور سوشل میڈیا انکی بیوی کو سہیلی بنا کر پیش کر رھا تھا، انھوں نے بہت وضاحت دی کہ یہ میری بیوی ھے پر بات پھیل چکی تھی غلط خبر لگانے والا اپنا مقصد حاصل کر چکا تھا۔
ان سارے معاملات کو دیکھتے ھوئے ھمیں مل بیٹھ کر فوٹوگرافی کا کوئی تو ضابطہ اخلاق واضع کرنا ھوگا،
ورنہ جو چینی کہاوت ھے کہ ایک تصویر ایک ھزار لفظ بیان کرتی ھے، اس پر سے لوگوں کا یقین اٹھ جائے گا اور وہ اس کو جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں جانیں گے، یہ ایک سنجیدہ موضوع ھے اور اس کو سنجیدگی سے ھی لینا ھوگا، برائے مہربانی آپ اس سلسلے میں اپنی قیمتی آراء مجھے ای میل کیجئے تاکہ انکو میں اپنی تحقیق “ضابطہ اخلاق برائے فوٹوگرافی” کا حصہ بنا سکوں. میرا ای میل ایڈریس ھے
photographermah1157@gmail.com
جب فوٹوگرافی شروع ھوئی تو ضابطہ اخلاق آج کی نسبت مختلف تھا، اس وقت بات موضوع پر ھوتی تھی کہ موضوع مناسب ھے یا نہیں ۔ جیسا کہ دسمبر 1972 میں جب ویتنام پر امریکہی نیپام بمبوں سے حملہ آور تھے تو لوگ دھماکوں کی آواز کے ڈر سے گھروں سے نکل کر بھاگ رھے تھے تو اس وقت ایک بچی جو کہ غسل کر رھی تھی اسی حالت میں خوف سےسڑک پر ننگی بھاگ رھی تھی ایک فوٹوجرنلسٹ نے اس تصویر کو بنایا اور اخبار میں شائع کردیا، پہلی دفعہ امریکی عوام کو امریکہ کے مظالم کا پتہ چلا اور بحث شروع ھوئی کہ کوئی تو فوٹوگرافی کا ضابطہ اخلاق ھونا چاھیئے جس کے مطابق تصاویر شائع ھوں۔ اور پھر کچھ لوگوں نے کہا کہ فوٹوگرافی ایک آرٹ ھے اور اسکی کوئی بائیبل نہیں کہ جس کی پیروی کی جاسکے، بلیک اینڈ وائٹ اور کلر تصاویر جب تک نیگیٹوز اور پازیٹوز تک محدود تھیں ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی صرف موضوع تک ھوتی تھی۔ جس میں کچھ بھی شامل یا منہا نہیں کیا جاسکتا تھا پھر ایک تصویر نے جس میں جنوبی سوڈان میں قحط کے دنوں میں ایک بچی مرنے کے قریب ھے اور ایک گدھ اسکے مرنے کا انتظار کررھا ھے، کہ کب مرے اور وہ اس کو نوچے اس تصویر نے فوٹوجرنلزم کو بہت تنقید کا نشانہ بنایا، کیون کارٹر جو کہ اس تصویر کا فوٹوگرافر تھا اس تصویر پر اسکو ایک بڑے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ لیکن اس ایوارڈ کو لینے کے چار ماہ بعد اس نے خودکشی کرلی، وہ اس تصویر کی وجہ سے شدید ذھنی دباو کا شکار تھا،
یوں تو افغان لڑکی شربت گلا کی تصویر نے بھی بین الااقوامی شہرت حاصل کی اور اسٹیو میک کرری کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا، لیکن اس کی دوسری تصویر جو کہ کچھ سال بعد کی تھی جب اس نے ایک اور خاتون کو شربت گلا کے نام سے پرنٹ کیا ۔ تو اس کا کام بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ یہ فوٹوشاپ کی مدد سے تصویروں میں جوڑ توڑ کرتا ھے۔ اور اس کو اپنی اس حرکت کی وجہ سے نیشنل جیوگرافک جیسی نوکری سے ھاتھ دھونا پڑے، ڈیجیٹل فوٹوگرافی کی آمد سے تو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا ایک نیا ناقابل معافی دور شروع ھوگیا، کہیں کوئی مختلف تصاویر کو مکس کرکے فائن آرٹ فوٹوگرافی کانام دے رھا ھے اور کہیں صحرا میں کسی اور کی تصویر سے اونٹ لیکر ان کو چلانے کی کوشش کی جارھی ھے۔کوئی اس کو فائن آرٹ فوٹوگرافی کہتا ھے اور کوئی نئی تجربہ کاری کا نام دیتا ھے۔ حالانکہ ھیں دونوں ھی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی۔
کچھ دوست ایک ھی تصویر کو کئی آسمان لگا کر اس کیلئے تعریفی کلمات وصول کر رھے ھیں اور کئی دوست ایک ھی سورج کے ساتھ دنیا گھوم آتے ھیں۔ ھر تصویر میں وھی سورج لگا ھوتا ھے، کچھ دوست دوسروں کی تصاویر کو فخریہ اپنے نام سے استعمال کرتے ھیں اور پھر آسانی سے سوری کر لیتے ھیں، کوئی کسی مذھبی سیاست دان کو دوسرے مذاھب کے پیشواؤں کے آگے جھکے ھوئے دکھا کر اپنے فوٹوشاپ کے آرٹ کی تعریف چاھتے ھیں، سوشل میڈیا کے آنے سے تو سارے کے سارے فوٹوگرافی کے ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اڑا دی گئی ھیں، کوئی تصویر انڈیا کی ھوتی ھے اور پاکستانی بنا کر چھاپ دی جاتی ھے، پچھلے دنوں انڈیا میں سیلاب آیا تو کئی میٹرو بس سٹیشن پانی میں ڈوب گئے لیکن سوشل میڈیا انکو پاکستانی مقام دکھا کر پروپیگنڈہ کرتا رھا، چند ماہ پہلے پاکستانی اینکر حامد میر صاحب اور چیئرپرسن پیپلز پارٹی بلاول زرداری صاحب کی ملاقات میں ایک سفید لفافہ دکھایا گیا کہ پہلے وہ بلاول زرداری صاحب کی جیب میں ھے اور پھر حامد میر صاحب کی جیب میں ھے اور اس کو خوب اچھالا گیا حالانکہ یہ ڈیجیٹل ھیرا پھیری کے علاوہ کچھ بھی تو نہیں تھا،
ضروری نہیں ھے کہ تصویر میں ھی جوڑ توڑ کرکے اس کو غلط استعمال کیا جائے بلکہ اس کے جھوٹے عنوان سے بھی اس کا رخ بدلا جاسکتا ھے، جیسا کہ میئر کراچی وسیم اختر اپنی بیوی کے ہمراہ بیرون ملک دورے پر تھے اور سوشل میڈیا انکی بیوی کو سہیلی بنا کر پیش کر رھا تھا، انھوں نے بہت وضاحت دی کہ یہ میری بیوی ھے پر بات پھیل چکی تھی غلط خبر لگانے والا اپنا مقصد حاصل کر چکا تھا۔
ان سارے معاملات کو دیکھتے ھوئے ھمیں مل بیٹھ کر فوٹوگرافی کا کوئی تو ضابطہ اخلاق واضع کرنا ھوگا،
ورنہ جو چینی کہاوت ھے کہ ایک تصویر ایک ھزار لفظ بیان کرتی ھے، اس پر سے لوگوں کا یقین اٹھ جائے گا اور وہ اس کو جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں جانیں گے، یہ ایک سنجیدہ موضوع ھے اور اس کو سنجیدگی سے ھی لینا ھوگا، برائے مہربانی آپ اس سلسلے میں اپنی قیمتی آراء مجھے ای میل کیجئے تاکہ انکو میں اپنی تحقیق “ضابطہ اخلاق برائے فوٹوگرافی” کا حصہ بنا سکوں. میرا ای میل ایڈریس ھے
photographermah1157@gmail.com